ابتر ہوتی ہوئی معیشت، دو سال قبل نوٹ بندی کے نتیجے میں چھوٹی اور درمیانہ درجے کی صنعتوں کی خستہ حالی اوراس کی وجہ سے بڑھتی ہوئی بیروزگاری سے نمٹنے میں ناکامی کے پیش نظر اگلے سال مئی میں ہونے والے عام انتخابات میں فتح حاصل کرنے کیلئے وزیرا عظم نریندر مودی کی قیادت والی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے تین ایشوز پر مشتمل ایک روڑ میپ ترتیب دیا ہوا تھا۔ اس میں اولین ترجیح اترپردیش کے شہر ایودھیامیں مسمار شدہ بابری مسجد کی جگہ پر ایک عالیشان رام مندر کی تعمیر کا ہوا کھڑا کرنا نیز جموں و کشمیر میںمزید کشت و خون و غیر مستحکم حالات بنائے رکھ کر اسکو ملک بھر میں ووٹ حاصل کرنے کیلئے بنانا شامل تھا۔ اور اگر یہ دو ایشوزعوامی جذبات ابھارنے میں ناکام ہوتے ہیں ، تو آخری حربہ کے طور پر انتخابات سے قبل پاکستان کے خلاف کسی طرح کی جارحانہ کارروائی کرکے ہندو ووٹروں کو بی جے پی کے حق میں لام بند کرانا،تاکہ دفاعی سودوں اور بینکوں میں ہورہی بد عنوانیوں اور دیگر ایشوز کو لیکر وہ مودی حکومت کو احتساب کے کٹہرے میں کھڑا نہ کرسکیں۔ مگر سپریم کورٹ نے فی الحال رام مندر پر ہورہی سیاست کی ہوا نکال کررکھ دی۔ ہندو تنظیموں کا خیا ل تھا کہ جب سپریم کورٹ میں سماعت شروع ہوگی ،تو کورٹ روم میں ہورہے دلائل کی بھر پور تشہیر کرکے ہندو آبادی کو باور کرایا جائے، کہ حکومت رام مندر بنانے کیلئے کس حد تک سنجیدہ ہے ۔ نیز اپوزیشن خاص طور پر کانگریس کو ہندو مخالف بھی ثابت کروانا تھا۔سپریم کورٹ کے نئے چیف جسٹس ،جسٹس رنجن گوگوئی نے پچھلے ماہ دلائل سنے بغیر ہی سماعت جنوری تک ملتوی کی، اور ان کے انداز سے لگتا ہے کہ شاید انتخابات تک وہ اس مقدمہ کی سماعت ہی نہیں کرینگے۔خود وزیر اعظم مودی بھی اس سے اس قدر بوکھلا گئے ہیں کہ پبلک جلسہ میں کانگریس سے تعلق رکھنے والے وکیلوں پر الزام لگایا کہ انہوں نے ہی عدالت پر التوا کا دبائو بنایا۔ بی جے پی کے اندر سے ذرائع بتا رہے ہیں کہ پارٹی دسمبر تک انتظار میں ہے کہ ہندو انتہا پسندوں کی مربی تنظیم راشٹریہ سیویم سنگھ ( آر ایس ایس) اور اسکی ذیلی تنظیم ویشو ہندو پریشد (وی ایچ پی) کس حد رام مندر کے ایشو کو ایک عوامی مہم میں تبدیل کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہے۔ بی جے پی کے ساتھ ایک پیچیدہ معاملہ یہ بھی ہے کہ اتر پردیش اور پڑوسی صوبہ بہار میں اسی کی حکومت ہے، اسلئے وسیع پیمانہ پر ہندو ۔مسلم فساد کروانا بھاری پڑ سکتا ہے۔ دوسرا ایشوبی جے پی کے پٹارے میں کشمیر تھا۔ لیکن پچھلے ہفتے چند گھنٹوں کے دھواں دار ڈرامے کے بعدریاست کی منتخب اسمبلی کو تحلیل کئے جانے کے بعد لگتا ہے کہ یہ بھی ہاتھ سے نکل گیا ہے۔ پانچ ماہ قبل جب مودی حکومت نے پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کی محبوبہ مفتی حکومت کو برطرف کیا، تو اسمبلی کو معطل رکھا گیا تھا۔ منصوبہ تھا کہ فروری یا مارچ میں اسمبلی کو بحال کرکے موجودہ مرکزی وزیر و جموں خطے کے ادھمپور سے رکن پارلیمان جیتندر سنگھ کے سر پر وزارت اعلیٰ کا تاج سجایا جائے۔ ان کو اسکی اطلاع دی گئی تھی اور پچھلے ایک ماہ سے دہلی میں وہ اپنی رہائش گاہ پر ضیافتوں کا اہتمام کرکے آئوٹ ریچ کا خوب کام کر رہے تھے۔بتایا جاتا ہے کہ گورنر ان کو اسمبلی میں اکثریت ثابت کرنے کیلئے ایک یا دو ماہ کا وقفہ دینے والے تھے، تاآنکہ عام انتخابات مکمل ہوجاتے ہیں۔ بی جے پی پورے بھارت میں ڈھونڈورا پیٹنے والی تھی کہ انہوں نے پہلی بار مسلم اکثریتی کشمیر میں ایک ہندو کو وزیر اعلیٰ مقرر کیا۔ ہندو ووٹروں کو لبھانے کیلئے یہ ایک نفسیاتی حربہ تھاکہ 1947ء کے بعد ریاست میں ڈوگرہ راج بحال ہوگیا ہے۔ پورے بھارت میں بی جے پی اور آر ایس ایس کے کارکنان گھر گھر جاکر پیغام دینا چاہتے تھے کہ کانگریس نے اپنے دور اقتدار میں ہندو اکثریتی مہاراشٹرہ ، آسام ، بہار اور کیرالا میں مسلمان وزراء اعلیٰ تو بنائے ، مگر کشمیر میں کسی ہندو کو وزیرا علیٰ بننے نہیں دیا۔ حتیٰ کہ کشمیر میں کانگریس کے ریاستی یونٹ کا سربراہ بھی جموں کے ہندو کے بجائے مسلمان ہی ہوتا ہے، جبکہ وادی کشمیر میں کانگریس کی کوئی سیاسی موجودگی نہیں ہے۔ کانگریس کے مقتدر لیڈر اور ایوان بالا میں قائد حزب اختلاف غلام نبی آزاد نے بی جے پی سے یہ انتخابی کارڈ چھیننے کی غرض سے پچھلے ماہ اکتوبر میں نیشنل کانفرنس کے صدر ڈاکٹر فاروق عبداللہ سے مدد کی درخواست کی۔ پہلے یہ طے ہوا تھا کہ ڈاکٹر عبداللہ کی قیاد ت میں ہی بی جے پی اور اسکے اتحادیوں کے علاوہ بقیہ پارٹیوں کا ایک اتحاد حکومت تشکیل دیگا۔ مگر بعد میں مشورہ کے بعد نیشنل کانفرنس نے شرط رکھی کہ و ہ حکومت کو باہر سے حمایت دیگی ، نیز پی ڈی پی محبوبہ مفتی کے علاوہ کسی اور کو وزارت اعلیٰ کیلئے نامزد کرے اور اسمبلی کی بحالی کے بعد دفعہ 35(A)میں ترمیم کا قانون پاس کرواکے ہائوس کو تحلیل کرنے کی سفارش کرے۔ اس ترمیم کے بعد باہر شادی کرسکنے اور کشمیری خواتین جائیدادوں میں حصہ لینے کی مجاز ہوتی۔ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارتی سپریم کورٹ اسی صنفی تعصب کے ایشو کو لیکر آئین کی اس شق کو کالعدم کرسکتا ہے۔ اگر اسمبلی اسمیں یہ ترمیم کرتی ہے ، تو شاید عدالت اسکے خلاف دائر اپیلوں کو خارج کردیگی۔ تینوں پارٹیوں کا خیال تھا کہ موجودہ اسمبلی کے ذریعے بنائی گئی کوئی بھی حکومت دہلی میں مودی حکومت کی ریشہ دوانیوں کی تاب نہیں لا پائے گی۔ اسی سلئے جلد یا بدیر اسکو تحلیل کرکے نئے انتخابات کیلئے راہ ہموار کی جائے۔ یہ بھی سننے میں آرہا ہے کہ بھارتی خفیہ ایجنسیوں اور فوج کا ایک طبقہ بھی اسی حق میں تھا کہ سرینگر میں کسی حد تک کوئی قابل قبول حکومت قائم ہو، تاکہ عوام کا غصہ کسی حد تک ٹھنڈا ہوتاکہ ان کو بھی کچھ ریلیف ملے۔ مگر اس سلسلہ جنبانی کی بھنک جب بی جے پی کے لیڈروں کو ملی، تو اسکا توڑ کرنے کیلئے انہوں نے اپنے اتحادی پیپلز کانفرنس کے صدر سجاد غنی لون کو آگے کیا۔ کیونکہ اس وقت وہ جیتندر سنگھ کا پتہ فرنٹ پر نہیں لا سکتے تھے۔ آزاد نے چونکہ کانگریس کی اعلیٰ قیادت کو آگاہ کیا تھا ، اسلئے طے تھا کہ کانگریس کے ریاستی صدر غلام احمد میر، محبوبہ مفتی اور نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبداللہ دہلی آکر 23نومبر کو سونیا گاندھی سے ملاقات کرکے اتحاد کا باضابط اعلان کرینگے اور اگلے روز جموں میں گورنر ستیہ پال ملک کے سامنے حکومت سازی کا دعویٰ کرینگے۔ مگر جب بی جے پی صدر امیت شاہ کے کہنے پر پارٹی جنرل سیکرٹری رام مادھو 21 نومبر کی صبح لون کو فی الفور حکومت سازی کا دعویٰ پیش کرنے کیلئے ڈھونڈ رہے تھے تو معلوم ہوا کہ وہ لندن میں ہیں۔ تو اسکا حل یہ نکالا گیا کہ گورنر ہائوس کا فیکس ہی بند رکھا جائے۔ چونکہ محبوبہ مفتی و عمر عبداللہ گرمائی دارلحکومت سرینگر میں تھے،اور یہ طے تھا کہ وہ درخواست صرف بذریعہ فیکس ہی سرمائی دارلحکومت جموں کے گورنر ہائوس بھیج سکتے تھے، اس لئے لون کا خط ملنے تک محبوبہ مفتی کیلئے گورنر ہائوس کے رابطہ کے دروازے بندرکھے جائیں۔ بی جے پی جس نے پچھلے انتخابات میں سوشل میڈیا کو ایک عمدہ ہتھیار کے بطور استعمال کیا، مفتی نے اسی ہتھیار کو استعمال کرکے ٹوٹیٹر کے ذریعے دعویداری کا خط مشتہر کرکے گورنر کو ٹیگ کیا۔ سجاد نے بھی ، جس کے اسمبلی میں محض دو اراکین ہیں، نے کچھ منٹوں کے بعد اسی میڈیم کے ذریعے گورنر کے سیکرٹری کو لیٹر بھیج کر حکومت سازی کا دعویٰ کیا۔ مگر تب تک شاید دیر ہوچکی تھی۔ سپریم کورٹ کے کئی فیصلوں اور سرکاری کمیشن کی سبھی سفارشات کو پس پشت ڈال کر گورنر نے اکثریتی گروپ کو دعوت دینے یا فریقین سے اراکین اسمبلی کی لسٹ مانگنے کے بجائے ایوان کو ہی تحلیل کیا۔ یہ ا س امر کی بھی نشاندہی کرتا ہے کہ جموںوکشمیر میں جمہوری اقدار اور اصولوںکا نفاذ نئی دہلی کی من مرضی اور مفادات کے تابع ہے ۔ 1950ء میں آئین ساز اسمبلی کا قیام اور 1953میں مرحوم شیخ محمد عبداللہ کو وزارت عظمیٰ کے عہدے سے برطرف کر کے زینت زندان بنانے سے لیکرآج تک اس مزاج میں کوئی نمایاں تبدیلی واقع نہیںہوئی ہے۔وگرنہ پی ڈی پی اور پیپلز کانفرنس کی جانب سے حکومت سازی کے دعوے پیش کئے جانے کے چند لمحوں کے اندر اندر اسمبلی تحلیل نہ کی جاتی۔ بھارت میں برسر اقتداربی جے پی کو چھوڑ کو کم و بیش سبھی جماعتوں نے اس اقدام کو جمہوریت کے قتل سے تعبیر کیا ہے۔ بھلے ہی گورنر کی جانب سے یہ دلیل پیش کی جائے کہ انہیں مختلف عناصر کی جانب سے حکومت سازی کیلئے جوڑ توڑ کی اطلاعات ملی تھیں لہٰذا جمہوریت کے تحفظ کے لئے ایسی کوششوں کو ناکام بنانا ضروری تھا،لیکن یہ دلیل کسی کو قائل نہیں کرسکتی، کیونکہ سیاسی جوڑتوڑ ہمیشہ سیاست کا ایک جزو لاینفک رہاہے اور اسکی مثالیں بھارت کی دیگر ریاستوں میں بھی دیکھی جاسکتی ہیں۔ ایک بچکانہ حرکت کرکے گورنر ہائوس کا سارا مواصلاتی نظام بند رکھا گیا۔ اس ڈرامے نے کئی شخصیتوں کے کھوکھلے پن کوبھی نمایاں کیا۔ نیشنل کانفرنس، پی ڈی پی اور کانگریس پر حکومت سازی کیلئے پاکستان کی آشیرواد کی ایسی بے وزن دلیل پیش کی گئی، جس سے دامن جھاڑتے جھاڑ تے ا لزام تراشیاں کرنے والے بھی ہکلانے لگے ہیں۔ اس ممکنہ یا متوقع اتحاد کو جموں و لداخ کیخلاف کشمیر کو برسراقتدار لانے کے تنگ نظریہ کے طور پر بھی پیش کرنے کی کوشش کیا گیا۔ اس پورے ڈرامے کا سنگین پہلو اب یہ ہے کہ چونکہ بی جے پی شایداب کشمیر کو ملک کی انتخابی سیاست کیلئے مہرے کے طور پر استعمال نہیں کرپائے گی وہ اس صورت میں انتخابی کارڈ کو اب پاکستان کی طرف موڑ دے گی۔سرجیکل اسٹرائیک یا محدود فوجی کارروائی اس خطے کو سنگین خطرات سے دوچار کریگی۔ پاکستان کو چاہئے کہ سفارتی سطح پر عالمی برادری کو باور کرائے کہ اس طرح کے کسی بھی ایڈوانچر سے حالات کسی کے بس میں نہیں رہینگے اور یہ خطہ مزید عدم استحکام برداشت نہیں کر پائے گا۔