قابض بھارتی فوج راشٹریہ رائفلزکی 62آر آر بٹالین نے 18جولائی 2020کوامشی پورہ شوپیاں فرضی تصادم رچاکرراجوری کے تین نوجوانوںکو شہید کیا اور75 روز بعد 3 ستمبر 2020 ء کی صبح ایک مجسٹریٹ کی موجودگی میں قبرکشائی کے بعد ان کے اجساد کوراجوری سے آئے ہوئے ان کے لواحقین کے حوالے کیا گیاجنہوں نے اپنے لخت ہائے جگرکی لاشوں کو ایمبولینس کے ذریعے اپنے آبائی علاقے راجوری پہنچایا۔ راجوری میں جہاں جہاں سے ایمبولنس گذری وہاں سبھی دیہات میں لوگ سڑکوں پر انتظار کر رہے تھے۔ یہ تینوں نوجوان صرف ایک روزقبل یعنی 17جولائی 2020کو مزدوری کے لئے راجوری سے شوپیاں پہنچے تھے جہاں انہوں نے ایک کمرہ کرایہ پر لیا تھااور اسی شام اپنے گھر والوں کو فون پر مطلع کیا تھا کہ انہیں ایک مقامی باغ میں کام مل گیا ہے جسے وہ اگلے روز شروع کر رہے ہیں۔اس کے بعد ان کا اپنے گھر والوں سے رابطہ منقطع ہو گیا تھا۔ ان کے اہل خانہ نے پولیس اور صحافیوں کو بتایا تھا کہ وہ یہ سمجھے تھے کہ کشمیر میں چونکہ فون اور دوسری مواصلاتی سروسز اکثر بند ہو جاتی ہیں، اس لئے ان کے عزیز ان سے رابطہ نہیں کر پا رہے ہیں۔سوشل میڈیا پر جب ان کی فرضی جھڑپ میں شہیدکئے جانے کی خبرعام ہوئی توان کے لواحقین پرقیامت ٹوٹ پڑی۔عوام سڑکوں پرنکل نہ آئے، اس خوف کے مارے بھارتی فوج نے 11اگست کو آپریشن امشی پورہ سے متعلق ایک اعلی سطحی کورٹ آف انکوائری بٹھانے کااعلان کردیا ۔ 18اگست کو بھارتی فوج نے جھڑپ کی تحقیقات کیلئے سول گواہوں سے کمیشن آف انکوائری کے سامنے اس جھڑپ کے بارے میں معتبر اطلاعات کا اشتراک کرنے کیلئے مقامی اخبارات میں اشتہارات شائع کئے۔اس دوران تینوں شہداء کے ڈی این اے نمونے حاصل کرنے کے 40روز بعد25ستمبر2020 کو پولیس نے بتایاکہ راجوری کے تین کنبوں کے ڈی این اے نمونوں کی جانچ رپورٹ حاصل ہو گئی ہے جو ان تین نوجوانوں کے اہل خانہ سے ملتی ہے، جو امشی پورہ شوپیان میں مارے گئے تھے۔ 18ستمبر2020 کو سفاک بھارتی فوج کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا امشی پورہ شوپیان جھڑپ کی تحقیقات مکمل کرلی گئی ہے جس سے پتاچلاکہ فوجی اہلکاروں نے افسپا(AFSPA) کے تحت حاصل خصوصی اختیارات سے تجاوز کیا ہے،لہذا با اختیارانضباطی اتھارٹی کے آرڈرپر فوجی قانون کے تحت اس کارروائی میں ملوث پائے گئے فوجی اہلکاروں کیخلاف کارروائی کی جائیگی۔ قابض اورسفاک بھارتی فوج کے ترجمان نے سری نگرمیں بتایا کہ فوج انکوائری کو اپنے منطقی انجام تک پہنچانے کیلئے پرعزم ہے لیکن ہر زاویے پر تحقیقات کی ضرورت ہے۔قواعد کے مطابق غلط اقدام کرنے والے فوجی اہلکاروں کے خلاف شواہد کے خلاصے کے دوران قانون کی مختلف دفعات کے تحت کیس کی تفصیلات کی جانچ کی جائے گی جس کے بعد کورٹ مارشل کارروائی کا آغاز کیا جائے گا۔ ضلع بارہمولہ کے گانٹہ مولہ علاقے میں 3اکتوبر2020ہفتے کی صبح قبر کشائی کا عمل چھ بجے صبح سرینگر مظفرآبادشاہراہ پر واقع گانٹہ مولہ بارہمولہ نامی گائوں میں شروع ہوا ۔ عینی شاہد ین نے بتایا کہ لاشیں اچھی حالت میں پائی گئیں اور لاشوں میں کوئی بدبونہیں تھی ۔ گائوں کے لوگوں کاکہناتھا کہ انہوں نے اس قبرستان میں 2014 سے لے کر اب تک یہاں200 سے زیادہ شہداء کی گولیوں سے چھلنی لاشوں کو دفن کیا ہے جن میں راجوری کے یہ تین مزدور بھی شامل ہیں ۔ اور یہ پہلی بار ہوا ہے کہ جب شہداء کی لاشوں کو قبروںسے واپس نکالا گیا ہے۔ جیساکہ عرض کیاجاچکاہے کہ اس قبرستان میں عدم شناخت شہداء کودفنایاجاتارہاہے لیکن اپریل 2020سے مقامی شہداء کی لاشوں کو بھی کوویڈ 19کابہانہ بناکریہاں سپرد خاک کرنیکا آغاز کیاگیااورتب سے جتنے بھی کشمیری نوجوان قابض بھارتی فوج کے خلاف معرکے لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کرگئے توانہیںیہیں دفنایاجاتارہا ہے۔ سماجی کارکن گفتار احمد چوہدری، جو فرضی جھڑپ میں شہیدکئے گئے ،نوجوانوں کے لئے انصاف کی لڑائی لڑ رہے تھے نے 3 ستمبر 2020ء ہفتے کی شام کو اپنے ایک ٹویٹ میں کہا: 'اللہ گواہ ہے، میں بھی گواہ ہوںکہ 75 دن کے بعد جب ابرار، امتیاز اور برار کی لاشیں شیری بارہمولہ قبرستان سے نکالی گئیں تو میں وہیں موجود تھامیری آنکھوں نے دیکھاکہ سبھی لاشیں صحیح سلامت تھیں، جیسے دو روز پہلے دفنائی گئی ہوں۔ قبر نمبر 65، 66 اور 67میںراجوری کے معصوم لڑکے دفنائے گئے تھے۔ خیال رہے کہ یہاں عدم شناخت شہداء کی قبروں پرنمبر دیئے گئے ہیں۔ان کاکہناتھاکہ انہیں انصاف طلب کرنے کی کوششیں جاری رکھیں گے ،شہداء کے لواحقین نے قتل کا مقدمہ درج کرنے اوراپنے بچوںکے قتل کے اس جرم میں ملوث سفاک بھارتی فوج کے خلاف سخت کارروائی کرنے کے مطالبے سے دستبردارنہیں ہونگے۔ا نکاکہناتھا آخرکاراگرچہ ہمیں اپنے معصوم بچوںکی لاشیں مل گئیںلیکن اب ہماری اگلی جدوجہد اس جعلی مقابلے کے مجرم فوجی اہلکاروں کوقتل کی سزادلوانے کے لئے ہوگی اور اس جعلی مقابلے سے پردے اٹھانے کے لئے ہم کوئی کسر نہیںاٹھارکھیں گے جس میں ہمارے معصوم بچے شہیدکردیئے گئے۔