منگل کے روز پنجاب‘ کے پی کے اور آزاد کشمیر میں آنے والے زلزلہ نے کئی علاقوں میں تباہی مچا دی ہے۔اس موقع پر ہنگامی امداد والے اداروں کی کارکردگی‘ حفاظتی تدابیر اور قوانین پر عملدرآمد کے معاملات ایک بار پھر زیر بحث آ رہے ہیں۔ زلزلے سے زیادہ نقصان آزاد کشمیر کے میر پور‘ جاتلاں‘ بھمبر اور اس کے نواحی علاقوں میں ہوا۔ ڈزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے مطابق جاں بحق افراد کی تعداد 26‘ شدید زخمیوں کی 150جبکہ معمولی زخمیوں کی تعداد ساڑھے چھ سو کے قریب ہے۔ شدید زخمیوں کی حالت دیکھتے ہوئے ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔5.8کی شدت کے زلزلے کا مرکز جہلم سے 5کلومیٹر شمال کی طرف تھا اور اس کی گہرائی 9کلو میٹر بتائی جاتی ہے۔ سب سے زیادہ نقصان میر پور شہر میں ہوا جہاں ایک سڑک زمین میں دھنس گئی۔ آزاد کشمیر میں کئی پل اور مواصلات کا نظام درہم برہم ہو گیا ہے جسے بحال کرنے کے لئے امدادی ٹیمیں اپنا کام شروع کر چکی ہیں۔ آئی ایس پی آر کے سربراہ میجر جنرل آصف غفور کا کہنا ہے کہ متاثرہ علاقوں میں امدادی سرگرمیوں کے لئے فوجی جوان کام شروع چکے ہیں۔ وفاقی حکومت نے حکومت آزاد کشمیر کے ساتھ مل کر زلزلہ زدہ علاقوں میںزخمیوں کے علاج معالجے‘ خوراک کی فراہمی‘ بجلی نظام کی بحالی اور راستوں کو کھولنے کے لئے کام کا آغاز کر دیا ہے۔ اہل کشمیر اکتوبر 2005ء میں ایک بھیانک زلزلے کا سامنا کر چکے ہیں۔ چودہ برس قبل آنے والے زلزلے میں ساڑھے تہتر ہزار افراد جاں بحق ہوئے۔35لاکھ افراد متاثر ہوئے جبکہ ملک کو 6ارب ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا۔ اس وقت جغرافیہ اور ارضیات کے ماہرین نے آگاہ کیا کہ آزاد کشمیر کے بہت سے علاقے زیر زمین چٹانوں کی فالٹ لائن پر واقع ہیں۔ ان ماہرین کی تائید بین الاقوامی سروے رپورٹس میں کی گئی۔2005ء کے زلزلے کی تباہ کاریوں سے نمٹنے کے لئے حکومت آزاد کشمیر اور پاکستان کے پاس متعلقہ مہارت ‘ مشینری اور مالی وسائل دستیاب نہ تھے۔ جاپان‘ ترکی‘ سعودی عرب‘ فن لینڈ‘ آسٹریلیا‘ اردن‘ امریکہ‘ برطانیہ اور ایران و چین نے اس موقع پر بھرپور مدد فراہم کی۔ امریکہ نے افغانستان سے اپنے متعدد ہیلی کاپٹر امدادی اور ریسکیو آپریشنز کے لئے پاکستان بھیجے۔ دنیا بھر سے طبی رضا کاروں کی ٹیمیں آزاد کشمیر پہنچیں۔ مظفر آباد شہر میں 50فیصد عمارتیں منہدم ہو چکی تھیں۔ قریبی دیہات کا برا حال تھا۔ ایسے موقع پر بے رحم اور سفاک لٹیرے بھی متاثرہ علاقوں میں آ گئے لیکن اس تباہی و بربادی کے ساتھ پاکستانی قوم کا عظیم جذبہ ابھر کر سامنے آیا۔ کراچی سے لے کر قبائلی علاقوں اور گلگت بلتستان تک سے لوگ ملبوسات ‘کمبل اور رضائیاں‘ برتن ‘ کھانے کی اشیائ‘ ادویات ‘ ایندھن ‘ پانی اور دیگر ضروری اشیاء کے ٹرک لے کر کشمیر پہنچے اور بحالی کے کاموں میں مدد کی۔2005ء کے زلزلے کے بعد سرکاری اداروں نے عمارتوں کی تعمیر نو‘ ذرائع مواصلات کی بحالی اور بے آسرا ہو جانے والے افراد کی بحالی کے لئے کئی منصوبے تیار کئے۔ ان میں سے ایک عمارتوں کی تعمیر سے متعلق قوانین کا معاملہ ہے۔ اس تباہی کے بعد حکومت اور عوامی سطح پر جس مستعدی اور فراست کی ضرورت تھی وہ بروئے کار نہ آئی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ فالٹ لائن پر موجود علاقے اس بار 5.8شدت کے زلزلے سے بری طرح متاثر ہوئے۔ قدرتی آفات کو روکا نہیں جا سکتا۔ مگر ایک بار کے تجربے کے بعد ان سے ہونے والے نقصان کی شدت کو ضرور کم کیا جا سکتا ہے۔ حقائق یہ ہیں کہ پورے آزاد کشمیر اور پاکستان میں زلزلوں کی رینج والے علاقوں میں عمارتوں کی تعمیر میں حفاظتی قوانین کا احترام نہیں کیا جاتا۔ بلکہ کسی فیکٹری یا پلازے میں آگ بھڑک اٹھے تو ہنگامی راستے تک موجود نہیں ہوتے۔ گلیاں اس قدر گنجان اور تنگ ہوتی ہیں کہ امدادی کارروائیاں کرنے والی ٹیمیں اور گاڑیاں بروقت داخل نہیں ہو پاتیں۔ جب کبھی کوئی بڑا حادثہ ہوتا ہے یا قدرتی آفت قہر ڈھاتی ہے ہم بلڈنگ کوڈ اور بالائی لاز کی بات کرتے ہیں لیکن جونہی متاثرین کے زخم بھرنے لگتے ہیں ہماری سمجھ بوجھ اور قانون پر عمل کا عزم بھی رخصت ہو جاتا ہے۔ حالیہ زلزلے نے جن علاقوں کو بری طرح متاثر کیا ہے وہاں تعمیر نو کے کاموں میں زلزلے سے بچائو کی تدابیر اختیار کی جانی چاہئیں۔ میر پور اور اس کے نواحی علاقوں میں لوگوں نے بڑی بڑی رہائش گاہیں اور پلازے تعمیر کر رکھے ہیں۔ بہت سی عمارتیں رہائش کے قابل نہیں رہیں۔ ایسی مخدوش عمارتوں کا قابل بھروسہ سروے اور ان کے استعمال میں رکھنے یا نہ رکھنے کا فیصلہ کرنے میں وقت ضائع نہیں ہونا چاہیے۔ جو لوگ جاں بحق ہوئے ان کے لواحقین سے ہمدردی کا اظہار ضروری ہے۔ زخمیوں کو علاج معالجے کی سہولیات بلا تاخیر اور تسلی بخش طریقے سے فراہم کی جائیں۔ وزیر اعظم عمران خان نے امریکہ سے زلزلہ متاثرین کے لئے پیغام بھیجا ہے۔ ان کی جماعت کو امدادی کاموں میں شریک ہو کر بتانا چاہیے کہ تحریک انصاف نے سنجیدہ سیاسی کارکن پیدا کئے ہیں جو صرف زبانی تبدیلی کی بات نہیں کرتے بلکہ عملی طور پر بھی مشکل وقت میں کردار ادا کرنا چاہتے ہیں۔ اہل کشمیر دکھ اور تکلیف کی اس گھڑی میں خود کو تنہا نہ سمجھیں۔ قدرتی آفات اللہ تعالی کی طرف سے آزمائش ہوتی ہیں۔ جو لوگ ان مواقع پر ثابت قدم رہتے ہیں ان کے لئے آسانیوں کے دروازے کھل جاتے ہیں۔