ایک عادت سی بنا لی ہے کہ جس تقریب میں مہمان کے طور پر بلایا جائوں اس کی کارروائی رپورٹ نہیں کرتا۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب قلم ابھی نیا نیا ہاتھ میں آیا تھا۔ وجہ اس کی یہ تھی کہ بعض منتظمین اس لئے مدعو کرتے تھے کہ خبر بھی چھپ جائے گی۔ یہ رویہ ان کی حوصلہ شکنی کے لئے تھا۔ ہمارے بعض ممدوحین بھی ایسے تھے جن کی اپنی تقریروں اور بیانات سے ان کے جریدے بھرے ہوتے تھے۔ یہ ایک ایسی عادت تھی‘ پیشہ وارانہ طور پر جس کا فائدہ تھا۔ مگر وقت کے ساتھ حالات بدل گئے ہیں۔ اب کئی بار ایسی جگہ جانا ہوتا ہے کہ جس کی کارروائی اگر صرف اس وجہ سے قارئین تک نہ پہنچے کہ اس میں ہماری اپنی شمولیت ہو گئی ہے تو یہ گویا قارئین سے زیادتی ہو جائے گی۔ اب تمیز کر لیتے ہیں کہ کس بات کا چھپنا ضروری ہے بلکہ ذمہ داری ہے اور کس کو نظر انداز کر دینا چاہیے۔ گزشتہ تین چار دنوں میں کم از کم تین تقاریب ایسی تھیں جن میں شمولیت کی اور ان کے بارے میں بیان کرنا بھی ایک ذمہ داری لگتی ہے۔ ان میں سب سے اہم تقریب خورشید ندیم کا سیمینارتھا۔یہ نوجوان چار چھ ماہ بعد لاہور آتا ہے اور کسی سنجیدہ موضوع پر ایک سنجیدہ نشست منعقد کراتا ہے جس پر خوب بحث ہوتی ہے۔ کسی نتیجہ پر پہنچا جا سکے یا نہ‘ مگر اتنا ضرور ہوتا ہے کہ ذہنی مشق ضرور ہو جاتی ہے۔ اس کا تذکرہ مگر آخر میں۔ ایک روز نشست کا ذکر پہلے ہو جائے کہ یہ اس وقت ملت اسلامیہ پاکستان پر عائد ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے‘ اس میں مجھے جھٹ پٹ بغیر کسی نوٹس کے شریک ہونا پڑا۔ یہ لاہور کالج فار وومن یونیورسٹی کی بڑی تقریب تھی جو اس کے آڈیٹوریم میں منعقد ہوئی تھی۔ سلمان غنی نے فون کیا کہ بس آ جائو۔ کشمیر پر بات کرنا ہے اور کشمیر کمیٹی کے چیئرمین فخر امان بس پہنچنے ہی والے ہیں۔ ان کی صدارت ہے۔ وسیع و عریض ہال بڑے وقار سے سجا ہوا تھا۔ مجھے خیال آیا ہم کشمیر ڈے کچھ زیادہ ہی تو نہیں منانے لگے۔میرا مطلب یہ ہے کہ ہر روز کشمیر پر جلسہ سجا لینے سے کیا کشمیر آزاد ہو جائے گا اور ہمارا فرض ادا ہو جائے گا۔ چند روزپہلے بھی میں اس یونیورسٹی میں اپنی بھانجی کے کہنے پر آیا تھا۔ مجھے خیال آیا کہ جولائی کے مہینے میں ہم نے تین بار کشمیر ڈے منایا۔8جولائی کو برہان وانی کی یادمیں‘13جولائی کو 1931ء کے شہداء کی یاد میں اور 19جولائی کو جب کشمیری قیادت نے کشمیر کا الحاق پاکستان سے کر دیا تھا اور بھی کئی بار مناتے ہیں۔ علی گیلانی کا یوم پیدائش 23اکتوبر کو جب اقوام متحدہ کے قرار داد پاس ہوئی۔ میرا کہنا ہے کہ ہم کہیں گفتار کے غازی تو بن کر نہیں رہ گئے۔ اکثر اوقات مقررین پوچھتے ہیں کہ آج کا دن کیوں اہم ہے۔5فروری کے حوالے سے ایسا کئی بار ہوتا آیا ہے جب کہ پاکستانی اسے کشمیر کے بارے میں اپنے اتحاد کی علامت سمجھتے ہیں جب سب سیاسی جماعتیں یک زبان ہو گئی تھیں۔ قاضی حسین احمد نے کال دی‘ نواز شریف نے وزیر اعلیٰ پنجاب کی حیثیت سے اسے پنجاب میں منانے کا اعلان کیا اور بے نظیر نے وزیر اعظم کی حیثیت سے اسے پاکستان بھر میں منانے کا فیصلہ کیا۔ بہرحال اس وقت پاکستان کی درسگاہوں میں کشمیر پر خوب تقریبات ہو رہی ہیں۔ فخر امام کہہ رہے تھے کہ انہیں مزید ہونا چاہیے کہ نئی نسل کے خون میں تو کشمیر کی آتش چنار روشن ہے‘مگر ان کے ذہنوں سے پوری تصویر ترتیب وار تازہ نہیں۔اس لحاظ سے یونیورسٹی کی وائس چانسلر بشریٰ مرزا اور شعبہ ابلاغیات کی سربراہ انجم ضیاء کی یہ کوشش ایک اچھی کوشش تھی اور طلبہ کی شمولیت کا انداز اور ان کی لگن بتاتی تھی کہ کشمیر کا مسئلہ آج بھی زندہ اور توانا ہے۔ ایک دوسری تقریب میں بھی میں ایسے ہی شریک ہوا۔ کشمیر والی میں تو سلمان غنی سبب بنے اور اس دوسری میں فرخ شہباز وڑائچ کا حکم تھا۔ الحمرا کا ہال نوجوانوں سے بھرا پڑا تھا اور وہ اس بات پر غور کر رہے تھے کہ ہمارا نظام تعلیم کیسا ہو۔ اس میں بلا شبہ پورے ملک سے لوگ شریک تھے۔ بلوچستان سے تو خوب خوب سوال آ رہے تھے۔ نصراللہ ملک‘ حفیظ اللہ نیازی ہم سب طلبہ کی عدالت میں تھے۔ مگر جس تقریب کا مجھے خصوصی تذکرہ کرنا ہے‘ وہ خورشید ندیم کا سیمینارہے۔ ایک نوجوان عمار نے مقدمہ پیش کیا۔ موضوع تو تھا کہ ’’سیاسی جماعتوں کی ناکامی اور نئی سول سوسائٹی کا ظہور‘‘۔ اس پر بڑے سوال تھے۔ آیا سیاسی جماعتیں ناکام ہو چکی ہیں اور آیا ان کے جواب میں نئی سول سوسائٹی ظہور پا رہی ہے۔ اس میں یہ مقدمہ بھی تھا کہ گزشتہ دنوں جو طلبہ یونین کی بحالی کے مسئلے پر پورے ملک میں ایک ہی دن ریلیاں نکلی تھیں وہ نئی سمت کا اشارہ دیتی ہیں۔ نوجوان عمار کی رائے تھی یہ بائیں بازو کا ازسرنو ظہور ہے اور نئے عہد کا آغاز۔ یہ تو میں نے یونہی سرسری سی بات کر دی۔ وگرنہ اس نے خوب جم کر مقدمہ قائم کیا تھا۔ میرے ذمہ اس کا جواب مقدمہ پیش کرنا تھا۔ ایک تو اس لئے کہ خورشید ندیم کی رائے میں میرا مقدمہ اصل میں ہی یہی بنتا ہے اور ایک اس لئے کہ اس کے بعد کھل کر دونوں طرف سے بات ہومری رائے ذرا مختلف ہے۔ایک تو یہ کہ بائیں بازو کا ظہور نہیں ہو رہا‘ بلکہ سول سوسائٹی ایک الگ ہی چیز ہے جو غیر سیاسی بھی ہے اور غیر انقلابی بھی۔ یہ سرمایہ دار دنیا میں اس لئے آگے لائی جا رہی ہے کہ انقلاب کا رستہ روکا جا سکے۔ اس کا اپنا ایک کلچر اور ایک اجتماعی ایجنڈا بھی ہے اور یہ خاصا بورژدا قسم کا معاملہ ہے۔ وہاں میں نے مختصر وقت میں جو بات کی وہی بیان کرنے لگوں تو قصہ خاصا طولانی ہو جائے گا۔ اب بحث مختلف سمت میں چل پڑی۔ وجاہت مسعود تو نظریاتی آدمی ہیں۔ انہوں نے اس حوالے سے بات کی اور عمدگی سے کی۔ پھر مگر بات پھسل گئی۔ خاص طور پر احمد بلال محبوب نے طلبہ یونین کے کردار کے حوالے سے کئی نکات اٹھائے۔ اصل میں خورشید ندیم کا مقدمہ یہ تھا کہ یہ ایک نان موومنٹ ہے جس کا کوئی قائد نہیں ہوتا۔ مجھے ڈر تھا کہ تیونس سے چلنے والی عرب بہاروں یا مغرب کی وال سٹریٹ اکوپائی نے کیا دیا۔ یہ ناکام رہی ہیں شاید اس لئے کہ قائد کوئی نہیں۔ ہمارے ہاں یہ تجربہ مشرف نے کیا یا اس سے کروایا گیا۔ اس سے پہلے ضیاء کے زمانے میں ملا ملٹری الائنس کی بات تھی۔ مشرف نے سول سوسائٹی اور ملٹری اتحاد کا تجربہ کیا۔ نثار میمن‘ زبیدہ جلال‘ عمر اصغر‘ کتنے ہی لوگ تھے جو سول سوسائٹی کے بتائے جاتے تھے۔ یہ تجربہ ناکام ہوا اور آج تک ناکام جا رہا ہے تاہم کوشش بہت ہورہی ہے۔ ہمارا بایاں بازو یا دایاں بازو اپنا رنگ نہ دکھا دیں۔ بہرحال یہ ایک سنجیدہ محفل تھی۔ مجیب شامی‘ عطا الحق قاسمی‘ یاسر پیرزادہ‘ سلمان عابد‘ رئوف طاہر‘ سلمان غنی اچھے خاصے گفتگو کرنے والے موجود تھے اور سب نے کھل کر بات کی۔ اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے ہاں دلوں میں ایک آگ سلگ رہی ہے۔ صرف جذباتی نہیں‘ بلکہ سنجیدہ سطح پر ہم اپنے مسائل پر غور کرنا چاہتے ہیں اور اس کی مار دور تک ہے۔ کشمیر ‘نظام تعلیم‘ میڈیا‘ سول سوسائٹی‘ سیاسی جماعتوں کی ناکامی۔یاد آیا کہ سیاسی جماعتوں کی ناکامی اور ان کے جواب میں سول سوسائٹی کے ظہور سے مرے اندر کا ڈر بھی جاگا کہ کہیں اس سے وہ نتیجہ نہ نکلے جو ماضی میں نکلتا رہا ہے یعنی سیاست دان ناکام اور مارشل لاء کو بلائو۔ اس دن بڑے بڑے سوال پوچھے گئے اور ان کے جواب تلاش کرنے کی کوشش کی گئی۔