شالا مار باغ سے گڑھی شاہو کی طرف آئیں تو جہاں آپ کو مغل دَور کے کئی باغات کے آثار ملیں گے وہیں ایک گنبد نما عمارت بھی نظر آئے گی جسے بدھو کا آوا کہتے ہیں۔ یہ دراصل اینٹوں کا ایک بھٹہ تھا جس میں شاہی تعمیرات کے لئے پختہ اینٹیں تیار ہوتی تھیں۔ اس مقصد کے لئے مٹی کے حصول کو یقینی بنانے کے لئے اردگرد کی بیشمار زمین خالی رکھی گئی تھی۔ یہ وہی جگہ ہے جہاں ان دنوں لاہور کی انجینئرنگ یونیورسٹی واقع ہے۔ رنجیت سنگھ برصغیر کی ریاستوں کا پہلا حکمران تھا جسے یورپی طرز کی فوج بنانے کا بہت شوق تھا۔ اس نے جب خالصہ فوج بنائی تو فرانس سے جنرل وینچورا (Ventura) سمیت کئی فوجی افسر اس کی تربیت و تدوین کے لئے بلائے۔ یہ جگہ اس فوج کے جنرل ہیڈ کوارٹر (جی ایچ کیو) کے لئے منتخب کی گئی۔ یہ لاہور شہر سے چند میل کے فاصلے پر تھی۔ قلعہ لاہور میں رنجیت سنگھ کی سول حکومت قائم تھی اور یہ مقام فوجی طاقت کا مرکز تصور ہوتا تھا۔ انگریز فوج سے شکست تک خالصہ فوج کا یہ ہیڈ کوارٹر آباد رہا، لیکن پھر انگریزوں نے جب انہیں شکست دی تو اسے ایسا ختم کیا کہ پھر اس کا نام و نشان تک مٹا دیا۔ جنرل وینچورا کی بنائی ہوئی پنجاب سیکرٹریٹ کی بلڈنگ تو آج بھی موجود ہے۔ اس کی بیٹیوں کی قبروں والا خوبصورت باغ اب کسٹم و انکم ٹیکس کے دفاتر اور فالودے والوں کی دکانوں کی نذر ہو چکا ہے مگر مقبرہ باقی ہے۔ وینچورا کی رہائش گاہ جو انار کلی کے مقبرے میں تھی، وہاں تاریخ کے وہ تمام اوراق آج بھی رکھے ہیں جن میں نہ صرف اس فوج ہی نہیں بلکہ سکھ سلطنت کے زوال کی عبرتناک داستان بکھری ہوئی ہے۔ لیکن اس ہیڈ کوارٹر کا نشان بھی نہیں ملتا۔ رنجیت سنگھ کو فوج بنانے کا اس قدر شوق تھا کہ اس نے سول ایڈمنسٹریشن بھی اسی فوج کے ذمے لگا دی اور کسی بھی قسم کی سول انتظامیہ نہ بنائی۔ ہر مسئلہ خواہ وہ لاء اینڈ آرڈر کا تھا یا عدالتی فیصلہ، سب کچھ فوج ہی کے ہاتھ میں دے دیا گیا۔ فوج نے رنجیت سنگھ کو علاقوں پر علاقے فتح کر کے دیئے اور یوں اس کے دل میں برصغیر پاک و ہند کا ویسا حکمران بننے کی خواہش پیدا ہوئی، جیسے، قدیم گپتا اور موریہ خاندان کی بادشاہتوں میں ہوا کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے جدید خطوط پر ضرورت سے بڑی فوج بنا لی اور قدیم دس ہزاری یا پانچ ہزاری مناصب والی قدیم غیر منظم فوج سے نجات حاصل کر لی۔ رنجیت سنگھ نے اسی جدید فوج کی وجہ سے پشاور سے ملتان اور دلّی تک اپنی سلطنت کو اتنی وسعت دی کہ جو دریائے سندھ سے دریائے جمنا کے کناروں تک پھیل گئی۔ اس کے پاس اسّی ہزار فوج تھی، جن کی تنخواہیں اور دیگر اخراجات عام آدمی پر ظالمانہ ٹیکسوں، مالیہ اور لگان کی صورت وصول کئے جاتے تھے۔ رنجیت سنگھ کی سلطنت کو چاروں طرف سے انگریز فوج نے گھیر رکھا تھا جو اپنی چھائونیوں میں بیٹھے بڑی باریک بینی سے اس سرزمین کی طرف للچائی ہوئی نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ دوسری جانب رنجیت سنگھ کے دل میں عظیم حکمران بننے کا خواب ایسا تھا کہ وہ مسلسل فوج کو وسعت دیتا رہا۔ اس نے ہر سکھ فوجی کے دل میں یہ جذبہ کوٹ کوٹ کر بھر دیا تھا کہ ایک دن تم ہی نے برصغیر میں انگریز فوج کو شکست دے کر ’’راج کرے گا خالصہ ‘‘ کا پرچم بلند کرنا ہے۔ ستلج کے دوسرے کنارے بیٹھا انگریز رنجیت سنگھ کی سلطنت اور فوجی قوت کو غور سے دیکھ رہا تھا۔ جیسے ہی رنجیت سنگھ دُنیا سے رخصت ہوا، سکھوں کے گروہوں میں شدید اختلاف شروع ہو گئے اور ہر گروہ تخت نشین ہونے کا خواہش مند بن گیا۔ بکھرے ہوئے سول گروہوں کے مقابلے میں ایک ہی منظم گروہ تھا، وہ تھی فوج، جو ساتھ ساتھ نظامِ سلطنت بھی چلا رہی تھی۔ اختلاف شروع ہوا تو بدھو کے آوا کے پاس موجود فوج نے اکٹھے ہو کر یہ حلف اُٹھایا کہ ملکی حالات خراب ہیں، سیاسی قیادت اپنے اقتدار کی کشمکش میں اس ملک تباہ کر دے گی، اس لئے ہمیں اب خود اس سلطنت کو بچانا ہے۔ اور سلطنت بچانے کی یہ ذمہ داری دراصل شیرِ پنجاب مہاراجہ رنجیت سنگھ اپنی زندگی میں ہی ہمیں سونپ گیا تھا۔ اجلاس میں پڑھے جانے والے اعلامیہ میں سپاہیوں سے کہا گیا کہ مشرقی سرحدوں پر انگریز ایک بہت بڑے خطرے کی صورت موجود ہے، اس لئے ہم یہ ملک کسی صورت بھی سیاست دانوں کے حوالے نہیں کر سکتے۔ رنجیت سنگھ کی موت کے وقت اس کی سلطنت کی وسعت پاکستانی پنجاب کے مٹھن کوٹ سے لے کر کشمیر، لداخ، گلگت بلتستان، پورا خیبر پختونخواہ یہاں تک کہ موجودہ قبائلی علاقے تک تھی، اور بھارت کا پنجاب، ہریانہ اور ہماچل پردیش تک سب اس کے باجگزار تھے، جبکہ موجودہ چین کا تکلا کوٹ اور تبت کا مغربی حصہ بھی رنجیت سنگھ سلطنت میں شامل تھا۔ اڑتیس سال اور 76 دن حکومت کرنے کے بعد جب 27 جون 1839ء کو وہ انتقال کر گیا تو سکھ روایات کے مطابق اس کے بڑے بیٹے کھڑک سنگھ کو تخت نشین کر دیا گیا۔ خالصہ فوج کھڑک سنگھ کو ایک نااہل شخص تصور کرتی تھی، جو موروثی طور پر وہاں آ گیا تھا۔ فوج سمجھتی تھی کہ اسے اب خود آگے بڑھ کر سکھوں کی قیادت کرنی چاہئے کیونکہ اب یہ دو گروہوں میں تقسیم ہو چکے ہیں اور یہ سکھ قوم کے لئے نقصان دہ ہے۔ سکھوں کے دونوں گروہوں میں اختلاف اس قدر شدید تھے کہ دونوں گروہ یعنی ’’ڈوگرے‘‘ اور ’’سندھنانوالے‘‘ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو چکے تھے۔ کھڑک سنگھ نے اپنے لئے ایک نیا مشیر خاص مقرر کیا جس کا نام چیت سنگھ باجوہ تھا۔ رنجیت سنگھ کا پرانا مشیر خاص اور وزیر اعظم راجہ دھیان سنگھ نے چیت سنگھ باجوہ کی تقرری کو اپنے لئے انتہائی ذِلت و رُسوائی تصور کیا اور اس نے دونوں کو تخت سے معزول کرنے کے لئے ایک خوفناک منصوبہ تیار کیا۔ اس نے یہ منصوبہ خالصہ فوج کے جرنیلوں کی مدد سے ترتیب دیا۔ یوں برصغیر پاک و ہند میں پہلی دفعہ فوج نے اپنی حکومت کے خلاف ایک خفیہ مہم کا آغاز کیا جس کا مقصد حکمران کھڑک سنگھ کی کردار کشی کرنا تھی۔ پورے ملک میں یہ پروپیگنڈہ عام کیا گیا کہ کھڑک سنگھ، چیت سنگھ باجوہ کے ساتھ مل کر مہاراجہ رنجیت سنگھ کی اس عظیم سلطنت کو انگریزوں کے ہاتھ بیچ دینا چاہتے ہیں۔ دونوں نے انگریز سے ایک خفیہ معاہدہ کر لیا ہے جس کے تحت وہ انگریز کو اپنی آمدن کے ہر روپیہ میں سے چھ آنے دیا کریں گے اور بدلے میں انگریز ہماری حفاظت کریں گے یوں شاندار خالصہ فوج جو اس سلطنت کی محافظ ہے، اسے بھی ختم کر دیا جائے گا۔ جرنیل اس خفیہ مہم سے آشنا تھے لیکن عام فوجیوں نے اسے بقاء کا مسئلہ سمجھا۔ فوج نے کھڑک سنگھ کے مخالف گروہ کے ساتھ مل کر یہ پروپیگنڈہ گلی کوچوں میں پھیلا دیا اور دربار کے تمام مصاحبین یہاں تک کھڑک سنگھ کا اپنا بیٹا نونہال سنگھ بھی اس پر یقین کر گیا کہ چیت سنگھ باجوہ نے اس کے باپ کو ورغلایا ہے اور سکھ سلطنت کو انگریزوں کا غلام بنانے کا منصوبہ بنایا ہے۔ اس کے بعد فوج کے سپاہی سفید کپڑوں میں ملبوس عوامی نفرت کا اظہار کرتے ہوئے نو اکتوبر 1839ء کو لاہور کے قلعے میں داخل ہوئے، انہوں نے چیت سنگھ باجوہ کو پکڑا اور کھڑک سنگھ کے سامنے اس کو ذبح کر دیا۔ بے بس کھڑک سنگھ اپنے سامنے اپنے دوست کی زندگی کی بھیک مانگتا رہ گیا۔ اب محل پر راجہ دھیان سنگھ کا راج تھا۔ انہوں نے کھڑک سنگھ کو خفیہ طریقے سے سیسہ پلا دیا جس سے وہ بستر سے جا لگا۔ اس کی ایک جانثار بیوی رانی اِندر کور کو نشانِ عبرت بنانے کے لئے آگ میں جلا دیا گیا۔ زہر کے اثرات کے تحت جیسے ہی 8 اکتوبر 1839ء کو کھڑک سنگھ مرا، تو اس کے بیٹے 19 سالہ نونہال سنگھ کو تخت پر بٹھا دیا گیا۔ اب سکھوں پر یہ کم سن نوجوان ایک علامتی حکومت کی صورت تھا جبکہ اصل میں فوج ہی حکمران تھی جو خود کو سکھ سلطنت کی بقاء کا ضامن سمجھتی تھی۔(جاری ہے)