اپنے خیر خواہ ‘ طارق پیرزادہ ہی سے پوچھ لیا ہوتا۔ 1971ء میں گرفتار پاکستانی فوجیوں میں ایک ایسا بھی تھا‘بھارتی جنرل جس سے مرعوب تھے اس کے ساتھ تصویریں بنوائیں۔ممتاز ترین عالمی جریدوں میں سے ایک نیوز ویک نے لکھا‘معتبر اخبار کرسچین سائنس مانیٹر نے لکھا کہ وہ بہترین میں سے بہترین ہے۔ملٹری کالج جہلم میں اس نے تعلیم پائی تھی۔ عسکری تعلیم کے لئے وہ دنیا کا سب سے بہترین ادارہ تھا۔بریگیڈیئر رفیق پرنسپل تھے‘فیلڈ مارشل ایوب خان دس منٹ پہلے پہنچے تو انہیں انتظار کرنا پڑا۔ سلامی کے ہنگام چیخ کر یحییٰ خان سے کہا ''Shun genral''…اور جنرل سیدھا ہو گیا۔ شیخ مجیب الرحمن کی گرفتاری کا فیصلہ ہوا تو فریضہ بریگیڈیئر کو سونپا گیا۔ ملٹری کالج جہلم کی تشکیل کو 74برس بیت چکے تو ‘ بہادر ترین فرزند کا اعزاز بریگیڈیئر سلطان کو ملا ۔1977ء کا مارشل لاء نافذ کرنے کے فوراً بعد جن لوگوں کو اطلاع دی گئی ان میں‘ نسبتاً نچلے درجے یہ افسر بھی تھا۔لس بیلہ میں وہ تعینات تھا۔ چند ماہ پہلے الیکشن کے بارے میں فوج کے صدر دفتر کو ایک خط اس نے لکھا تھا۔دھاندلی کی شکایت کی تھی۔ جنرل محمد ضیاء الحق نے کہا: بریگیڈیئر اب تم خوش ہو؟ فوجی افسر نے کہا: سر! آپ نے تو اس سے بھی بڑی دھاندلی کر دی۔ ان دونوں اساطیری کرداروں ‘استاد بریگیڈیئر رفیق اورشاگرد بریگیڈیئر سلطان میں قدرِ مشترک کیا تھی؟ہوش مندی اور اصول پرستی۔ ظاہر ہے کہ شجاعت بھی۔ اب ہم پیچھے پلٹتے ہیں‘ کھجوروں والے شہر کو۔سرکارﷺ کلام فرما ہیں۔ جو کچھ ارشاد کیا اس کا مفہوم یہ ہے: اللہ نے عقل کو پیدا کیا تو اس پہ ناز فرمایا۔ کہا کہ آج کے بعد جو کچھ کسی کو دوں گا ‘تیرے طفیل دوں گا۔ جو کچھ کسی سے لوں گا تیری وجہ سے لوں گا۔ یعنی یہ کہ پروردگار کی رحمت سے جو کچھ عطا ہو گا دانش و دانائی کے ذریعے ہو گا۔ جو بھی نقصان پہنچے گا‘ حماقت سے۔ یہ حدیثِ قدسی ہے اگرچہ قرآن کا حصہ نہیں مگر الفاظ بھی اس کے الہام ہوتے ہیں۔علامہ جاوید غامدی کے سوا سب علماء یہ بات جانتے ہیں۔ اہلِ علم کی خدمت میں حاضر ہونے والے بھی جانتے ہیں۔ جاوید غامدی بہت ذہین آدمی ہیں۔ بات کبھی سمجھ نہیں پاتے تو اس لئے کہ علم خود ایک حجاب ہے‘ عقل خود ایک حجاب۔اقبالؔ نے کہا تھا: روز ازل مجھ سے کہا یہ جبرائیل نے جو عقل کا غلام ہو وہ دل نہ کر قبول عقل کے اقبالؔ مخالف نہیں تھے۔ کیسے ہو سکتے کہ خود دانائوں کے دانا تھے۔ اس عقل کی مذمت کرتے ہیں‘زعم کے سبب جو اندھیرے کی دیوار کھڑی کر دے : گزر جا عقل سے آگے کہ یہ نور چراغِ راہ ہے‘ منزل نہیں ہے خان عمران خان کے بارے میں بہت پہلے علامہ جاوید غامدی نے کہا تھا: وہ ایک بچہ ہے۔ شاید تھوڑے سے اضافے کی جسارت کرنی چاہیے: بہت اچھا‘ بہت ہی بہادر بچہ۔ ارے بھائی دنیا کا سب سے بہترین کینسر ہسپتال اس نے بنایا۔ ارے بھائی‘ اس سے بہت پہلے کرکٹ کا عالمی کپ اس نے جیتا ۔ اس حال میں کہ پہلے چار میچ ٹیم نے ہار دیے تھے۔ چوتھے میچ کے بعد اس کے سب سے پرانے‘ سب سے اچھے دوست گولڈی نے کہا تھا:واپس نہ آنا‘ کچھ عرصہ وہیں یورپ میں پڑے رہنا۔ جواب حیران کن تھا: عالمی کپ جیت کر سیدھا میں لاہور پہنچوں گا۔ ہسپتال بنانے کا ارادہ کیا تو اسے پاگل سمجھا گیا۔ 30 میں سے 29ڈاکٹروں نے کہا: بن سکتا ہی نہیں۔ تیسویں کا خیال یہ تھا کہ بن سکتا ہے‘ چل نہیں سکتا۔ مزید دس شوکت خانم ہسپتال وہ بنا سکتا ہے۔ مزید پچاس نمل کالج تعمیر کر سکتا ہے۔کارِ سیاست مگراس کے بس کا نہیں۔ ہر آدمی کو اللہ ایک ہنر عطا کرتا ہے ۔ یہ ہنر اسے نہیں بخشا ۔خود سیاسی حرکیات سے ناآشنا۔ اس کے مشیر سیاست کے خم و پیچ سے بے خبر۔ اس لئے کہ وہ مردم شناس نہیں۔ خوشامد پسند ہے‘ چنانچہ ہر طرح کے شکر پارہ فروش ارد گرد اس کے جمے رہتے ہیں۔ بہت سے نعیم الحق‘ کئی قسم کے سیف اللہ نیازی اور ہر قماش کے عامر کیانی۔ ان سے وہ مشورہ کرتا ہے۔ان کی مانتا ہے۔ جانتا ہے کہ سچ کڑوا ہوتا ہے‘ دوا کی طرح کڑوا۔ بچے کو دوا کون پلائے؟ جس آدمی کا حال یہ ہو کہ خود ٹکٹ جاری کرنے کی بجائے‘ دوسروں کو یہ فرض سونپ دے‘ ڈھنگ سے کیا وہ ملک چلا سکتا ہے؟ مسئلہ مولانا فضل الرحمن نہیں‘خود اس کا انداز فکر ہے۔ صادق آباد سے راولپنڈی تک چند سو مزید مظاہرین بھی ان کے قافلے میں شامل نہ ہوئے۔ پنجاب کو بے حس گردانا جاتا ہے۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ دانا بھی وہی ہے۔ وقت کے تیور پہچانتا ہے۔ سید احمد اور سید اسماعیل سرحد کے بعد پنجاب کو فتح کرنے کے آرزو مند تھے۔ پٹھانوں نے حمایت واپس لے لی ۔ پنجاب نے ساتھ ہی نہ دیا ۔انگریز آئے تو قبول کر لیاکہ امن آئے۔ ایک صدی کے بعد انگریز کو رخصت کرنے کا وقت آیا تو فیصلہ کن پنجاب بھی تھا۔ جس دن پنجاب نے کہا ’’چلے جائو‘‘ اس دن استعمار کو دفع ہونا پڑا۔ پنجاب میں اکثریت پی ٹی آئی کو حاصل نہیں۔ اس کے باوجود پورے پنجاب نے مولوی صاحب کا ساتھ دینے سے انکار کر دیا۔ یہ ایک پہلو ہے۔ بہت سے دوسرے بھی ہیں۔ تفصیل عرض کرنے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔ کچھ لوگ ناچیز سے زیادہ بہتر انداز میں کر سکتے ہیں‘ مگر حاصل کیا؟ سایۂِ ابرِ گریزاں سے مجھے کیا لینا ریگ زاروں میں بگولوں کے سوا کچھ بھی نہیں بہت کوشش امریکیوں نے کر لی۔ اب بھی جاری ہے۔ اربوں ڈالر خرچ کر ڈالے ہر سال دو ارب ڈالر۔ افغانستان میں قومی فوج تشکیل نہ پا سکی۔ کبھی نہ پا سکے گی۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی نے کہا تھا: آٹھ بلین ڈالر سالانہ خرچ کر لیں تب بھی یہ ممکن نہیں۔یہ بھی کہا تھا کہ ایک قبائلی سماج تاریخی عمل کے ذریعے جدید معاشرے میں ڈھلتا ہے۔ ابھی ابھی یہ خیال ذہن میں آیا ہے: جنرل کیانی نے کیا مورخ ٹائن بی کو پڑھا ہو گا؟ ابن خلدون کا مطالعہ کیا ہو گا؟۔ یہ تو ہم سب جانتے ہیں کہ ہوش مند ہیں۔ عمران خان کو سمجھے تو وہ سمجھے۔ اس کی حمایت کی نہ مخالفت۔اسے چاہا نہ اس سے نفرت کی۔ کیسے کیسے ورنہ دھوکہ کھا گئے۔ جن لوگوں نے اسے وزارت عظمیٰ سونپنے کا فیصلہ کیا‘ 2018ء کے اوائل میںان سے عرض کیا تھا کہ تقدیر کا لکھا ٹل نہیں سکتا‘ ورنہ یہ واضح ہے کہ اقتدار کے گھوڑے کی سواری بچے کے بس کی نہیں۔ مولوی صاحب کا مقدمہ غلط ہے۔صاف اور سفید جھوٹ۔ سب جانتے ہیں کہ ان کے عائد کردہ الزامات میں بہت کم صداقت ہے۔ سب جانتے ہیں کہ وہ ابن الوقت ہیں۔ان کا دامن بنا ہی دھبوں سے ہے۔ نواب زادہ نصراللہ خاں مرحوم ایک شعر پڑھا کرتے: خدا کی شان کہ ایک کلچڑی گنجی حضورِ بلبلِ بستاںکرے نوا سنجی مولانا فضل الرحمن بھی کسی کو ایجنٹ ہونے کا طعنہ دیں؟ سبحان اللہ‘ سبحان اللہ۔ جہد للبقا یعنی instinct Survival کے سوا تقریباً تمام انسانی جبلتیں عقل کی دشمن ہیں۔ تکبّر سب سے بڑھ کر۔ عجیب ایک احساس میں خان صاحب مبتلا ہیں۔ یہ کہ وہ ایک برگزیدہ آدمی ہیں۔ یہ کہ اللہ تعالیٰ نے کارنامے انجام دینے کے لئے انہیں پیدا کیا ہے۔ یہ کہ وہ سب سے بڑھ کر ہیں۔ کرۂِ ارض پہ بسنے والے سات ارب انسانوں میں سب سے افضل۔ کبھی کبھی تو خیرہ کن تاریخی کرداروں کا تذکرہ بھی اس طرح موصوف کرتے ہیں‘گویا وہ پھسڈی سے طالب علم ہوں۔رٹاّالگا کرامتحان پاس کرنے والے۔ یہ مشورہ عالی جناب نے مانا کیسے کہ مولوی صاحب کے لشکر کو اسلام آباد آنے کی اجازت دی جائے۔ ڈاکٹر معید پیرزادہ چیختے رہے۔ خادم نے بھی عرض کیا مگر وہ نعیم الحقوں کی سنتے ہیں‘ پیرزادوں کی نہیں۔اپنے خیر خواہ ‘ طارق پیرزادہ ہی سے پوچھ لیا ہوتا۔