وزیر اعظم عمران خان نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیوگیترس کو ٹیلی فون کر کے بھارتی افواج کے ہاتھوں کشمیریوں کا قتل عام رکوانے کا کہا ہے۔ وزیر اعظم نے سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ سے مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے کردار ادا کرنے اور مقبوضہ کشمیر میں جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے مقبوضہ کشمیر میں نافذ صدر راج کو کشمیری عوام پر جبر کی علامت قرار دیتے ہوئے عالمی ادارے سے مطالبہ کیا کہ وہ حقائق جاننے کے لیے خصوصی مشن مقبوضہ کشمیر بھیجے۔ دنیا تبدیلیوں سے گزر رہی ہے۔ جنوبی ایشیا کا خطہ ان عالمی تبدیلیوں سے الگ تھلگ نہیں رہ سکتا جو جنگ اور تشدد کی جگہ تجارت اور تنازعات کو پرامن انداز میں حل کرنے کی شکل میں دکھائی دے رہی ہیں۔ امریکہ کئی عشروں سے جنوب مشرقی ایشیا کے ہمسایہ میں بیٹھا ہے۔ لاکھوں امریکی و بین الاقوامی افواج کے سپاہی، سینکڑوں لڑاکا طیارے کھربوں ڈالر کے اخراجات اور بھاری اسلحہ کے باوجود آج دنیا دیکھ رہی ہے کہ امریکہ افغانستان سے انخلاء کے لئے ہاتھ پائوں مار رہا ہے۔ افغانستان سے باہر نکل کر مشرق وسطیٰ کو دیکھ لیں، امریکہ شام میں صدر اسد کا تختہ الٹنے کے لیے زور لگاتا رہا۔ بغاوت اور عسکریت پسندی کو منظم کرتا رہا۔ اس جنگ میں لاکھوں لوگ مارے گئے۔ امریکہ جب مطلوبہ نتائج حاصل نہ کر سکا تو آخر کار صدر ٹرمپ کو شام سے انخلاء کا اعلان کرنا پڑا۔ بھارت امریکہ جتنا مستحکم ملک نہیں۔ مالیاتی اور دفاعی صلاحیت کے اعتبار سے بھی اس کو مضبوط ملک قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اس حقیقت کا ادراک کرتے ہوئے بھارت کو اپنے تنازعات کا حل تلاش کرنے میں دلچسپی لینے کی ضرورت ہے مگر اس کا رویہ اس بات کا غماز ہے کہ بھارت ارضی حقائق کا ادراک نہیں رکھتا۔ بھارت کا یہ طرز عمل گویا عالمی برادری کی خواہشات کے برعکس اور دنیا کو تنازعات سے پاک کرنے کی کوششوں سے متصادم ہے۔ کشمیر پر 71برس سے بھارت نے ناجائز قبضہ کر رکھا ہے۔ کسی علاقے کے عوام کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی مرضی سے اقتدار اعلیٰ کا تعین کریں، کشمیری عوام نے ان اکہتر برسوں کے دوران کبھی بھارتی تسلط کو تسلیم نہیں کیا۔ بھارت نے ایک غیر قانونی آئینی ترمیم کے ذریعے کشمیر کو اپنا حصہ قرار دیا، مقبوضہ کشمیر پر اپنا قبضہ قانونی اور جائز ثابت کرنے کے لیے وہاں نام نہاد جمہوری عمل متعارف کرایا۔ کشمیری عوام نے کبھی بھارتی سرپرستی میں ہونے والے انتخابات میں شرکت نہیں کی۔ یہی وجہ ہے کہ کٹھ پتلی حکومت حریت پسند گروپوں اور جماعتوں کے سامنے ہمیشہ بے بس اور کمزور رہی ہے۔ نوبت اس مقام پر آ پہنچی ہے جب بھارت کو سات لاکھ فوج مقبوضہ کشمیر میں تعینات کر کے وہاں صدر راج لگانا پڑا۔ کشمیری عوام کی آواز دبانے کے لیے کیمیائی ہتھیار استعمال کیے جا رہے ہیں جو بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ کشمیری نوجوانوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ گھروں کو مسمار اور نذرآتش کیا جا رہا ہے۔ کاروبار اور باغات کو تباہ کیا جا رہا ہے۔ خواتین کی بے حرمتی کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ پیلٹ گن کے چھروں سے شیر خوار بچوں سے لے کر بزرگ افراد تک کوئی محفوظ نہیں۔ گزشتہ ایک ہفتے کے دوران 17کشمیریوں کو صرف اس وجہ سے سرعام گولیاں مار کر قتل کر دیا گیا کہ وہ بھارت سے آزادی کا مطالبہ کر رہے تھے۔ یہ صورت حال ایک دو مہینوں یا چند برسوں کی عکاس نہیں بلکہ پون صدی سے کشمیریوں کے ساتھ ایسا ہی ظالمانہ سلوک کیا جا رہا ہے۔ اس صورت حال سے پاکستان لا تعلق نہیں رہ سکتا۔ کشمیر کی آزادی برصغیر کی تقسیم کا ادھورا ایجنڈا ہے۔ چند ماہ قبل اقوام متحدہ کے مبصرین نے مقبوضہ کشمیر میں بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے متعلق ایک تفصیلی رپورٹ جاری کی تھی۔ اس رپورٹ میں ماہرین نے بھارت کی سفاکیت کے بہت سے گوشے عیاں کئے تھے۔ اس رپورٹ کی تائید کئی دیگر عالمی اداروں اور غیر جانبدار تنظیموں نے بھی کی تھی۔ بھارت نے اس رپورٹ کو اگرچہ مسترد کرنے کا رسمی اعلان کیا تھا مگر خود بھارت کے اندر یہ احساس پھیل رہا ہے کہ کشمیری عوام کو جبر کے ذریعے بھارت کا حصہ نہیں رکھا جا سکتا۔ بھارت کے سابق فوجی سربراہان، سپریم کورٹ کے جج، انسانی حقوق کی تنظیمیں اور مقبوضہ کشمیر میں اس کی کٹھ پتلیاں بھی اب کہنے لگے ہیں کہ کشمیریوں کی نسل کشی کا سلسلہ بند ہونا چاہئے اور بھارت کو تنازع کشمیر حل کرنے کے لیے پاکستان سے مذاکرات کرنا چاہئیں۔ دوسری طرف پاکستان میں ایک نئی حکومت آئی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان خطے میں ان تمام تنازعات کو حل کرنے کے آرزو مند ہیں جن میں پاکستان فریق ہے۔ تنازع کشمیر ایک حساس معاملہ ہے۔ اس کی حساسیت کی وجہ سے سیاسی حکومتیں اس کے بارے میں انتہائی محتاط طرز عمل اختیار کرتی رہی ہیں۔ اس بار معاملہ صرف سیاسی قیادت کا نہیں بلکہ پاکستان کے تمام ریاستی ادارے مل کر ملک کو مسائل سے نکالنے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ کرتار پور راہداری کا سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے بھارتی قیادت کو واضح پیغام دیا تھا کہ پاکستان میں ایک نئی سوچ ابھر رہی ہے جو جنگی جنون کو مسترد کرتی ہے۔ بھارت بھی اپنی سوچ کو تبدیل کرے اور اس موقع سے فائدہ اٹھا کر امن کے لیے پیشقدمی کرے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ بھارت نے پاکستان کے اقدامات کے بعد بھی اپنا طرز عمل ترک نہیں کیا۔ کشمیر میں اس کے بڑھتے ہوئے مظالم اور کشمیری نوجوانوں کی شہادتوں پر پاکستان چپ نہیں رہ سکتا۔ وزیر اعظم نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے سامنے حقائق رکھتے ہوئے جس تشویش کا اظہار کیا ہے وہ ہر پاکستانی کے دل کی آواز ہے۔ یقینا ایسی کوششوں کے نتیجے میں بھارت کو تنازع کشمیر حل کرنے کے لیے عالمی دبائو کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔