اسلام آباد(خبر نگار)عدالت عظمٰی نے پولیس کانسٹیبل کے قاتل کی سزائے موت بحال رکھتے ہوئے آبزرویشن دی ہے کہ کسی اہلکار کو وردی میں قتل کرنا ریاست کے خلاف جرم ہے ۔ چیف جسٹس آصف سعید خان کھوسہ کی سربراہی میں 3رکنی بینچ نے لاہور میں پولیس کانسٹیبل کے قتل کے مجرم شرافت علی کی سزائے موت کے خلاف نظر ثانی اپیل کی سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ انگریز دورمیں وردی میں کسی کو تھپڑ مارنے پر پورا گاؤں مسمار کر دیا جاتا تھا۔ مجرم کے خلاف 5 پولیس اہلکاروں نے گواہی دی اوروہ موقع سے آلہ قتل سمیت پکڑا گیا ۔جسٹس طارق مسعود نے کہا کہ قاتل اس سے پہلے بھی کسی مقدمے میں مفرور ملزم تھا،وہ جرائم کا پس منظر رکھتا ہے ۔چیف جسٹس کی سربراہی میں رکنی بینچ نے خیبر پختونخوا میں 2بھائیوں کے قاتل سلیم اختر کی عمر قید کے خلاف نظر ثانی اپیل مستر کردی ۔ دوران سماعت چیف جسٹس نے کہا ہم ملزم کو جتنا ریلیف دے سکتے تھے دے چکے ،وقوعہ کے تین گھنٹے کے اندر پوسٹ مارٹم ہوا،اتنی جلدی کوئی جھوٹی کہانی نہیں بنا سکتا۔ سپریم کورٹ نے خاتون کے ساتھ زیادتی کے ملزم جنید افضل کی ضمانت کے خلاف درخواست واپس لینے پر خارج کردی۔ چیف جسٹس نے کہاکہ خاتون نے ایک سال تک ملزم کیساتھ من مرضی سے تعلقات رکھے ،زیادتی کا کیس کیسے بنتا ہے ؟اعترافی بیان پر غزالہ نورین کو سزا ہو سکتی ہے ۔جسٹس سردار طارق مسعود نے کہاکہ ٹرائل کورٹ نے اعترافی بیان پر کارروائی کیوں نہ کی؟جس پر خاتون کے وکیل نے درخواست واپس لینے کی استدعا کر دی۔گیس انفراسٹرکچر ڈیویلپمنٹ سرچارج سے متعلق کیس 22اکتوبر کوسماعت کے لئے مقرر کردیا گیاہے ۔علاوہ ازیں چیف جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے ماڈل کورٹس کے ججز میں ایوارڈ تقسیم تقریب سے خطاب کے دوران ماڈل کریمنل کورٹس کے ججز کی کارکردگی کو سراہتے ہوئے اس کو آسان اور سستے انصاف کی جانب اہم پیشرفت قرار دیا۔ماڈل کورٹس کے ڈی جی سہیل نا صر نے پریزینٹیشن دی۔