شدید برف باری اور سخت سردی میں پریس کالونی کے باہر لاوے پورہ میں ہلاک کئے جانے والے تین بچوں کے والدین کی دلدوز چیخیں اور لاشیں واپس کرنے کے مطالبے کی ویڈیو شاید آپ کی نظروں سے بھی گزری ہوں گی۔ یہ سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئیں اور ساتھ ہی برف سے لکھی گئی وہ تحریر بھی ’ریٹرن دی ڈیڈ باڈیز‘۔اس ویڈیو کے ذریعے کشمیریوں نے پرْزور احتجاج کا اظہار کیا جو کشمیر میں خوف کے مارے بات بھی نہیں کرسکتے۔ یقین مانئیے حالیہ تین ہلاکتوں نے وادی کی روح کو اتنا پامال کیا ہے کہ ہر آنکھ خون کے آنسو بہا رہی ہے۔ ایک ہی آواز ہر طرف سے سنائی دیتی ہے ’کوتاہ ظلم، کاڑہ بر بریت‘ یعنی کتنا ظلم اور کتنی بربریت برداشت کریں گے ہم؟ چند روز پہلے پولیس کی طرف سے بیان جاری ہوا کہ سری نگر کے مضافات لاوے پورہ میں 29 اور 30 دسمبر کی شب کو تین ’دہشت گردوں‘ کو انکاونٹر میں ہلاک کیا گیا جنہوں نے فوجیوں پر دستی بم پھینکا اور اندھا دھند فائرنگ کی۔ ان تین نوجوانوں میں ایک اظہر مشتاق 16 برس کا طالب علم تھا۔پولیس کی پریس کانفرنس کے فورا بعد نوجوانوں کے لواحقین نے سری نگر آکر اسے ’فرضی جھڑپ‘ قرار دیا جس کے جواب میں پولیس نے ان نوجوانوں کے بندوق برداروں سے تعلق تو بتایا مگر ان کے نام پولیس کی بندوق برداروں کی فہرست میں شامل نہیں ہیں۔ تب سے ان کے لواحقین سڑکوں پر آکر احتجاج کر رہے ہیں اور ایک نوجوان کے والد نے بچے کی لاش انہیں تدفین کے لیے واپس نہیں کیئے جانے کی صورت میں خود کشی کی دھمکی بھی دی۔ شاید اس درد کا احساس ان میڈیا والوں کو نہیں ہوتا جو ہندوتوا کے رنگ میں رنگ کر جرنلزم اور انسانیت کے بنیادی اصولوں کو بھی بھول چکے ہیں۔ کسی کو اس بات کی توقع ہی نہیں کہ کسی فوجی کو سزا دی جائے گی۔ 18 جولائی کو بھارتی فوج کے ایک کیپٹن بھوپندر سنگھ نے تین ’دہشت گردوں‘ کو ہلاک کرنے اور ان سے بھاری مقدار میں اسلحہ برآمد کرنے کا دعوای کیا تھا مگر تحقیقات کے بعد پتہ چلا کہ کیپٹن نے دو مقامی افراد کے ساتھ مل کر راجوری کے تین نوجوانوں کو اغوا کرکے انہیں فرضی جھڑپ میں ناصرف ہلاک کر دیا تھا بلکہ بعد میں ان کے جسموں کو لہو لہان کرکے ان کی لاشوں پر ناجائز طور پر حاصل شدہ اسلحہ بھی رکھا۔ ان تینوں نوجوانوں کی تصویریں میڈیا میں جاری کرکے اسے انکاونٹر قرار دیا گیا تھا۔اس واقعے کے چند ہفتے بعد یعنی 10 اگست کو راجوری پولیس سٹیشن میں چند خاندانوں کی جانب سے ایک رپورٹ درج کی جاتی ہے کہ ان کے تین نوجوان ابرار احمد، امتیاز احمد اور ابرار احمد 16 جولائی کو مزدوری کے لیے کشمیر چلے گئے تھے جن کے فون بند آرہے ہیں اور ان سے کوئی رابطہ نہیں ہو پا رہا ہے۔ جب تین ہلاک شدہ نوجوانوں کی تصویریں سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں تو گھر والوں نے پولیس کو مطلع کیا کہ یہ تصویریں ان کے بچوں کی ہیں۔اس واقعے کے دوسرے روز ہی صحافی قاضی شبلی نے خبر دی تھی کہ شوپیان میں فرضی انکاونٹر ہوا ہے جس میں تین بے گناہ شہری ہلاک کیئے گئے ہیں۔ قاضی کو اس انکشاف کے بعد پہلے سخت ہراساں کیا گیا، پھر 17 روز تک جیل بھی جانا پڑا ہے جہاں ان کی روزانہ تفتیش کی جاتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ کشمیر میں صحافی فون پر بات کرنے سے کتراتے ہیں یا کوئی خبر دینے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ ان کے فون ریکارڈ کیئے جاتے ہیں اور بعض کو تفتیشی مرکزوں پر بلاکر خوفزدہ بھی کیا گیا ہے۔کشمیر سے انسانی حقوق کی پامالیوں سے متعلق حقیقت پر مبنی چند رپورٹیں بیرونی میڈیا سے وابستہ صحافیوں کی بدولت ہی منظر عام پر آتی ہیں۔انسانی حقوق کے مختلف اداروں نے جن دس ہزار افراد کے لاپتہ ہونے کی فہرست کئی بار جاری کی ہے اور جو ساڑھے سات سو سے زائد نامعلوم قبریں کشمیر کے اطراف میں ہیں ان میں بیشتر کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ بھارتی فوج کے ’جعلی انکاونٹر‘ میں مارے گئے ہیں اور ان کو خفیہ طریقے سے پھر دفنایا گیا ہے۔ سابق مقامی حکومتوں نے بھی ان کی ایک دو فہرستیں جاری کردی تھیں لیکن اس پر ہمیشہ پردہ ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے اور کسی فوجی کو اب تک سزا نہیں دی گئی۔ پتھری بل کا دلدوز واقعہ کون بھول سکتا ہے جب پانچ بے گناہ نوجوانوں کو پولیس نے رات کے اندھیرے میں گرفتار کرکے یہ اعلان کیا تھا کہ وہ پانچوں افراد 20 مارچ 2000ء کو چھٹی سنگھ پورہ میں 35 سکھوں کے قتل میں ملوث ہیں جب امریکی صدر بل کلنٹن 25 مارچ کو بھارت کے دورے پر آنے والے تھے۔ فوج نے پانچوں نوجوانوں کو ایک انکاونٹر میں ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا تھا مگر جب ان پانچ نوجوانوں کے لاپتہ ہونے کی خبر آئی اور وادی میں احتجاجی مظاہروں میں ان ہلاکتوں کا مطالبہ زور پکڑتا گیا تو تحقیقات کے دوران پتہ چلا کہ ان پانچوں کو فرضی جھڑپ میں مار دیا گیا تھا۔ جب مسئلہ کشمیر کا ہے اور مسلمانوں کا ہے تو فرضی جھڑپیں، عصمت دری، جائیداد کو بارود سے اڑانا اور ہلاک کرکے نامعلوم مقامات پر دفن کرنا سب ’دہشت گردی‘ کے خلاف قوانین کے زمرے میں ڈال کر اس کو ’جائز‘ قرار دیا جاتا ہے اور عالمی برادری سے لے کر انسانی حقوق کے اداروں تک اس بات کو منوایا جاتا ہے کہ جموں و کشمیر میں ’اسلامی دہشت گردی کا مسئلہ ہے جس کے لیے دہشت گردوں کا قلع قمع لازمی ہے۔‘ کسی جانب سے بھی اس پر جوابی دلیل دینے کی مزاحمت نہیں کی جاتی کہ معصوم نوجوانوں کو کس طرح گاجر مولی کی طرح کاٹا جاتا ہے اور نہ ان واقعات کی انسانی حقوق کے آزاد اداروں کی جانب سے تحقیقات کرانے کا مطالبے پر زور دیا جاتا ہے ہلاکتوں کا یہ سلسلہ اتنے خطرناک حالات پیدا کر رہا ہے کہ گماں ہوتا ہے کہ جیسے واقعی ’نسل کشْی‘کا ایک مربوط منصوبہ عمل میں لایا جا رہا ہے جس کا عندیہ جینوسایڈ واچ نے بھی اپنی رپورٹ میں دیا ہے۔یہ عمل تب تک جاری رہے گا جب تک کشمیر فوجی چھاؤنی بنا ہوا ہے۔