وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار اپنے چنگاریاں اڑاتے پیش رو کی نسبت دھیمے مزاج کے شخص ہیں۔ انہیں نہ دوران خطاب مائک الٹنے آتے ہیں نہ جا بے جا ترنم اور تحت اللفظ میں اپنے ہی دور حکومت میں جالب کی میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا کی گردان کرنی آتی ہے۔برستی بارش میں لانگ بوٹ اور سولا ہیٹ پہن کر افسران کو بیک جنبش انگشت معطل کرنے کی روایت سے بھی موصوف واقف نہیں۔میڈیا کے شور شرابے اور اسے اپنے ساتھ مشغول رکھنے کے فن سے ناواقف وزیر اعلی عثمان بزدار خاموشی سے صوبے میں انقلابی اقدامات میں مصروف ہیں۔ان میں سے ایک گزشتہ دنوں صوبہ پنجاب میں پرائمری سطح پہ ذریعہ تعلیم اردو قرار دینے کا فیصلہ ہے۔ یہ اس قدر دور رس اور انقلابی نوعیت کا فیصلہ ہے جس کے اثرات ، اگر یہ حسب سابق حکومتوں کی تلون مزاجی اور غیر سنجیدگی کی نذرنہ ہوگیا،تو آنے والے ایک عشرے میں نظر آئیں گے۔مجھے نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ نفاذ اردو اور اردو کو ذریعہ تعلیم بنانے کی تحریک کے علمبردار وزیراعلی پنجاب کے اس فیصلے پہ چپ سادھے بیٹھے ہیں ، اور تو اور وہ صحافتی بزرجمہر جو اردو کے نفاذ کو ملکی ترقی کا واحد ذریعہ سمجھتے ہیں، اس اہم فیصلے کو کسی نامعلوم مصلحت کے تحت نظر انداز کررہے ہیں۔ پرائمری کی سطح پہ مادری زبان میں تعلیم کیوں ضروری ہے اس کا جواب آپ کو وہیں ملے گا جہاں سے ہم نے علم و دانش مستعار لے رکھی ہے یعنی مغرب ۔اگر آپ یہ زحمت نہیں کرنا چاہتے تو صوبائی وزیر تعلیم مرادراس کا وہ سروے دیکھ سکتے ہیں جس کے بعد وزیر اعلی نے پرائمری کی سطح پہ ذریعہ تعلیم انگریزی سے اردو کرنے کا فیصلہ کیا۔ پنجاب کے بائیس اضلاع میں کئے گئے اس سروے میں جس میں اساتذہ،طلبا اور ان کے والدین شامل تھے، پوچھا گیا کہ اسکولوں میں ذریعہ تعلیم اردو ہونی چاہئے یا انگریزی؟نتائج حیران کن تھے۔ پچانوے فیصد طلبا ، والدین اور اساتذہ کی رائے تھی کہ ذریعہ تعلیم اردو ہونا چاہئے۔ اس کی سیدھی سی وجہ ہے جو وزیر اعلی نے خود بڑی سادگی کے ساتھ بیان کردی۔ طلبا کو ہی نہیں، اساتذہ کو بھی انگریزی نہیں آتی۔وہ پہلے انگریزی مضامین کو خود پڑھنے اور سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں،اس کے بعد جتنا سمجھ پاتے ہیں، وہ طلبا کو پڑھا دیتے ہیں۔ سرکاری اسکول کے پڑھے ہوئے سیدھے سادے استاد نے جیسی انگریزی شرح دیکھ دیکھ کر پڑھ رکھی ہوتی ہے، ویسی ہی پورے خلوص کے ساتھ آگے بڑھا دیتا ہے۔ تحصیل علم کے اس جھٹکے دار مرحلے میں علم تو پہلی ہی ٹھوکر پہ دھڑام سے گر پڑتا ہے، انگریزی بھی توازن برقرار نہیں رکھ پاتی اور دونوں کی پروا کسی کو نہیں ہوتی۔اس سارے عمل میں جو وقت ضائع ہوتا ہے اسے تعلیمی سال کہتے ہیں۔خدا جانے سابق وزیر اعلی جو خود کو ہر فن مولا سمجھتے تھے، کس نے یہ پٹی پڑھائی تھی کہ جس ملک میںخواندگی کی شرح شرمناک حد تک کم ہے، وہاں پنجاب کے سرکاری اسکولوں کا ذریعہ تعلیم انگریزی کردیا جائے تو کم سے کم ایک صوبہ ترقی کی میٹرو پہ بگٹٹ دوڑنے لگے گا۔ ملک کے مستقبل کے ساتھ سنجیدگی کا یہ عالم تھا کہ سرکاری اسکول مختلف غیر سرکاری تنظیموں کو گود دے دیے گئے کہ جاو پالو پوسو اور کھاو او رخود صوبے بھر میں دانش اسکولوں کا جال بچھا دیا۔ ذریعہ تعلیم انگریزی کرنے کا نادر خیال ممکن ہے موصوف کو اس وقت آیا ہو ،جب وہ برادر کلاں کو چینی وفد کے سامنے ہمالیہ سے اونچی اور شہد سے میٹھی پاک چین دوستی کی انگریزی رٹوا رہے تھے۔ایک موصوف پہ ہی موقف نہیں،پاکستا ن میں اردو کو ذریعہ تعلیم بنانے کے لئے غیر سنجیدگی کا مظاہرہ ہر دور میں کیا گیا ۔۔1947ء سے اب تک پاکستان میں نو تعلیمی پالیسی دستاویزات مرتب کی گئیں لیکن اردو زبان ہنوز تعلیمی میدان میں در یتیم ہی نظر آتی ہے۔اس کے مقاصد واضح تھے یعنی قوم کا مستقبل ایسے افراد کے ہاتھ میں دینا جن کے ذہن و قلب کا کوئی رابطہ عوام سے نہ ہو۔ مادری زبان میں تعلیم کا مطلب ہے آپ نے طالب علم کے ذہن تک رسائی حاصل کرلی ہے۔امریکی تحقیقی ادارہ گلوبل پارٹنر شپ فا رایجوکیشن کی ایک ریسرچ کے مطابق دنیا بھر میں پچاس سے پچھتر ملین بچے اسکول چھوڑ دیتے ہیں اور ایسا غربت کی وجہ سے نہیں ہوتا بلکہ اس لئے کہ ان کے اسکولوں کا ذریعہ تعلیم کوئی اور زبان ہوتی ہے اور وہ اس میں اپنی دلچسپی برقرار نہیں رکھ پاتے۔ انہیں اور اساتذہ دونوں کو تحصیل علم کے لئے دگنی محنت کرنی پڑتی ہے ۔اساتذہ تو اپنا پیشہ نہیں چھوڑ سکتے لیکن بچے کو اسکول سے بھاگنے سے کون روک سکتا ہے جبکہ یہ صورتحال ہے بھی ان ممالک میں جہاں ورکشاپ پہ کام کرنے والا بچہ ، اسکول جانے والے بچے سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ ترقی پذیر ممالک کو ترقی کی دوڑ میںمزید پیچھے دھکیلنے کے لئے انگریزی یا کسی غیر ملکی زبان میں ذریعہ تعلیم کا آزمودہ حربہ استعمال کیا جاتا ہے۔ بچے بددل ہوکر اسکول چھوڑ دیتے ہیں ،ان کے والدین اس پہ سجدہ شکر بجا لاتے ہیں اور یہ ننھے مزدور سرمایہ دارانہ نظام میں اپنے ہاتھ اور ذہن جھونک کر اس کا حصہ بن جاتے ہیں۔ ریسرچ پیپر کے مطابق بچے اور اساتذہ دونوں ہی غیر ملکی زبان میں تعلیم سے پریشان ہوتے اور صرف بوجھ اتارنے کی کوشش کرتے ہیں۔یہی ریسرچ بتاتی ہے کہ بچے اپنی مادری زبان میں بہتر سیکھتے ہیں۔یونیسکو 1953 ء سے پرائمری اسکولوں میں مادری زبان میں تعلیم کی حوصلہ افزائی کررہا ہے تاکہ شرح تعلیم میں اضافہ کیا جاسکے۔اسی کی ایک ریسرچ بتاتی ہے کہ بچے اپنی مادری زبان میں پڑھنے میں نہ صرف اطمینان محسوس کرتے ہیں بلکہ ان کے والدین اور اساتذہ کا باہمی تعلق بھی بہتر ہوتا ہے اور والدین اپنے بچوں کی تعلیم کے متعلق بغیر کسی احساس کمتری کے، ان سے بات چیت کرسکتے ہیں۔ اس کا اندازہ ان والدین کو بہتر ہو گا جوبھاری فیسیں ادا کر کے اپنے بچوں کو انگریزی اسکولوں میں داخل تو کروادیتے ہیں لیکن والدین اور اساتذہ میٹنگ میں خاموش بیٹھے ستھری انگریزی سنتے رہتے ہیںجو عموما ان کے سر سے گزر جاتی ہے۔ان کے اور ان کے بچوں کے درمیان ایک واضح کمیونیکیشن گیپ نظر آتا ہے۔ مادری زبان یا قومی زبان میں تعلیم کا ایک سیاسی اور ثقافتی پہلو بھی ہے جو بہت اہم ہے۔ پاکستان جو دو قومی نظریئے کی بنیاد پہ وجود میں آیا ،عربی اور اردو اس کی ثقافتی علامت تھی۔مسلمانوں کا مذہبی ورثہ عربی میںتھا اور اس کی تفسیر اردو میں تھی۔ اردو سے نئی نسل کو کاٹنے کا مقصد ہی اس قومی اور مذہبی ورثے سے تعلیم یافتہ طبقے کو کاٹنا تھا۔اس قباحت سے نئی بننے والی مملکت کے ارباب کارواقف تھے۔نومبر 1947 ء میں کراچی میں پہلی پاکستانی تعلیمی کانفرنس منعقد ہوئی جس میں انگریزی کو بطور ذریعہ تعلیم مضر سمجھا گیا۔اس کے بعد غالبا تعلیم کوئی ترجیح نہیں رہی کجا یہ کہ ذریعہ تعلیم پہ توجہ دی جاتی۔اس تناظر میں عثمان بزدار کا یہ اقدام قابل ستائش و تقلید ہے۔