آج سے بہتر(72) سال پہلے ہندوستان تقسیم ہوا تو دنیا کے نقشے پر دو ملک وجود میں آئے۔ ایک خالصتاً مذہب کی بنیاد پر اور دوسرا خالصتاً سیکولر، لبرل قوم پرست نظریے کی بنیاد پر۔ دونوں کی تقسیم علاقائی بنیادوں پر ہوئی اور اصول یہ رکھا گیا کہ جن علاقوں میں مسلمان اکثریت میں رہائش پذیر ہیں انہیں بقیہ ہندوستان سے کاٹ کر ایک نیا ملک پاکستان تخلیق کر دیا جائے۔ دوسراملک، بھارت،مسلمہ سکہ رائج الوقت، یعنی جو جس جگہ پیدا ہوتا ہے، اس کا مذہب، رنگ، نسل اور زبان کوئی بھی ہو، وہ اس کا وطن ہے، کی بنیاد پر تخلیق ہوا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ انسانی تاریخ نے ایک بہت بڑی ہجرت دیکھی۔ یہ ہجرت دراصل صرف پاکستان کی سمت ہوئی تھی۔ اس کی دو بنیادی وجوہات تھیں، ایک یہ کہ مسلمان ایک ایسے ملک کی جانب ہجرت کرنا چاہتے تھے جہاں ان کی اکثریت ہو اور وہ اپنے مذہب پر آزادی سے عمل کر سکیں، دوسری وجہ یہ تھی کہ تقسیم کے فلسفے نے ماحول میں اس قدر نفرت بھر دی تھی کہ انہیں زبردستی وہاں سے بے گھر کر دیا گیاتھا۔ یہ ایک انسانی زلزلہ تھا۔ وہاں سے آبادی ادھر پاکستان منتقل ہوئی تو اس کے نتیجے میں یہاں کی آبادی جو ہندو اور سکھ تھی مکمل طور پر بھارت منتقل ہوگئی۔ اس آبادی کا پاکستان سے نکلنا اس قدر مکمل تھا کہ پاکستان کے کم از کم دو صوبوں یعنی پنجاب اور خیبرپختونخوا میں اسکے بعد کم از کم پچاس سال تک ہندو اور سکھ صرف تصویروں میں نظر آتے تھے، عام زندگی میں ان کا وجود ناپید تھا۔ یہ کیفیت گلی گلی موجود مندروں کی ویرانی سے بھی عیاں تھی۔ کہیں نہ گھنٹیاں بجتی سنائی دیں اور نہ پرشاد بٹتا نظر آیا۔ ایسے منظر اب صرف بھارتی فلموں تک محدود ہو کر رہ گئے تھے۔ لیکن دوسری جانب یعنی بھارت کی چونکہ ایسی کوئی مذہبی پہچان نہیں تھی، اس لیے تقریبا تین کروڑ 75 لاکھ کے قریب مسلمان وہیں رہ گئے۔ مگر سیکولر بھارت سے مسلمانوں کی ہجرت کا تسلسل دیر تک جاری رہا۔ 1947ء کی ہجرت میں مشرقی پنجاب کے مسلمان پاکستانی پنجاب کے علاقے میں آکر آباد ہوگئے، اس لیے کہ اب ان کی زندگیاں خطرے میں تھیں، اور قتل و غارت عام ہو گیا تھا۔ لیکن ایک پرامن ہجرت بھی ہوئی، جو بھارت کے علاقوں یوپی، بہار، ممبئی، راجستھان وغیرہ سے کراچی، حیدرآباد، اور سکھر میں 1951 ء تک مسلسل ہوتی رہی۔ 1951 ء کی مردم شماری کے مطابق کراچی کی 57 فیصد، حیدرآباد کی 65فیصد اور سکھر کی 55فیصد آبادی ان مسلمان مہاجرین پر مشتمل ہو چکی تھی جو بھارت سے آئے تھے۔ مگر پھر بھی ہجرت کا یہ سلسلہ تھما نہیں۔ عالمی ادارہ محنت نے 1959ء میں ایک رپورٹ شائع کی جس کے مطابق 1951 ء سے 1956 ء تک ساڑھے چھ لاکھ مزید مسلمان بھارت سے پاکستان آئے، یہ تعداد 1961 ء کی مردم شماری تک آٹھ لاکھ ہوگئی۔ یہ سب کھوکھراپار کے رستے سے پاکستان آ رہے تھے۔ بھارت میں قائم سیکولر ریاست کو اپنی ساکھ کی اس قدر فکر لاحق ہوئی کہ وزیراعظم جواہر لعل نہرو نے ان ریاستوں کے وزرائے اعلی کو خط لکھے کہ اتنی بڑی تعداد میں پاکستان جانے والے مسلمانوں کو روکا جائے۔ لیکن یہ سلسلہ رک نہیں پایا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ بھارت کے وہ علاقے جہاں مسلمان اقلیت میں تھے وہ اپنے آپ کو وہاں محفوظ خیال نہیں کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ 1994ء کی پاکستان کی محکمہ داخلہ کی رپورٹ کے مطابق 1973 سے 1994 تک آٹھ لاکھ بھارتی مسلمان سیاحتی ویزہ پر پاکستان آئے اور ان میں سے چار لاکھ واپس نہیں گئے اور یہیں کہیں ضم ہوگئے۔ ایک سیکولر، لبرل اور قوم پرست ریاست بھارت میں رہ جانیوالے تین کروڑ مسلمانوں کو یہ عدم اطمینان اس کے قیام سے پہلے دن سے ہی تھا اور آج یہ تین کروڑمسلمان 25 کروڑ ہو چکے ہیں۔ معاملہ اب صرف عدم اطمینان اور مستقبل سے مایوسی، جیسے خطرات سے آگے نکل چکا ہے، بلکہ اب تو زندگی بچانے کی فکرہے۔ لوگوں کے سر پرخوف مسلط ہے۔ آج کا بھارتی مسلمان جسقدر خوفزدہ ہے وہ اس سے پہلے کبھی نہ تھا۔ آج کے خوفزدہ بھارتی مسلمان کو جس طرح کی نفرت، ذلت، تشدد اور اذیت کا سامنا ہے اس کا تصور بھی ان کے ان آباواجداد نے نہیں کیا ہوگا جو 1947 ء میں سیکولر قوم پرست بھارت کے خوش کن نعرے اور دلاسے کے تحت اسی بھارت میں مقیم رہے اور انہوں نے اپنے دیگر رشتہ داروں کی طرح پاکستان ہجرت نہ کی۔ کیا یہ پچیس کروڑ بھارتی مسلمان اچانک اس بدترین حالت کو پہنچے ہیں۔ کیا یہ خوف کسی جنگ، خونریزی، قتل و غارت یا دہشتگردی کا نتیجہ ہے جو ان بظاہر پرامن بھارتی مسلمانوں نے برپا کررکھی ہے۔ ان تمام سوالوں کا جواب نفی میں ہے۔ پوری دنیا میں بسنے والے سات ارب انسانوں میں سے محکوم،دبائے گئے، حقوق سے محروم اور کچلی ہوئی اقلیتوں میں سب سے پرامن اقلیتی گروہ بھارتی مسلمانوں کا ہے۔ ورنہ اتنی بڑی اقلیت اگر دنیا کے کسی اور ملک میں ہوتی تو اب تک بھارت کا حال ایک جنگ زدہ، شورش و ہنگاموں سے پر اور تشدد سے خوفزدہ ملک جیسا ہوجا تا۔ یہ پچیس کروڑ مسلمان ان کی سیاست میں بھی متحرک ہیں اور معاشرت میں بھی۔ ان کے ہیرو خواہ فلم اور کرکٹ کے ہوں یا سیاست کے سب دیگر بھارتیوں جیسے ہیں۔ دنیا کا واحد ملک بھارت ہے جہاں اتنی بڑی مسلمان اقلیت محروم اور پسماندہ ہے لیکن وہاں سب سے کم دہشت گردی کے واقعات ہوتے ہیں۔ لیکن آج بہتر سال بعد جو مایوسی اور خوف ہے،اس کی وجہ اچانک نہیں بلکہ بہتّر سالوں کی محنت سے یہ خوف پیدا کیا گیا ہے۔ بہتر سال پہلے دو ریاستیں وجود میں آئیں، ایک خالصتا مذہب کے نام پر اور دوسری خالصتا سیکولر، لبرل اور قوم پرست نظریے کے نام پر۔ پہلی یعنی پاکستان نے اپنی وجہ تخلیق یعنی مذہب کو ترک کرنے کی طرف اپنے سفر کا آغاز کیا۔ آج تک ہمارا سفر ایک سیکولر، لبرل اور قوم پرست ریاست کا سفر ہے جس میں ہم کبھی کبھی اسلام کا تڑکا لگا لیتے ہیں۔ دوسری جانب بھارت نے قیام کے فوراً بعد ہی اپنے گلے سے سیکولرزم کا طوق آہستہ آہستہ اتارنا شروع کیا۔ گاندھی کا قتل یوں تو عرف عام میں مسلمانوں کی حمایت کے کھاتے میں ڈالا جاتا ہے جبکہ وہ قتل دراصل تئیس سال قبل بننے والی آر ایس ایس کے فلسفے کا نتیجہ تھا جو ہندوستان کی ریاست کے علاقائی تصور سے انکار کرتی تھی۔ انکے نزدیک بھارت یا ہندوستان پوتر اور پاک سرزمین ہے جس پر صرف ہندوؤں کو رہنے کا ادھیکار (حق) ہے۔ آج بہتر سال بعد یہ نظریہ بھارت پر حکمران ہے اور اس نظریے کے ماننے والوں کا ہر قدم اس کے عملی نفاذ کی جانب اٹھتا ہے۔ کشمیر ان کے لیے اس پوتر سرزمین کا حصہ ہے، جو دیوتاؤں نے آباد کی تھی۔ ان کے نزدیک ہر وہ لوکل کشمیری جو مسلمان ہوچکا ہے اسے واپس ہندو ہونا ہوگا اور باہر سے آنے والے لوگوں کو یہاں سے بھاگنا ہوگا۔ اسی لئے کشمیر ان کے لئے ایک علاقائی نہیں نظریاتی جھگڑا ہے۔ کشمیر کی بھارت سے علیحدگی ایک نظریے کی موت ہے۔ دوسری جانب ہمارے وہ لوگ بھی غلط راستے پر ہیں جو اسے ایک علاقائی جھگڑا Territorial Dispute) ( بنا کر پیش کرتے ہیں۔ ستر سال سے ہم نے اسے دو ملکوں کا جھگڑا بنا کر ہی پیش کیا، تقسیم ہند کا نامکمل ایجنڈا بتایا، اپنی شہ رگ سمجھا، لیکن اب یہ سب نہیں چلے گا۔ اب دونوں جانب نظریاتی ریاستیں وجود میں آ چکی ہیں۔ اب یہ دو نظریوں ہی نہیں بلکہ دو مذاہب کی جنگ ہے۔ ایک نظریے کے مطابق یہ سرزمین ان کی مذہبی جاگیر ہے۔ اس نظریے کا مقابلہ کرنے کیلئے اگر پاکستان میںیہ نظریہ نہ پروان چڑھایا گیا کہ ہم زمین کے لئے نہیں زمین پر اللہ کی بادشاہت کے لئے لڑ رہے ہیں تو فتح ناممکن ہے۔ بہتر سال سے کشمیر اور فلسطین عالمی ضمیر کو بنیادی انسانی حقوق کے تحت وطن کے لیے جھنجوڑ رہے ہیں لیکن ناکام ہیں۔ لیکن ستر کی بجائے صرف سترہ سالوں میں افغان اللہ کی بادشاہت کے لئے لڑتے ہیں تو کامیاب ہوتے ہیں۔ اس لئے کہ اللہ نے کسی پاکستانی، کشمیری، ایرانی یا عراقی سے مدد کا وعدہ نہیں کیا، وعدہ صرف ان مسلمانوں سے کامیابی کا ہے جو زمین پر اس کا دین غالب کرنا چاہتے ہیں۔