کشمیر کے حالات میں چودہ دن گزرنے کے باوجود ابھی تک کوئی بہتری نہیں آئی۔معاملات زندگی بحال ہونے میں ابھی وقت لگے گا ۔ کرفیو، گھروں میں مسلسل نظربندی اور فوجی محاصرے کی کیفیت نے یقینا لوگوں کے لیے بے پناہ مشکلات پیدا کر دی ہیں۔ کرفیو کا مقصد ان کی قوت مدافعت اور مزاحمت کو توڑنا تھا ۔انسانی مزاحمت اور برداشت کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ پانچ اگست کو جو کچھ ہوا اس کا کسی نے کبھی تصور بھی نہیں کیاتھا۔ یہ کشمیریوں کے نزدیک نائن الیون کی طرح کا سانحہ ہے۔ اس سانحہ نے کشمیر میں سب کچھ بدل ڈالا اور سیاست، سماج اور سوچ وفکر کے دھارے تبدیل کردیئے۔ کشمیر کے تنازعہ کی حیثیت اور نوعیت اب ہمیشہ کے لیے بدل چکی ہے۔روایتی بیانیہ، سفارت کاری اور سیاسی جدوجہد میں تنوع لانے اور اسے عالمی ماحول سے ہم آہنگ بنانے کی پہلے سے زیادہ ضرورت ہے۔ سلامتی کونسل میں مسئلہ کشمیر کے پیش ہونے سے سفارتی کوششوں کا ایک دروازہ کھل گیا ہے ۔ روس اور فرانس جیسے ممالک جن سے بھارت کو توقع تھی کہ وہ کشمیر پر گفتگو ہی نہیں ہونے دیں گے نہ صرف سلامتی کونسل کے اجلاس میں شریک ہوئے بلکہ روس نے نہایت ہی حوصلہ افزا طرزعمل اختیار کرکے دوستوں اور دشمنوں کو یکساںطورپر ورطہ حیرت میں مبتلاکیا۔ برطانیہ اور امریکہ بھی زبردست دباؤ میں تھے کہ ان کے میڈیا نے کشمیریوں پر گزرنے والی قیامت کی خوب منظر کشی کی۔ مغربی ذرائع ابلاغ نے پہلی بار کشمیریوں کے دکھ اور درد کی کہانی لکھنا شروع کی اور اسے محسوس بھی کیا جارہاہے۔ بھارت نے تنازعہ کی بین الاقوامی اوردوطرفہ حیثیت کو ختم کرنے کی کوشش میں پاکستان اور بھارت ہی کے درمیان نہیں بلکہ کشمیریوں کے ساتھ ایک نہ ختم ہونے والی کشیدگی اور عداوت پیدا کرلی ہے۔ دو جوہر ی ملکوں کے درمیان جنگ کوئی آپشن نہیں بلکہ اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ۔ اگرچہ بین الاقوامی قانون قابض افواج کے خلاف عسکری مزاحمت کی اجازت دیتاہے لیکن نائن الیون کے مابعد لگ بھگ پرتشدد کارروائیوں کے ذریعے سیاسی مقاصد کے حصول کی کوششوں کے لیے حمایت حاصل کرنا تقریباً محال ہے۔ کشمیری جو مقبوضہ کشمیر میں رہتے ہیں ان کے لیے عالمی فورمز پر آواز بلند کرنا اور دنیا کو متوجہ کرنا دن بدن مشکل بنادیا گیا ہے۔ چنانچہ پاکستان اور آزادکشمیر کی حکومت اور بیرون ملک آباد کشمیریوں کو مل جل کرعالمی فورمز پر کشمیریوں کے حق خود ارادیت کے حق میں آواز بلند کرنا ہوگی۔ پاکستان کی موجودہ حکومت میں کشمیر کے امور پر لابنگ اور عالمی مہم کی کمان فی الحا ل وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کے ہاتھ میں ہے جو بڑی محنت او رحکمت کے ساتھ اس مہم کو جاری رکھے ہوئے ہیں لیکن ضرورت اس امرکی ہے کہ نائب وزیرخارجہ کی سطح کا کوئی خصوصی نمائند ہ یا ایلچی مقرر کیا جائے جس کی توجہ کا مرکز صرف اور صرف کشمیر ہو اور وہ ہر طرح کے آپشن پر غور اور عمل کرنے کا مجاز ہو۔ حکومت آزادکشمیر کے قیام کا بنیادی مقصد بھی مسئلہ کشمیر ہی تھا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہ حکومت روزمرہ کے کاموں میں کھو گئی اور اصل مقصد آنکھوں سے اوجھل ہوگیا۔ اب اس کے کردار کی بحالی کا بھی وقت آچکاہے۔ غیر روایتی سوالات اور مفروضوں پر بھی غور کرنے میں حرج نہیں۔ مثال کے طور پر قائد اعظم محمد علی جناح کے ساتھ برسوں تک خدمات سرانجام دینے والے مخلص اور ایثار کیش لیڈرکے ایچ خورشید کی تجویز تھی کہ آزادکشمیر حکومت کو تسلیم کیا جائے۔ خاکسار کی رائے ہے کہ بے شک اسے تسلیم نہ کیاجائے لیکن طالبان کی طرح اس حکومت یا حریت کانفرنس کو ’’دوحہ‘‘ میں سیکرٹریٹ قائم کرنے میں سہولت فراہم کی جائے تاکہ دنیا کشمیریوں کی کہانی کشمیری لیڈروں کی زبانی سن سکے۔ کشمیر پر پاکستان کا بیانیہ عمومی طور پرجذبات اور مذہبی تصورات کے پس منظر میں تشکیل پاتاہے۔ وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی سے حال ہی میں ہونے والی ایک ملاقات میں عرض کیا کہ آپ نے کشمیر بنے کا پاکستان کا نعرہ لگایا۔ یہ کشمیریوں کی بھاری اکثریت کے دل کی آواز ہے لیکن یہ نعرہ کشمیریوں کو خودلگانے دیں۔ پاکستان کا آئین کہتاہے کہ جموں وکشمیر کے لوگ جب پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کریں تو پاکستان اور جموں وکشمیر کی ریاست کے درمیان تعلقات کار کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق طے پائیں گے۔ اقوام متحدہ میں بھی پاکستان کا یہی موقف رہا۔ امریکہ کے حالیہ دورے میں وزیراعظم عمران خان نے ایک سوال کے جواب میں دریا کو کوزے میں بند کرتے ہوئے کہا’’ یہ فیصلہ کشمیریوں نے کرنا ہے کہ وہ کیا چاہتے ہیں پاکستان نے نہیں‘‘۔ چونکہ اگلے چند ماہ کے دوران کشمیر پر جاری لابنگ اور بحث ومباحثہ شدت پکڑتا نظر آرہاہے لہٰذا گفتگو میں یہ نکتہ مدنظر رکھنا ضروری ہے۔ ممبئی یا پلوامہ طرز کے حملے کا خطرہ بھی سروں پر منڈلا رہاہے۔اس کے ڈانڈے پاکستان سے ملانا مشکل کام نہیں۔ خطرہ یہ ہے کہ اس طرح دنیا ایک بار پھر سرحدپار دہشت گردی اور عالمی جہادی نیٹ ورکس کے نام پر پاکستان کو مطعون کرنے پر تل جائے گی اور کشمیر پس منظر میں چلا جائے گا۔ گزشتہ دوہفتوں کے دوران بھارت کے سنجیدہ اور فہیم شخصیات کو بھارتیہ جنتاپارٹی کے حالیہ فیصلوں پر کڑی نکتہ چینی کرتے ہوئے پایا۔ انسانی حقوق کے کچھ علمبرداروں نے سری نگر کا دورہ بھی کیااور تہلکہ خیز انکشافات کیے کہ کس طرح لوگ فاقوں سے جاں بلب ہیں ۔بائیں بازور کے علاوہ بھارتی لبرل دانشوروں اور صحافیوں نے بی جے پی سے ایک بالکل مختلف اور کشمیر نواز لائن اختیار کی ہے۔ ان لوگوں کو بھارت میں دیوار سے ساتھ لگایاجارہاہے ۔یہ وہ عناصر ہیں جو مثبت سیاسی فکر کے حامل ہیں۔ ان کے ساتھ مکالمہ بھی کیاجانا چاہیے اور ان کے جرأت مندانہ کردار کی تحسین بھی۔ آخری نقطہ یہ ہے کہ 35۔اے کی منسوخی سے کشمیریوں کی عددی اکثریت کے خاتمے کا اندیشہ اب حقیقت میں بدلتا نظر آرہاہے۔ یہ عالمی قوانین کی بھی خلاف ورزی ہے۔ بھارت کے اندر سے بھی ایسی آوازیں اٹھی ہیں جنہوں نے کشمیرکو مستقبل میں فلسطین بننے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔یہ ایسا ایشوہے جس پر دنیا اور بالخصوص نامور مسلمان شخصیات کو متوجہ کرنا بہت ضرور ی ہے تاکہ کشمیر کو سپین یا فلسطین بننے سے محفوظ رکھا جاسکے۔