بی جے پی کا عروج شروع ہوا تو اس کی خون آشامی نے اس معاملے کو اٹھا لیا ۔ اس قانونی آڑ میں مسلمانوں کو برباد کرنے کی پوری گنجائش موجود تھی ۔ ان کا گمان تھا کہ وہ مسلمانوں کو، جو پہلے ہی بی جے پی کے ووٹرز نہیں ہیں، ملک بدر کردے گی ، اور آسام میں ان کی بڑھتی ہوئی تعداد پر زنجیریں ڈال دے گی ۔چنانچہ انہوں نے مقامی ہندوؤں کے ساتھ مل کر شور مچانا شروع کردیا کہ غیر ملکیوں کی تعداد 80لاکھ ہے ۔اور اتنی بڑی تعداد میں بنگالی مسلمانوں کا آسام میں ہونا اس خطے کی آبادی اور ثقافت کا تناسب تبدیل کر رہا ہے۔ یہ واویلا کیا گیا کہ آبادی کا تقریبا 34فیصد ’ ’ باہری ‘ ‘ یعنی غیر ملکی ہیں۔بی جے پی کی شیلا دتیہ نے کہا کہ وہ ایک اور جموں کشمیر نہیں چاہتے ۔جبکہ سچ بات یہ تھی کہ غیر ملکی خاص طور پر بنگالی مسلمانوں کی بڑی تعداد میں آمد کا شور محض تعصب کی بنیاد پر پروپیگنڈا اور سیاسی مفادات کا کھیل تھا۔حقیقت یہ تھی کہ تقسیم کے بعد اتنی بڑی تعداد میں کبھی مسلمان آسام میں آئے ہی نہیں تھے۔ میں پچھلے کالم میں ذکر کرچکا ہوں کہ’ ’ باہری ‘ ‘ یعنی غیر ملکیوں کے خلاف اصل چھ سالہ تحریک آل آسام سٹوڈنٹس یونین (AASU)نے شروع کی تھی ۔اس قضیے میں ایک اہم موڑ اس وقت آیا جب آسام پبلک سروس اور دیگر ادارے سپریم کورٹ میں چلے گئے۔2009میں سپریم کورٹ میں کئی درخواستیں داخل ہوئیں ،یہ معاملہ ایسا تھا کہ اس میں سیاست بھی پوری طرح فعال تھی اور مذہبی تعصب بھی ۔عام طور پر اعلیٰ عدالتیں اس قسم کے معاملات کو ہاتھ میں لینے سے گریز کرتی ہیں،لیکن کسی وجہ سے سپریم کورٹ نے یہ معاملات اپنے ہاتھ میں لیے اور سماعت شروع ہوگئی ۔دسمبر 2014میں سپریم کورٹ کے رانجن گگوئی اور روہی نتن نریمان نامی ججوں پر مشتمل بنچ نے این آر سی کی تجدید کا حکم دیا۔اور اس کی بنیاد پر آسامی باشندوں اور غیر ملکیوں میں فرق کی ہدایت کی ۔چونکہ این آر سی کی نگرانی سپریم کورٹ خود کر رہی تھی اور اسی نے فہرست کے سوالات اور فارم مرتب کیے تھے اس لیے فہرست سازی میں بی جے پی کی من مانی کا اختیار بہت کم تھا ۔تاہم اس نے غیر ملکیوں کے نام پر مسلمانوں کے خلاف ہنگامہ بپا کیے رکھا۔دوسری فہرست بنائی گئی تو اس میں غیر ملکیوں کی تعداد 40 لاکھ تھی ۔ جبکہ اس آخری فہرست میں یہ تعداد محض 19لاکھ رہ گئی ہے ۔ یعنی کھودا پہاڑ ، نکلا چوہا ۔ اس غبارے میں سے ہوا نکل گئی جسے دن رات پھونکا جارہا تھا۔ اعداد و شمار سب کے سامنے آگئے ہیں۔ این آر سی کا پہلا ڈرافٹ دسمبر 2017میں آیا جس میں ایک کروڑ نوے لاکھ باشندوں کو ہندوستانی قرار دیا گیا۔یہ کل تعداد کا 60فیصد تھی۔اب آخری فہرست میں ٹھیک ٹھیک اعداد و شمار کے مطابق 3,11,00004لوگوں کو شامل کیا گیااور19,06,657 لوگ فہرست سے باہر ہیں۔سپریم کورٹ کے ایک وکیل کے مطابق ان میں سے 5لاکھ وہ ہیں جنہوں نے کاغذات جمع ہی نہیں کرائے ۔غالب گمان یہ ہے کہ وہ فوت ہوچکے ہیں۔4 لاکھ ڈی ووٹرز (ڈی ووٹرز وہ لوگ ہیں جن کا ووٹ مشکوک ہے )اور اعلانیہ غیر ملکی ہیں۔بقیہ 10لاکھ میں 60 فیصدسے 70 فیصد غیر مسلم ہیں۔مسلمان 3سے 4 لاکھ کی تعداد میںہیں۔مسلمانوں نے اس حتمی فہرست کا خیر مقدم کیا ہے کیوں کہ ان کا مؤقف درست ثابت ہوا ہے اور وہ جو ہنگامہ مسلمانوں کا نام لے کر بپاکیا جاتا تھا ان اعداد و شمار نے اس کی ہوا نکال دی ہے۔ اب بی جے پی کے لیے ایک طرف تو اس بات کی وضاحت دینا مشکل ہورہا ہے کہ یہ تعداد جو وہ 80 لاکھ بتاتے تھے ، انیس لاکھ کیسے رہ گئی ۔ دوسرے یہ کہ ان میں بھی تمام مسلمان نہیں ہیں ۔ اہم ترین بات یہ کہ اس فہرست سازی پر جو رقم خرچ ہوئی ہے وہ بہت بڑی یعنی سولہ ہزار کروڑ روپے ہے ۔55ہزار لوگ پانچ سال دن رات فہرست سازی میں لگے رہے ۔اس لیے بی جے پی کواب دفاع پر مجبور ہونا پڑا ہے اور وہ خودفارم کی شقوں اور طریق ِکار پر اعتراض کر رہے ہیں ۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ بہت سے غیر ملکیوں نے جعلی کاغذات بنوا کر فہرست میں شمولیت کرلی ہے ۔ایک الگ تماشا یہ ہے کہ بے شمار گھرانے تقسیم ہوگئے ہیں ۔ شوہر فہرست میں ہے تو بیوی نہیں ، باپ ہے تو بیٹا نہیں ، ایک بھائی ہے تو دوسرا نہیں ۔ وغیرہ وغیرہ ۔یہ کیسی مضحکہ خیز بات ہے کہ انڈین آرمی کا ایک مسلمان افسر ثناء اللہ ، جو کارگل جنگ میں حصہ لے چکا ہے ، اس فہرست کے مطابق غیر ملکی شہری ہے۔ اسی طرح بی ایس ایف کے ایک افسر مجیب الرحمٰن کا بھی ، فہرست میں نام نہیں ہے۔سیدھا سا سوال اٹھتا ہے کہ کیا ہندوستانی افواج اتنی نا اہل ہیں کہ وہ ایسے لوگوں کو فوج میں شامل کرلیتی ہیں جو سرے سے ہندوستانی شہری ہی نہیں ہیں۔ بی جے پی نے متعصب ہندوؤں کی دیگر تنظیموں کے ساتھ مل کر جو گڑھا مسلمانوں کے لیے کھودا تھا وہ خود اسی میں منہ کے بل گرے ہیں۔ اب اس بات پر سخت تشویش کا اظہار کیا جارہا ہے کہ بہت سے بنگالی ہندو این آر سی فہرست سے باہر ہیں۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ آسام کے بیشتر ہندو بی جے پی کی حمایت کرتے ہیں اور بی جے پی نے آسام کی 14 مرکزی نشستوں میں سے 9 انہی کے بل پر جیتی تھیں۔چنانچہ یہ بات قابل فہم ہے کہ آسام کے وزیر اعلٰی سربندہ سونووال نے حال ہی میںچار کے ٹولے میں سے ایک بدنامِ زمانہ وزیر داخلہ امت شاہ سے ملاقات کے بعدکہا ہے کہ مرکزی حکومت ان’ ’ غیر ملکیوں‘ ‘ کو جو کسی طرح فہرست میں شامل ہوگئے ہیں، نکالنے کی کوشش کر رہی ہے ۔ اور اسی طرح وہ ’ ’ حقیقی باشندے ‘ ‘ جو فہرست سے باہر رہ گئے ہیں انہیں شامل کرے گی ۔ حکومت نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ ان’ ’ حقیقی‘ ‘ باشندوں کو قانونی مدد فراہم کرے گی جو اس آخری فہرست میں شامل نہیں ہیں۔آپ سمجھ سکتے ہیں کہ’ ’ حقیقی باشندے ‘ ‘ کون سے ہوں گے۔ اس فہرست میں جو لوگ نہیں ہیں ان کا کیا ہوگا؟ وہ ہندوستانی شہری نہیں رہیں گے۔وہ اس کے خلاف فارن ٹربیونلز میں اپیل کرسکتے ہیں ۔ لیکن وہاں قانونی مسائل بھی اتنے پیچیدہ ہیں کہ داد رسی بہت مشکل ہے۔فارنرز ایکٹ کے سیکشن ۹ کے تحت بارِثبوت اس مشکوک شخص پر ہے ۔جو یہ ثبوت نہ لاسکے گا۔غیر ملکی کہلائے گا۔لیکن اس میں یہ بات پھر بھی غیر متعین رہے گی کہ اگر یہ شخص ہندوستانی شہری نہیں تو کس ملک کا شہری ہے ۔کیا بنگلہ دیش کا؟یہ بات بھی اہم ہے کہ بنگلہ دیش پہلے ہی واضح طور پر انہیں اپنے شہری ماننے سے انکار کرچکا ہے۔اس کا مطلب ہے کہ جو غیر ملکی قرار پائیں گے انہیں ڈی پورٹ کرنے سے پہلے نظر بندی کے کیمپوں میں رکھا جائے گا۔اور چونکہ وہ ملک معلوم نہیں ہوگاجہاں ڈی پورٹ کیا جانا ہے اس لیے وہ اور ان کی نسلیں ہمیشہ کیمپوں میں نظر بندی اور قید کی زندگی گزاریں گے۔ تین سے چار لاکھ مسلمانوں کے سر پر یہ تلوار ابھی تک لٹکی ہوئی ہے۔مسلمان تنظیموں نے ان کی قانونی مدد کوہاتھ بڑھایا ہے ۔لیکن ہندو متعصب ذہنیت کیا نیا پینترا بدلتی ہے ، کہا نہیں جاسکتا۔اب یہ بات دن کی طرح بالکل روشن ہے کہ این آر سی اتنا خطرناک نہیں جتنی یہ ذہنیت۔ سو بہانے ہیں اگر کوئی ستانا چاہے (ختم شد)