کیوں نہیں دیکھتا قبروں کے نشاں سے آگے اک جہاں اور بھی ہے تیرے جہاں سے آگے تجھ کو معلوم نہیں فرض ہے تجھ پر بھی جہاد اور تو نکلا نہیں لفظ و بیاں سے آگے اصل میں یہ دو اشعار میرے اس نوحہ کے ہیں جو میں نے کشمیر کے ضمن میں ہونے والے مشاعرہ کے لئے کہے جو عارف چودھری نے نجیب احمد کی صدارت میں الحمرا ادبی بیٹھک میں منعقد کیا۔ میری سرخوشی یہ کہ ادیبوں اور شاعروں میں اپنے کشمیری بھائیوں کے لئے ایک احساس درد جاگا اور انہوں نے اپنے فکرو فن کے ذریعہ اس قلمی جہاد میں شرکت کا فیصلہ کیا۔ نجیب احمد صاحب نے بطور خاص مجھے فون کیا اور میں ناسازی طبع کے باوجود نہ صرف مشاعرہ میں شریک ہوا بلکہ اپنے عہد بے مروت کی اک جھلک اور مطلوبہ احساس کو سخن آشنا کیا۔ ویسے یہ عرب کی تاریخ ہی نہیں دوسری تواریخ بھی بتاتی ہیں کہ اس زمانے کے شاعر بڑے پامرد اور جری ہوا کرتے تھے جنگوں میں حصہ بھی لیا کرتے تھے۔ دور کیوں جائیں ہمارے مومن خاں مومن نے سید احمد شہید کے سامنے مثنوی جہاد پڑھی تھی اور یوں اس معرکے میں ایک عملی شرکت تھی۔ یقینا متذکرہ مشاعرہ ایک سنگ میل ثابت ہو گا۔ دیکھا جائے تو ایک حوالے سے یہ سلام کی محفلوں کا تسلسل بھی لگتا ہے کہ ویسے ہی رنج و الم اور ویسی ہی بے چارگی اور معصومیت ادھر چھائی ہوئی ہے کہ ایک کربلا ادھر بھی برپا ہے جہاں بھارتی درندوں نے قتل و غارت کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ 9لاکھ بھارتی فوجی تمام انسانی اخلاقیات کو پامال کرتے ہوئے مظلوموں کی جانوں اور عزتوں سے کھیل رہے ہیں اور عالمی انسانیت بھی تعصب اور عصبیت کا شکار ہے اور مصلحت اور مفاد کے پردے سے سب کچھ جھانک رہی ہے۔ دوسروں کو چھوڑیں خود مسلم امہ فریب خوردہ شاہین بن چکی ہے اور کرگس کردار ادا کر رہی ہے۔ میں اس کی بات کر رہا ہوں جس کو OICاور طنزاً Oh I seeکہا جاتا ہے۔ میرے معزز قارئین اس ساری سیاست سے آپ واقف ہیں کہ جہاں کفار نے اس امت کو بانٹ کر آپس میں لڑا رکھا ہے اور ان کے وسائل تباہ کئے جا رہے ہیں یا ہتھیائے جا رہے ہیں، اس سے بھارت بھی شہ پا رہا ہے۔ اقوام متحدہ کا رویہ کس سے چھپا ہوا ہے۔ ایسے میں اپنے تئیں عام مسلمان کتنا لاچار اور بے بس ہے کہ سوائے کڑھنے کے اس کے پاس کوئی چارہ نہیں۔ یہ زوال و زیاں کے دنوں کی کہانی ہے۔ پھر بھی غنیمت ہے کہ کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں کہ جو کچھ کر گزرنے کا سوچتے ہیں: ہیں ابھی شہر میں ناموس پہ مرنے والے اس کشمیر مشاعرہ کی صدارت اعجاز رضوی نے کی اور اس کے مہمان خصوصی اعجاز کنور راجا تھے اور خوشی کی بات یہ کہ اس میں طرحدار شاعر ڈاکٹر صغیر صفی کو بطور خاص مہمان کے سٹیج پر بٹھایا گیا کہ ان کا تعلق کشمیر سے ہے۔ میں یہ بھی بتاتا چلوں کہ ڈاکٹر صغیر صفی اور ڈاکٹر کاشف رفیق کو ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ کشمیر میں ایسی صلاحیتوں کے نوجوان موجود ہیں۔ آپ حیران ہونگے کہ ڈاکٹر صغیر صفی نے ڈاکٹری کی سب سے بڑی ڈگری گولڈ میڈل کے ساتھ حاصل کی‘ قرآن مجید حفظ کیا اور ساتھ یہ درس نظامی بھی کر لیا۔ مہمانوں میں مشکور احمد صدیقی اور ہمایوں مرزا بھی تھے۔ اس مشاعرہ میں مضامین بھی پڑھے گئے۔ خاص طور پر ہمایوں زمان مرزا کا خطاب بڑا ولولہ انگیز تھا۔ کیوں نہ ہوتا کہ ان کا تعلق بھی کشمیر سے ہے اور انہوں نے دل فگار منظر کھینچا اور کہا کہ یہ میڈیا والے جو تین تین گھنٹے نان ایشوز پر بات کرتے ہیں وہ کشمیریوں پر ہونے والے ظلم کے بارے میں بھی بتایا کریں۔ وہ کشمیریوں کو دعوت دیں اور ان کی خوں چکاں داستان سنیں۔ نجیب احمد نے اشعار سنائے: ہوا یہ سوچ کر شرما رہی ہے دیے کی لو تو بڑھتی جا رہی ہے اک ارفع تر عبادت ہے شہادت سو مقتل میں اذاں دی جا رہی ہے تقریب کے آغاز میں تلاوت و نعت کے بعد معروف گلوکار عنایت عابد نے نجیب احمد کا ایک ترانہ بھی پیش کیا: اس زمیں کے ہونے سے اب ہمارا ہونا ہے یہ زمیں ہی چاندی ہے یہ زمیں ہی سونا ہے نیلما ناہید درانی کے دو اشعار: درد کا ایک سلسلہ ہے کاشمر اور کربلا میرے دل میں بس رہا ہے کاشمر اور کربلا داستان ظلم جب لکھی کسی نے خون سے میری آنکھوں نے پڑھا ہے کاشمر اور کربلا اس تقریب میں حبیب اللہ نیازی‘ آفتاب خان‘ اسرار اسلم‘ پروین ۔۔سید‘ امیر حسین جعفری‘ کامران نذیر ‘ واجد امیر اور کئی سینئر شاعر موجود تھے۔ اکثر نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار بھی کیا واجد امیر کا ایک شعر: اک دن اٹھا کے تم مری تحریر دیکھنا آزاد ہو گی وادیٔ کشمیر دیکھنا ڈاکٹر صغیر صفی نے تو بہت درد انگیز نظم پڑھی کہ اس کے اپنے بھی کشمیر میں شہید ہوئے جس کا احساس اس کے لفظوں سے اجاگر تھا’’جھیل ڈھل میرے اپنوں کے خون سے لہو رنگ تھی۔ ادھ کٹے جسم دریا بہا لے گئے‘ بین کرتی ہوئی مائوں بہنوں کی آہیں ہوائوں میں شامل رہیں‘ میں بھی ہر جائی تھا‘ خواب غفلت سے جو آج جاگا ہوں میں‘ کر رہے ہیںمرے لفظ سارے ملامت مجھے‘ تیری اجڑی ہوئی وادیوں کی قسم‘ اب سدا تیرے نغمے ہی گائوں گا میں‘ یہ قلم میرا تیری امانت رہا‘ میرے کشمیر! میں ایک مجرم ترا‘ سامنے اب ترے سرنگوں میں کھڑا‘ پاس میرے نہیں ہے صفائی کو کچھ‘ بس ندامت بھرے اشک ہی اشک ہیں اوراب کشمیر پر لکھے گئے اپنے تازہ ترین نوحہ کے باقی اشعار: بند کرتے ہو کبوتر کی طرح آنکھوں کو موت کا رقص ہے آغاز یہاں سے آگے شمع آزادی وہاں بجھنے نہیں پائے گی طفل لڑتے ہیں جہاں پیرو جواں سے آگے ان جوانوں میں جواں ہے علی گیلانی بھی لے گیا عہد کو جو رشتہ جاں سے آگے سعد ٹیپو کی شہادت ہے وراثت میری میری منزل ہے فقط تیر و کماں سے آگے