جوں جوں مقبوضہ کشمیر میںحریت پسندوں کی احتجاجی تحریک تیز ہو رہی ہے پاکستانی قوم کو بھی اس جدوجہد کے فوجی اور معاشی اثرات کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہنے کی ضرورت ہے۔ چند روز پہلے بھارت کی افواج نے مقبوضہ جموں و کشمیر میںحریت پسند رہنما ریاض نائیکو اور انکے چند ساتھیوں کو شہید کیا تو کشمیر کے متعدد علاقوں میں ہنگامے پھوٹ پڑے۔مقبوضہ کشمیر میں نو ماہ سے کرفیو جیسی صورتحال ہے۔پانچ لاکھ بھارتی افواج اور تین لاکھ نیم فوجی دستے عوام پر مسلط ہیںلیکن وہ کشمیریوں کی مزاحمتی تحریک کو کچل نہیں سکے۔ جیسے ہی پہاڑوں پر برف پگھلنا شروع ہوئی کشمیری حریت پسندوں کی سرگرمیاں بڑھنے لگی ہیں۔ بھارتی حکومت کی پاکستان پر جھوٹی‘ بے بنیاد الزام تراشیاں بڑھ گئی ہیں کہ حریت پسند لائن آف کنٹرول کے پار سے آرہے ہیں۔ لائن آف کنٹرول پر حالات کشیدہ ہیں۔بھارتی افواج پاکستان میں گولہ باری کے لیے مسلسل بھاری ‘ دُور مار توپ خانہ کا استعمال کررہی ہیں۔پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک کم شدت کی جنگ چل رہی ہے جو کسی وقت بھی بھڑک کر بڑے معرکہ میں بدل سکتی ہے۔ بھارت کے غاصبانہ قبضہ کے خلاف کشمیریوں کی مزاحمتی تحریک کی حمایت پاکستان کی خارجہ پالیسی کا اہم عنصرہے۔ ریاست کی ہر پالیسی کے فوائد اور نقصانات ہوسکتے ہیں۔ ہمیں ذہن میں رکھنا چاہیے کہ ہماری کشمیر پالیسی کی ایک قیمت ہے جو بحیثیت ِقوم ہمیں ادا کرنا پڑے گی۔ یہ ایک چو مکھی لڑائی ہے جو پاکستان کو کئی محاذوں پر ایک ساتھ لڑنی ہے۔ چونکہ بھارت کشمیریوں کی مزاحمتی تحریک کو دہشت گردی قرار دیتا ہے اس لیے سب سے پہلے تو بھارت کا یہ مذموم پروپیگنڈہ تیز تر ہوتا جارہا ہے کہ پاکستان دہشت گردوں کی حمایت اور پشت پناہی کررہا ہے اور اس کے علاقہ میں دہشت گرد ی کرانے کا مرتکب ہورہا ہے۔ بین ا لاقوامی سطح پر اور عالمی میڈیا میں پاکستان کو بھارت کی اس مہم کا بھرپورجواب دینا چاہیے۔ کشمیر کی آزادی کی جنگ صرف میدان میں نہیں بلکہ میڈیا اور سفارتی محاذ پر بھی لڑی جائے گی۔ کشمیرمیں مزاحمتی تحریک کی حمایت کاایک مطلب یہ بھی ہے کہ ہمیںکمزور معاشی صورتحال کے باوجود اپنے عسکری بجٹ میں اضافہ کرناپڑے گا۔ بھارت کے ساتھ لائن آف کنٹرول پر جھڑپیں جاری ہیں۔ اُن میں پہلے ہی تیزی آچکی ہے۔ یہ مزیدبڑھ سکتی ہیں۔ ہمیں زیادہ گولہ بارود‘ روایتی ہتھیاروںکی ضرورت ہے۔ پاکستان کو بالاکوٹ جیسے مزید فضائی حملوں کا سامنا بھی ہوسکتا ہے۔ یہ خدشہ موجود ہے کہ بھارت کشمیر کے علاقہ میں بڑی جنگ چھیڑ دے۔ بھارت کے ایسے فوجی ماہرین بھی ہیں جو سمجھتے ہیں کہ بھارتی فوج سکردو اور آزاد کشمیر کے کچھ علاقوں پر قبضہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ان کا خیال ہے کہ اگر بھارت ایسا کرنے میں کامیاب ہوجائے تو پاکستان کو دباؤ میں لاکر کشمیر کے تنازعہ پر گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا جاسکتا ہے۔ آنے والے دنوں میں پاکستان کو روایتی جنگ کے لیے اپنی صلاحیتوں میں مزید اضافہ کرنا ہوگا تاکہ بھارت کے اِن ناپاک ارادوں کو ناکام بنایا جاسکے۔سلامتی کا چیلنج صرف سرحد پر نہیں بلکہ ملک کے اندر بھی درپیش ہے۔ افغانستان کے راستے بھارتی ایجنسیاںبلوچستان اور خیبر پختونخواہ میں پاکستان مخالف تحریکوں اور دہشت گرد گروہوں کو مالی امداد‘عسکری تربیت اور اسلحہ فراہم کررہی ہیں۔ جیسے جیسے کشمیر میں مزاحمتی تحریک زور پکڑے گی‘ پاکستان کے اندر خاص طور سے بلوچستان اور افغانستان سے ملحق خیبر پختونخواہ کے علاقوں میں دہشت گرد کارروائیوں میں تیزی آئے گی۔ کابل کی انٹیلی جنس ایجنسی این ڈی ایس اور بھارتی انٹیلی جنس را کے درمیان گہرے روابط ہیں۔ریاستی اداروں کو انکا توڑ کرنے کے لیے مؤثر اقدامات کرنے چاہئیں۔ چند روز پہلے ہی بلوچستان کے علاقہ تربت میں چھ سیکیورٹی اہلکار ایک دہشت گرد حملہ میں شہیدہوگئے۔پاکستان کو ایرانی سرحد پر نگرانی کے لیے جدید آلات جیسے ڈرون استعمال کرنے کی ضرورت ہے تاکہ سیکیورٹی اہلکاروں کی جان کو کم سے کم خطرہ لاحق ہو ۔ کشمیر کے معاملہ پر بھارت اور پاکستان کے درمیان کشیدگی بڑھنے سے مجموعی طور پر پاکستان کی معیشت دباؤ کا شکار رہے گی۔ہماری معاشی ترقی کی شرح پہلے ہی مندی کا شکار ہے۔ سرحدوں پرتناؤ کے حالات میں سرمایہ کاری کا ایک دم تیز ہوجانا بظاہر ممکن نظر نہیں آتا۔ بھارت نے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کے بین االاقوامی ادارہ کو پاکستان کے خلاف استعمال کیا ہے۔ ہماری معیشت کی بحالی اور ترقی کے لیے ایف اے ٹی ایف کے فیصلے بہت اہمیت کے حامل ہیں۔ اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے بھارت نے پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کی گرے فہرست میں شامل کروایا ہُوا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ پاکستان میں اقتصادی سرمایہ کاری کا راستہ روکا جائے ‘ پاکستان کا امیج ایک ایسے ملک کے طور پر پیش کیا جائے جو دہشت گردی سے جڑا ہوا ہے۔ پاکستان نے ایف اے ٹی ایف کی متعدد شرائط کو پورا کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے تاکہ وہ بلیک لسٹ میں جانے سے بچا رہے اور گرے لسٹ سے باہر نکلے۔ کشمیر میں مزاحمتی تحریک کے زور پکڑنے کے بعد بھارت لابنگ کررہا ہے کہ پاکستان کو بلیک لسٹ میں شامل کروایا جائے۔بھارتی کوششوں کی کامیابی کا انحصار اس بات پر ہے کہ امریکہ اس ضمن میں کس حد تک اسکا ساتھ دیتا ہے۔ موجودہ سال کشمیر میں آزادی کی تحریک کے لیے بہت اہمیت کا حامل ہے۔عالم اسلام اور عالمی برادری نے اِنکاساتھ نہیں دیا۔ مظلوم کشمیریوں کی ساری امیدیں پاکستان سے وابستہ ہیں۔پاکستانی قوم کووقتی طور پر فائدہ یا نقصان کی پرواہ کیے بغیر کشمیریوں کی پشت پر کھڑا ہونا پڑے گا۔ کشمیری صرف اپنی آزادی کی جنگ نہیں لڑ رہے بلکہ وہ پاکستان کے دفاع کی فرنٹ لائن بھی ہیں۔ ان کا دفاع پاکستان کا اپنی سلامتی کا معاملہ ہے۔جب تک کشمیر کے تنازعہ کا حتمی تصفیہ نہیں ہوتا بھارتی جارحیت کا خطرہ ہمارے سروں پر منڈلاتا رہے گا۔