امریکہ نے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی بدترین پامالیوں پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے بھارت سے کشمیر سے فوری کرفیو ختم کرنے اور پابندیاں اٹھانے کا مطالبہ کیا ہے۔ بھارتی فوج گزشتہ 56 روز سے کشمیریوں کا محاصرہ کئے ہوئے ہے۔ بچوں ‘ خواتین ‘ بوڑھوں اور مریضوں کو پابند سلاسل کر رکھا ہے۔بدترین کرفیو سے وادی میں غذائی قلت اور ادویات کی عدم دستیابی سے انسانی المیہ جنم لے چکا ہے۔ ادویات نہ ملنے کے باعث لوگ ایڑیاں رگڑ کر جانیں دے رہے ہیں۔بھارتی فوج معصوم بے گناہ بچوں کو گھروں سے اٹھا کر بہیمانہ تشدد کرکے جنگی جرائم کی مرتکب ہو رہی ہے۔ لیکن انسانی حقوق کی تنظیمیں اور عالمی برادری اس جانب توجہ ہی نہیں دے رہی جو کشمیریوں کے ساتھ کسی زیادتی سے کم نہیں ہے۔مودی حکومت کے سفاکانہ مظالم اور بربریت کے خلاف صرف عالمی سطح پر ہی تشویش کا اظہار نہیں کیا جا رہا بلکہ خود بھارت کے امن پسند،اعتدال پسند اور انصاف پسند حلقے بھی غم و غصے کا اظہار کر رہے ہیں۔ اگر مودی سرکار عالمی دبائو یہاں تک کہ بھارتی عوام کے دبائو کو بھی خاطر میں نہ لاتے ہوئے سیکولر بھارت میں آر ایس ایس کے ہندوتوا کے ایجنڈے کو مسلط کرنے میں کامیاب ہے تو اس کی وجہ صرف اور صرف مودی کے سٹریٹجک پارٹنر امریکی صدر ٹرمپ کی آشیربادہے۔ امریکی صدر ایک طرف تو کشمیر پر ثالثی کی بات کرتے ہیں تو دوسری طرف مودی کے ہاتھوں میں ہاتھ دے کر کشمیریوں کے زخموں پر نمک پاشی بھی کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم عمران کو جنرل اسمبلی کے فورم پر بھی یہ کہنا پڑا کہ دنیا کو فیصلہ کرنا ہو گا کہ سوا ارب لوگوں کی مارکیٹ دیکھنی ہے یا بھارتی مظالم۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ ٹرمپ کی تاجرانہ سوچ کشمیر میں جلتی پر تیل کا کام کر رہی ہے۔ امریکی صدر بھارت سے تجارتی اور سٹریٹجک مراسم بڑھا کر مودی کو مسلمانوں کی نسل کشی کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں۔جنرل اسمبلی کے اجلاس میں ترک صدر کے علاوہ کسی بھی ملک نے کشمیریوں کے حق میں آواز نہیں اٹھائی جو عالمی برادری کی مودی سرکار کے ساتھ یکجہتی کی بدترین مثال ہے، اس پر دکھ اور افسوس کا ہی اظہار کیا جا سکتا ہے۔ اقوام متحدہ کے حالیہ اجلاس سے یہ تاثر سامنے آیا ہے کہ عالمی برادری نے جنرل اسمبلی کے اس اجلاس کو بھی معمو ل کے مطابق نشستند گفتند اوربرخاستند کے طور پر لیا ہے۔ عالمی برادری کم از کم یک زبان ہو کر مقبوضہ وادی سے کرفیو اٹھانے کا مطالبہ تو کر سکتی تھی ،جو نہیں کیا جبکہ امریکی نائب معاون خارجہ امور ایلس ویلز کا بھارت سے کشمیر میں کرفیو میں نرمی اور پابندیاں ہٹانے کے مطالبے کو لفاظی کہنا غلط نہ ہو گا۔ بہتر ہو گا امریکہ اپنے سٹرٹیجک پارٹنر مودی کو اپنا اثرو رسوخ استعمال کرکے کشمیر میں الیکشن کے بجائے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حق خودارادیت دینے کے لئے مجبور کرے تاکہ 70 سال سے اقوام متحدہ کی زیر التوا قراردادوں پر عملدرآمد کرکے کشمیریوں سے کیا گیا وعدہ وفا کیا جا سکے۔