بھارتی زیر انتظام مقبوضہ کشمیر کی یادوں کو تازہ کرتے ہوئے ابھی جموں کشمیر میں 2005ء میں ہونے والے پاکستانیوں کے فقیدالمثال استقبال پر آتے ہوئے کالم سپرد کیا ہی تھا کہ پیر اور منگل کی درمیانی شب سے دونوں ملکوں میں طبل جنگ بجا ہوا ہے کیا بھارتی جہازوں کی دراندازی انکے دو جہازوں کا تباہ ہونااور دو میں سے ایک پائلٹ کا زندہ پکڑے جانا کسی بڑی جنگ کا پیش خیمہ بن سکتا ہے اسکے تصور سے ہی رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں کہ یہ 1965ء اور1971ء کی جنگ نہیں_ خوش قسمتی یا بدقسمتی سے پاکستان اور بھارت دونوں ملک ہی ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ہیں. پاکستان اور بھارت کے درمیان آبادی،معاشی و عسکری وسائل میں ایک اور چھ فرق کے باوجود یہ سمجھاجاتا ہے کہ بھارتی سورما کسی بڑی جنگ سے اس الئے گریز کرینگے کہ کسی بڑی جنگ کی صورت میں پاکستان کا سب سے بڑا ہتھیار ایٹم بم ہی اسی کے تحفظ کا ضامن بنے گا۔ سو دونوں ملکوں کے سیاسی اور عسکری اور عوامی رہنماؤں کے بیانوں کی شدید گولہ باری کے بیچ دہائی اوپر سے پہلے کے جموںسری نگر کے سفر کی یادیں تازہ کرنے چلاہوں تو ایک خوشگوار حیرت ہوئی ہے کہ بہر حال دنیا کی سب سے خوبصورت جنت مگر خطرناک حد تک خونی وادی میں ہفتہ اوپر رہ کر بہرحال اس وقت اپنے وطن لوٹ بھی آئے جسکا آج تصور بھی نہیں کیاجاسکتا.... امرتسر سے جموں پہنچتے ہی رات کے آخر پہر میں جو ہمارا استقبال ہوا اس پر زیادہ حیرت اسلئے بھی ہوئی کہ ''جموں'' میں اکثریت ہندوؤں کی ہے جس کے سبب اسے مندروں کا شہر بھی کہاجاتا ہے... گزشتہ کالم میں بھی لکھ چکا ہوں کہ 2004 ء کے لگ بھگ جب جنرل پرویزمشرف دونوں ملک کے درمیان کشمیر تنازعہ حل کرنے کے سلسلے میں صحافیوں سے تواتر سے ملاقات کررہے تھے اور بغیر کسی لگی لپٹی انہوں نے واضح الفاظ میں کہا تھا کہ ہمارا دعویٰ جموں لڑائی پر نہیں کہ یہاں مسلمان کشمیری اکثریت میں نہیں اصل جھگڑا''وادی کشمیر'' پر ہے جسکا دارلخلافہ سرینگر ہے.. اور جہاں مجاہدین أزادی 1984ء کی جنگ میں اتنے قریب پہنچ گئے تھے کہ ''سری نگر'' کے ''لال چوک'' کی بتیاں نظرأنے لگی تھیں.... تاریخ میرا مضمون نہیں مگر کشمیر کے تنازعہ کے سبب پاکستان بھارت میں70ء سال سے جاری جنگ کی تفصیل میں جانے کے لئے ماضی میں تو جھانکنا ہی ہوگا.مگر ماضی حال اور مستقبل کے اس طول طویل خونی تنازعہ میں جانے سے پہلے 14سال پہلے جو جموں میں نے اور پھر سری نگر کا یادگار سفر کیا تھا اس سے بھی تو سرسری طور پر نہیں نکلاجاسکتا... کہ جموں کی خوشگوار خنک راتوں میں آٹھ گھنٹے کے تواتر کے بعد جب ہم جموں یونیورسٹی میں پہنچے تو خوشگوار حیرت ہوئی کہ داخلی دروازے پر قطار باندھے یہ اساتذہ چاندی کی ٹرے میں بھرے ہوئے نقرئی گلدانوں سے ہمارا استقبال کر رہے تھے اکثریت ہندو اساتذہ اور طلبہ کی تو تھی ہی مگر کشمیری مسلمان طلبہ اساتذہ کی خوشی بھی دیدنی تھی.. برصغیر پاک و ہند کے مشہور شاعر جگن ناتھ آزاد کی صاحبزادی استقبال میں پیش پیش تھی.. جگن ناتھ آزاد نے اپنی زندگی میں یہ دعویٰ کیا تھا کہ پاکستان کا قومی ترانہ سب سے پہلے انہوں نے لکھا تھا جو ریڈیو سے نشر ہوا تھا..مگر قومی ترانے کی اصلی اور بڑے خالق حفیظ جالندھری جیسے دبنگ بھٹی کے لئے شاعر سے مقابلہ کوئی آسان نہ تھا.اسلئے ا ن کا لکھا ترانہ ''مستند'' کہلایا گیا.. جوں میں ہماری ملاقات کسی قابل ذکر حریت رہنما سے نہیں ہوئی کہ بیشتر ملک کے سارے ہی سری نگر میں مستقل رہائش پزیر ہوتے ہیں.البتہ ہمارے میزبانوں میں بھارتی قریب لابی کے نقطہ نظر سے ایک حلقے نے ہماری ملاقات کا اہتمام ان ہندو کشمیری پنڈتوں سے کروایا جو بقول انکے انتہا پسند مزاحمتی گروپوں کے خوف سے کیمپوں میں مقیم تھے.. ذاتی طور پر میری زیادہ دلچسپی کسی ایک یا دوسری لابی کے بھاشن سننے سے زیادہ اردگرد کے پرہول ماحول پر تھی، اگلی صبح جموں کے بازاروں چوکوں پر کوشش کی کہ سن گن لی جائے مگر تنے ہوئے سہمے چہرے ہوں ہاں سے آگے نہ بڑھتے۔ جموں ایک صاف ستھرا شہر ہے اور ایک زمانہ تھا یعنی برصغیر کی تقسیم سے قبل جب سیالکوٹ سے گھنٹہ ڈیڑھ میں سڑک اور بسوں کے ذریعے یہاں آزادانہ تجارت اور سیاحت کے لئے آجاتے تھے.واہگی بارڈر جب2005ء میں کھلا تو دونوں جانب سے یہ مطالبہ ہوا ک جموں سیالکوٹ کا بارڈر بھی کھولاجائے.جس کی اہمیت اورحساسیت کے سبب بھارتی حکومت راضی نہ ہوئی جموں سے سری نگر کا سفر ایک حیرت کدہ تھا.سری نگر میں داخلے سے پہلے جموں کی آخری چوکی پرجب ہم کھانے کے لئے دوپہر کے پہلے پہر میں رکے تو یہاں ٹمپریچر 33/33تھا مگر جب جموں سے سری نگر کو ملاتی 12کلومیٹر لمبی سرنگ سے جیسے ہی ہماری بس سری نگر میں داخلے کی پہلی چوکی پر رکی تو ہم سردی سے کپکپارہے تھے... جی ہاں 1یا 1۔ٹمریچر تھا.. ایک بڑے سرسبز پیالے کی طرح وادی کشمیر ہمارے لئے تھی.. صدیوں پہلے امیرخسرو اسی وادی کشمیر کے لئے کیا خوب کہ گئے تھے اگرفردوس بروئے زمیں است ہمیں است و ہمیں است ہمیں است سری نگر میں اگلے تین دن بڑے ہنگامہ خیز گزرے پہلی شام کی دعوت شعلہ بیان حریت لیڈر یاسین ملک کے گھر پر تھی یوں سمجھ لیجئے ہمارے پرانے کراچی شہر کے گنجان علاقے میں لکڑی کی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے دوسری منزل پر دو کمروں کا فلیٹ جن کے مختصر سے ڈرائنگ روم میں ہم اُٹھتے بیٹھے تھے..اس زمانہ میں یاسین ملک ہمارے میڈیا بلکہ ہماری اکثریت سے شدید ناراض تھے.. اور ہم سے اس طرح مخاطب تھے جیسے ہم سب ایک سازش کے تحت یہاں بھیجے گئے ہیں..خاصی بدمزگی رہی مگر بعد میں مزیدار کشمیری کھانوں پر جب زرا بے تکلفانہ ماحول میں گفتگو شروع ہوئی تو برسوں سے بھارتی حکومت کے مظالم کے خلاف لڑنے والے نوجوان یاسین ملک نے اپنا دل کھول کے رکھدیا.. پاکستانی حکومتوں کی بیوفائی پر انکا ایک حد تک غصہ جائز بھی تھا...کشمیر میں نیلسن منڈیلا کہلائے جانے والے شبیر شاہ ،میرواعظ عمر فاروق، مولانا گیلانی اور کانگریس کے وفادار اس وقت وزیر اعلی عمر عبداللہ سے جو تفصیلی ملاقات ہوئی ،مگر آلام و مصائب میں ہوتے ہوئے جس میزبانی سے ہم لطف اندوز ہوئے اسکا آج بھی تصور بڑا خوشکن ہے. اس زمانے میں ہمارا سارا کام کیمرے پر ہی تھا ایک ڈاکومنٹری مجاہدان کشمیر تین قسطوں پر بنائی بھی جسے محفوظ نہ رکھنے کا آج بھی افسوس ہے..زیادہ افسوس اس بات کا ہے کہ ان دنوں ہماری باقاعدہ قسم کی گھسائی کا آغاز نہیں ہواتھا.... اسلئے ان یادگار دنوں کی روداد بھی محفوظ نہیں ہوسکی آج جب دونوں ملکوں میں ایک بار پھر تنازعہ کشمیر کے سبب شدید جنگی ماحول کی فضا ہے.. سب کچھ اک خواب سا لگتا ہے کہ اسکے بعد سے کسی بھی پاکستانی کو خاص طور پر جہاں گرد صحافی کو یہ موقع نہیں ملا اور نہ ہی مستقبل قریب میں نظر آتا ہے..کم از کم کشمیر کی آزادی تک۔