آزاد خطوں کے مسلمان عید کے دن اپنے رشتہ داروں ،دوستوں اورپیاروں کے پاس جاکر ان سے عید ملتے ہیںلیکن مقبوضہ کشمیر میں عید کے دن اپنے عزیزوں کی قبروں کی زیارت کے لئے جاتے ہیں جنہیں گزشتہ 32 برسوں کے دوران بھارتی فوج نے شہید کیا۔ یہ ہے کشمیرمیں تصورعید ۔ رمزآشنا اور محرم رازعلامہ حسن البناء شہید ؒنے کیاخوب فرمایاکہ ’’تمہاری حقیقی عید اس دن ہوگی جس دن تمہاری سر زمینیںآزاد ہونگی اوردنیا میںقرآن کی حکمرانی ہوگی ‘‘ یقینااس دن نہ صرف ہماری حقیقی عید ہوگی بلکہ وہ دن امت مسلمہ کے لئے عہدآفریں بھی ہوگا کہ جب نبرآزماشیطانی طاقتوں کو عبرت انگیز شکست ملے گی اوراسلام کے نشاہ ثانیہ اور پھر سے اس کے اوج اقبال کادوردورہ ہوگا۔ دنیا کے دیگرخطوں میں پائی جانے والی اسلامی تحریکات کے بشمول ملت اسلامیہ کشمیر طویل و صبر آزما جدوجہد میں جو قربانیاں پیش کر رہے ہیں،عظیم اوربے مثال ہیں۔ ظلم و جبر اور بربریت کا کوئی ہتھکنڈہ ایسا نہیں جو ہندوبھارت نے بے سرو سامان اور نہتے کشمیری مسلمانوں پر نہ آزمایا ہو لیکن بھارت کاظلم وتعدی خستہ دل اورتفتہ جگرکشمیری مسلمانوں کے اذہان میں کشمیرکازسے ایمانی لگائو کو مستحکم اورمضبوط ہی کرتاچلا گیااورآج کشمیرکابچہ بچہ ببانگ دہل اس عہد کو دہراتا ہے کہ تحریک آزادی کشمیرکی کامیابی کیلئے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کرے گا۔ ہماری حقیقی اور سچی عید اس دن ہو گی جب ریاست جموںوکشمیر بھارت کے استعماری تسلط سے آزاد ہو گی اور اس سرزمین سے توحید حقیقی کا ڈنکا بج اٹھے گا۔وہ یہ اعلان کرکے بھارت کے بام ودرہلارہاہے کہ : ستم گر ادھر آہنر آزمائیں تو تیر آز ماہم جگر آزمائیں 1990ء میں ملت اسلامیہ کشمیرکا جمود ٹوٹا، اسلامیان کشمیر نے اپنی منزل کا تعین کیا جہاد کشمیر کے لئے ایک صدا بلند ہوئی جس کی کشش سے ایک ہنگامہ برپا ہوا، ذہنوں میں دسعت ، طبیعتوں میں جولانی درآئی،ان کی فکر نے ایک تاریخ ساز جدوجہد شروع کرنے کی اڑان بھری۔ قلب وذہن نے آزادی برائے اسلام کے لئے اپناانہماک دکھایا ۔ عظیم مقاصد کے حصول کے لئے عظیم قربانیاں پیش کرنے کیلئے ان کا سینہ فراخ اور منشرح ہوا۔ 32 برسوں سے لگاتا ر عیدکے موقع پر بھی کشمیری مسلمانوںکا قتل وخون، مظالم ، محاصرے ،گرفتاریاں کے جھکڑ چل رہے ہیں ،گولیوں تڑتڑاہٹ ، گن گرج ہے اوربارودکی سماعت شکن تڑاخ پٹاخ آوازیں سنائی دے رہی ہیں ۔ عیدکے موقع پرکڑیل، خوبصورت اورخوب سیرت کشمیری نوجوانوں کے اٹھتے جنازے قلب ناتواں پر آرے چلا رہے ہیں، بھارت تمام اخلاقی، انسانی اور بین الاقوامی قوانین کو بالائے طاق رکھ کر کشمیرکے نہتے مسلمانوں پر گولیوں کی بارش کر رہا ہے، اپنی آوازبلندکرنے کے لئے ان پر تمام راستے مسدود کر دئے گئے ہیں ۔ یہ کوئی سہل اورمعمولی بات نہیں کہ 32سال ہوئے مظلومین کشمیرکودن کاچین نہ رات کاآرام نصیب ، انکی صبحیںاور ان کی شامیں غم میں ڈوبی ہوئی ہیں، ہجوم در ہجوم آفات وآلام ہر سو انہیں گھیرے ہوئے ہیں، جس طرف نظراٹھاکردیکھیں توجابجا مقابر کی قطار، جنازوں کی تکرار، زخمیوں کی بھرمار سے کشمیر میں انسانیت لاچار ہے۔ ہر گھر نوحہ خواں ہے اور مسلمانوں کی یہ بستی ویران پڑی ہے۔ سرمایہ ملت یعنی نوجوان خزاں کے تند جھونکوں کے نذر ہو رہے ہیں۔ ہر کلمہ خواں زخموں سے چوراوررنج و غم سے نڈھال ہے ۔ظالموں کے ظلم سے دشت و بیاباں وحشت زدہ ہیں،انسانی آبادیاںاس پیمانے پہ خون آلودہ ہیںکہ سکون غارت، اطمینان غائب، آرام عنقا ہے، دل اجڑے ہوئے ہیں ۔اپنے جائز اور پیدائشی حق کا مطالبہ کرنے والوں کی گردنیں زیر تلوار ہیں جبکہ جرات ِاظہارصریحاََجرم اور سچ کی پکارمکمل طورپرگناہ عظیم قرارپاچکاہے۔ غرض سرزمین کشمیر پرانسانیت خون آشامیوں میں بے حال ہے اور اس قدر پامال ہے کہ زندگیاں اجیرن بن چکی ہیں۔ امت مسلمہ جسد واحدکی طرح ہے تو باہمی اخوت ، دوسروں کے دکھ درد کے احساس والی روح کے ساتھ زندہ رہنا ہی انسانیت ہے، امت کا ایک حصہ لہو لہان ہو تو پوری امت اس کا درد وکرب محسوس کرے اور باطل کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جائے۔فلسفہ عید یہ ہے کہ یہ باہمی تعلقات کو مستحکم ،اسلامی اخوت ومحبت کو مضبوط ، اور امت کے شیرازے کو متحد کیاجائے ۔ عید یہ پیغام دے رہی ہے کہ عید تنہا خوشیاں منانے کا نام نہیں بلکہ اپنے آس پاس اور پوری دنیا کے مسلمانوں کو خوشیوں میں شریک کرنا بھی ایمانی تقاضا ہے۔ کتنے مسلمان اغیار کے تعذیب خانوں میں مقید ہیں بچوں، بوڑھوں اور خواتین سے خوشی اوران کی مسکراہٹ چھین لی گئی ہے اوروہ یہ دن مظلومیت کے ساتھ گزارہے ہیں۔ اگرچہ عید یہ پیغام دے رہی ہے کہ آزاد بستیوں کے مسلمانوں پر اس وقت تک چین وسکون کی نیند حرام ہے جب تک کہ ہر مسلمان آزادی کے ساتھ اسلامی شعائر کا اظہار نہ کر سکتا ہو؟صلاح الدین ایوبی نے تو اس وقت تک نہ ہنسنے کی قسم کھا رکھی تھی جب تک کہ بیت القدس کو آزاد نہ کرایا جائے اور وہ کہا کرتے تھے کہ وہ شخص کیسے ہنس سکتا ہے جس کی بہنیں کافروں کے رحم وکرم پر ہوں؟ اپنی غیرتِ ایمانی اور حمیت دینی کو مہمیز دے کر، مظلوم مسلمانوںکے حوالے سے نہایت ہی حساس رہنا ایمان کا تقاضا ہے ۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ مسلمان خطوں میں بعض لوگ نشہ اقتدارمیں اس حد تک کافروں کی چاکری کر رہے ہیں کہ کھلم کھلا مظلوم مسلمانوں کے بجائے ظالم کافروں کا ساتھ دے رہے ہیں۔ مسلمانوں کے آزاد خطوںکے لئے عید احتساب وتجدیدِ عہد کا دن ہوتا ہے، امہ سے وابستہ مظلوم مسلمانوں اورامت کے ایک ایک فرد کو اپنے جسم کا حصہ سمجھنے کے عہدکی تجدیدکادن ہوتا ہے،مظلوم مسلمانوں کی دادرسی اورانہیں اغیارکی غلامی سے نکال کر آزادی دلانے کے لئے ہر ممکن کوشش کرنے کے پختہ عزم کرنے کا دن ہے۔ بنظرغائردیکھاجائے توصاف دکھائی دے رہا ہے کہ پوری امہ مسلمہ غلامی کی زندگی جی رہی ہے۔ عید آزاداں شکوہِ ملک و دین کے بجائے پوری امہ کی عیدہجوم مومنین ہے کیوں کہ غلاموں اور مجبوروں کی عید بھی کیا عید ہوتی ہے۔ آزاد قوموں کی عید تب ہوتی ہے جب وہ با وقار ہو اور دین سر بلند ہو۔