پاکستان میں جہاں حکومت، سیاسی جماعتیںاور عوام انتخابی گہماگہمیوں میں مصروف ہیں، وہیں جموں و کشمیر کے سیاسی افق پر بڑی دوررس تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں۔ جن سے خطہ میں حالات مزید ابتر اور سنگین ہونے کا خدشہ ہے۔ 19جون کو ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے یکایک وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کی قیادت والی پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) سے حمایت واپس لیکر مخلوط حکومت کے خاتمہ کا اعلان کردیا۔ اسی کے ساتھ ریاستی گورنر این این ووہرا نے حکومت کی زمام ِ کار سنبھالی۔ یہ چوتھی مرتبہ ہے جب گورنر این این ووہرا حکومت سنبھال رہے ہیں۔آج تک کل ملا کر آٹھ مرتبہ کشمیر میں گورنر راج نافذکیاگیا ہے۔ستم ظریفی تو یہ تھی کہ بی جے پی نے معروف صحافی شجاعت بخاری کے قتل کو بہانہ بناکر الزام لگایا کہ محبوبہ مفتی کی حکومت امن و قانون کے نفاذ میں ناکام ہوگئی ہے۔ اسی دوران بھارتی میڈیا میں یہ خبریں گشت کرنے لگیں کہ اگلی حکومت سازی کیلئے بی جے پی ایک اور حلیف پیپلز کانفرنس کے سربراہ سجاد غنی لون کے سر پر تاج رکھنے کیلئے کوشاں ہے۔پھر بی جے پی کے ذرائع کے حوالے سے یہ خبریںآنے لگیں کہ اتحادیوں، آزاد امیدواروں اور دیگر پارٹیوں خصوصاً پی ڈی پی کے منحرف اور ناراض اراکین کی مدد سے وہ خود ہی اقتدار پر براجماں ہوناچاہتی ہے۔ تقریباً دو دہائی سے زائد دہلی میں سیاست کے واقعات کو کور کرتے ہوئے پہلی فرصت میں مجھے یہی گماں ہوا کہ مصدقہ خبر کے بجائے عوامی اور سیاسی پارٹیوں کا ردعمل جاننے کیلئے یہ ایک پلانٹ ہے اور اگر کوئی شدید رد عمل آتا ہے تو جلد ہی اسکی تردید سامنے آئیگی۔ مگر چند روز بعد جب پھر اسطرح کی خبر گشت کرنے لگی، تو اس کا ذریعہ اور حقیقت معلوم کرنے کے بعد پتہ چلا کہ واقعی ایسی صورتحال ہے اور اسکے تار براہ راست وزیر اعظم نریندر مودی، بی جے پی کے قومی صدر امیت شاہ اور قومی سلامتی مشیر اجیت دوول کے دفتر سے منسلک ہیں۔ منصوبہ یہ ہے کہ مرکزی وزیر اور ادھم پور کے رکن پارلیمنٹ جیتندر سنگھ رانا کو اگلے ماہ سرینگر میں بطور وزیر اعلیٰ حلف دلایا جائیگا۔ چونکہ کشمیر کا قانون بھارت کے مرکزی قانون کی نسبت پیچیدہ اور سخت ہے، اسلئے دیگر پارٹیوں اور خصوصاً پی ڈی پی کے ناراض اراکین کی حمایت اسطرح حاصل کروانا کہ وہ نااہل بھی نہ ہوں، کیلئے قانونی ماہرین سے مشاورت ہورہی ہے اور دیگر موشگافیوں کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔ پی ڈی پی کے اکثر ناراض اراکین اور سجاد غنی لون کا تعلق چونکہ شمالی کشمیر سے ہے ، اسلئے بی جے پی کو حمایت دینے والے اس گروہ کوسوشل میڈیا میں’’ شمالی اتحاد‘‘ کے نام سے موسوم کیا جا رہا ہے۔ کشمیر کی سب سے بڑی بدقسمتی یہ رہی ہے کہ تاریخ کا پہیہ آگے بڑھنے کے بجائے الٹا چکر لگا کر گھوم پھر کر وہیں پہنچتا ہے، جہاں سے گردش شروع کی تھی۔ 2010ء کے عوامی غیظ و غضب کو دیکھ کر تجزیہ کار وں کا خیال تھا کہ کشمیر کو واپس 1990ء کی پوزیشن میں دھکیلا گیا ہے۔ 2016ء میں برھان وانی کی شہادت کے بعد عوامی مزاحمت کی شدت کو دیکھ کر بتایا جاتا تھا کہ گھڑی کی سوئیاں واپس 1947ء تک پہنچ گئی ہیں۔ اگر اب بی جے پی واقعی ایک ہندو ڈوگرہ کے سر پر وزارت اعلیٰ کا تاج سجاتی ہے تو اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ تاریخ کا پہیہ 1931ء تک واپس پہنچ جائیگا ، جب کشمیریوں نے ڈوگرہ مہاراجہ ہری سنگھ کے خلاف علم بغاوت بلند کیا تھا۔ اور یہ ایک طرح سے کشمیر میں ڈوگرہ راج کی واپسی ہوگی۔ تاویل دی جارہی ہے کہ جب مہارشٹراہمیں عبدالرحمان انتولے ، آسام میں انورہ تیمور اور کیرالا میں سی ایچ محمد کویا وزارت اعلیٰ کی کرسی پر فائز ہوسکتے ہیں، تو کشمیر میں ایک ہندو کیوں نہیں ہوسکتا ہے۔ فی الحال گورنر ووہرا، فوج اور خفیہ ایجنسیاں اس نقشہ میں رنگ بھرنے سے کترا رہی ہیں۔ ذرائع کے مطابق ان اداروں کا خیال ہے کہ ایک ہندو وزیراعلیٰ کشمیری عوام کی نفسیات کو بری طرح مجروح کرے گا اور بھارتی حکومت کی کئی دہائیوں پر محیط محنت و مشقت پر پانی پھر جائیگا ۔ مزید یہ کہ دنیا بھر میں جمہوریت اور عوامی مینڈیٹ کا جو بھرم قائم ہے وہ ٹوٹ جائیگا۔مگر بتایا جاتا ہے کہ جو ں جوں اگلے عام انتخابات قریب آتے جارہے ہیں ، بی جے پی کیلئے اپنے کور ووٹر کو جواب دینا مشکل ہو رہا ہے، جو آس لگائے ہوتے تھے کہ 2014ء میں بھاری اکثریت حاصل کرکے مودی مسمار شدہ بابری مسجد کی جگہ عظیم الشان رام مند ر کی تعمیر اور کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کو ختم کروائیں گے۔ یہ دونوں ایشوز عدالتی طوالت کا شکار ہوگئے ہیں۔ پارلیمنٹ میں بھی ان پر قانون سازی کرنا مشکل نظر آتا ہے۔ اسلئے اپنے کور ووٹروں کو بہلانے کیلئے کشمیری مسلمانوں کے سینے پر مونگ دلنے کیلئے ایک ہندو ڈوگرہ وزیر اعلیٰ کو مقر ر کرنا، ایک آسان سا کھلونا ہے۔ اسکے ذریعے پورے بھارت میں ہندو ووٹروں کو ایک بار پھر پارٹی کے حق میں لام بند کیا جاسکتا ہے۔ سرینگر میں بی بی سی کے نامہ نگار ریاض مسرور کے مطابق بھارت کی ڈیپ سٹیٹ میںیہ گھر کر گیا ہے کہ ’’مین سٹریم‘‘ یعنی بھارت نواز کشمیری سیاسی سٹرکچر بھی نئی دہلی کا حقیقی وفادار نہیں ہے۔ بلکہ ان لوگوں کی ہمدردیاںبھی آزادی پسندو ں کے ساتھ ہیں اور کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ بننے میں یہ بھی ایک رکاوٹ ہیں۔ بھارت کا موجودہ حکومتی ڈھانچہ فاروق عبداللہ، عمر عبداللہ ، محبوبہ مفتی اور اس قبیل کے دیگر لیڈروں کو بھی اسی لاٹھی سے ہانکتا ہے، جس طرح و ہ حریت لیڈروں کو نشانہ بناتے ہیں۔ مسرور نے اترپردیش کے آر ایس ایس کے ایک لیڈر کا ایک بیان منقول کیا ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ بھارتی آئین کی دفعہ 370 جس میں کشمیر کو خصوصی درجہ کا ذکر ہے ،کو ہٹانے کی خواہش رکھنے والوں کو جان لینا چاہیے کہ نریندر مودی اور اجیت دوول اس سے بھی آگے کی سوچ رہے ہیں۔ حکومتی ذرائع کا حوالہ دے کر اس ہندو قوم پرست لیڈر نے دعویٰ کیا ہے کہ بھارتی حکومت جموں ، کشمیر اور لداخ کو تقسیم کرکے مرکز کے زیرانتظام خطے یعنی یونین ٹیری ٹریٹیز بنانے کے منصوبے پر عمل پیرا ہے۔ تینوں خطوں میں کوئی منتخب حکومت نہیں ہوگی بلکہ تینوں انڈمان نکوبار، لکشدیپ اور پانڈی چری وغیرہ کی طرح براہ راست نئی دہلی کی حکمرانی میں ہونگے، اور تینوں خطوں میں ایک لیفٹیننٹ گورنر ہوگا جو براہ راست دہلی کے سامنے ہی جوابدہ بھی ہوگا۔ ریاست کی اسمبلی اور نام نہاد مین سٹریم سیاست اس قدر بے وقعت ہوگئی ہے کہ دلی کا حکمراں طبقہ اسے اب بوجھ سمجھتا ہے۔ دسمبر 2014ء کے انتخابات کے بعد جب کشمیر میں معلق اسمبلی وجود میں آئی اور پی ڈی پی کے لئے کانگریس یا بی جے پی میں سے کسی ایک کی بیساکھی کے سہارے اقتدار میں آنا ا لازمی ہوگیا تو فروری 2015ء میں پی ڈی پی کے سرپرست مفتی محمد سعید سے جموں میں ان کی رہائش گاہ پر ایک انٹرویو کے دوران میں نے پوچھا تھا: کہیں بی جے پی کو اقتدار میں شریک کروا کے وہ کشمیریوں کے مصائب کی رات مزید تاریک کروانے کے مرتکب تو نہیں ہوںگے؟ انہوں نے کہا، کشمیر کی خصوصی پوزیشن اور شناخت کے حوالے سے بھارت کی دونوں قومی جماعتوں کا موقف تقریباً ایک جیسا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارت نوازکشمیری پارٹیوں، نیشنل کانفرنس ہو یا پی ڈی پی کا فرض ہے کہ وہ مسئلہ کشمیرکے دائمی حل کی کوئی سبیل پیدا ہونے تک بھارتی آئین میں حاصل خصوصی حیثیت کو بچا کر رکھیں۔(جاری ہے) مگر پچھلے تین برسوں میں ایسا لگا کہ مفتی محمد سعید کی صاحبزادی محبوبہ مفتی نے بی جے پی کے ساتھ مل کر اس کو تار تار کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ بیک ڈور سے غیر ریاستی ہندو مہاجرین کو رہائشی پرمٹ دینا، علیحدہ پنڈت کالونیاں بسانا ، آخری ڈوگرہ مہاراجہ ہری سنگھ کے یوم ولادت پر تعطیل کے لئے اسمبلی سے قرارداد پاس کروانے کی کوششیں کشمیریوں کو ان کی سیاسی بے وزنی کا احساس دلانے کی آخری حد تھی۔ مگر پھر بھی ڈو مور کے مطالبوں کو تسلیم کرتے کرتے بھی وہ اپنی کرسی بچا نہیں پائی۔ اس طرح اس مہاراجہ کے مظالم کے خلاف شہدا کے مزاروں پر ہر سال 13جولائی کو میلہ لگانا اور ان کے قاتل ہری سنگھ کے جنم دن کو متبرک قرار دینا ایک سنگین مذاق تھا۔کیا بھارت کبھی جلیانوالہ والا باغ کے قاتل جنرل ڈائر کے جنم دن کو یاد منانے کے لئے چھٹی کا اعلان کرسکتا ہے؟ کشمیر صدیوں سے سازشوںاور باہری طاقتوں کی کشمکش کی آماجگاہ رہا ہے۔ اس خطے کی بدقسمتی یہ رہی کہ آمد اسلام کے 250 سال بعد ہی یہ خطہ آزادی سے محروم ہوکر مغلوں، افغانوں، سکھوں اور ڈوگروں کے تابع رہا، جنہوں نے مقامی مسلم شناخت کو زیر کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی۔پچھلے 500برسوں کے دوران شاید ہی کبھی یہاں عوام نے حکمرانوں کو اپنا حقیقی نمائندہ تسلیم کیا ہو، کیونکہ چند ایک کو چھوڑ کر اکثر یا تو بیرونی طاقتوں کے گورنر تھے یا ان کی طرف سے مسلط کردہ کٹھ پتلی حکمران۔ اپنی تخت نشینی کے فوراً بعد مغل بادشاہ جلال الدین محمد اکبر نے کشمیر پر اپنی نظریں جمائی ہوئی تھیں، اور اس خطہ کو حاصل کرنے کیلئے کئی بار فوج کشی کی۔ تقریباً ایک دہائی کی بے نتیجہ جنگ و جدل کے بعد مغل جنرل راجہ بھگوان سنگھ نے 1580ء میںگلگت کے درد قبیلہ سے تعلق رکھنے والے کشمیر کے سلطان یوسف شاہ چک کے ساتھ ایک معاہدہ کیلئے سلسلہ جنبانی شروع کیاپانچ سال کی عرق ریزی کے بعد دونوں فریق ایک معاہدے پر رضامند ہوگئے، جس کی رو سے کشمیر میں لین دین مغل سکہ کیے جانے پر اتفاق ہوا اور جمعہ کے خطبہ میں مغل فرمانروا کا نام پڑھا جانے لگا۔ باقی تمام امور میں مقامی حکمرانوں کو خود مختاری عطا کی گئی۔ ایک سال بعد اس معاہدے پر دستخط کرنے کیلئے یوسف شاہ چک کو مغل دارالحکومت آگرہ سے متصل فتح پور سیکری آنے کی دعوت دی گئی، مگر لاہور میں ہی اس کو گرفتار کرکے پابہ زنجیر اکبر کے دربار میں حاضر کیا گیا۔ یوسف شاہ جو اپنی شاعرہ ملکہ حبہ خاتون کیلئے بھی مشہور ہے، نے باقی زندگی بہار کے شہر پٹنہ سے متصل ایک قصبہ میں جلاوطنی میں گزاری، جہا ں آج بھی اس کی شکستہ قبر کشمیر پر قبضے اور طاقت کے بل بوتے پر سمجھوتوں سے انحراف کی داستان بیان کرتی ہے۔ یہ بات اب سرینگر میں زبان زد عام تھی کہ یہ وہ پی ڈی پی نہیں تھی جس نے 2003ء اور 2005ء کے درمیان دہلی کے روایتی کٹھ پتلی حکومت کے بجائے ایک پر اعتماد اور کشمیری عوام کے مفادات اور ترجیحات کے ترجمان کے طور پر نئی تاریخ رقم کی تھی۔ اسلئے محبوبہ مفتی کی برطرفی پر کشمیر میں شایدہی کسی نے آنسو بہائے ہوں۔ فوج کے ذریعے شروع کئے گئے آ پریشن آل آوٹ کی وجہ سے عوام خود کو اپنے ہی گھروں میں قید پاتے ہیں۔تازہ مثال یہ ہے کہ پلوامہ میں جب فوج، نیم فوجی اہلکاروں اور پولیس کے دستوں نے کریک ڈاون کیا تو مقامی نوجوانوں نے زیادتیوں یا گرفتاریوں کے خوف سے پوری رات درختوں پر گزاری۔ والدین یا تو اپنے پیاروں کی ہلاکتوں پر ماتم کناں ہیں یا پھر روپوش ہوئے نونہالوں کی لاشوں کے منتظر۔حالات کا اثر یوں تو ہر چہارسو ہے، لیکن ایسا لگتا ہے کہ جنوبی کشمیر کے چار اضلاع کو ایک ’منی وارزون‘ بنایا گیا ہے جہاں ملٹری آپریشن کی کارکردگی سے ہی بھارت کی قومی سیاست کو خوراک مل رہی ہے۔ آزادی تو دورکی بات اب تو ڈوگر راج کی واپسی ہو رہی ہے، جس کے نتیجے میں کشمیر میں تو اب شناخت اور انفرادیت برقرار رکھنا بھی چیلنج ثابت ہو رہا ہے۔ اب یہ فیصلہ مخلص سیاسی لیڈروں کو کرنا ہے کہ وہ کس طرح اس بد نصیب قوم کو غیر یقینی حالات اور مایوسی کے اندھیروں سے نجات دلا سکتے ہیں۔ ایسے حالات میں مسئلہ کشمیر کے حل میں کسی پیش رفت کی امید رکھنا بے معنی ہے، مگر کشمیر کی شناخت اور تشخص کے بچائو کے لئے قابل عمل اور فوری اقدامات کرنے میں کوئی تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔ بد قسمتی سے ایسا نظر آرہا ہے کہ کشمیر کے دونوں اطراف سیاسی جماعتیں نہ صرف اپنی اصل قومی وعوامی ذمہ داریوں سے بھاگ رہی ہیں، بلکہ یہ لوگ نریندر مودی کا نام سن کر ہی گویا مرعوب ہو جاتے ہیں اور ان کی بچی کھچی قوت ِمزاحمت جواب دے بیٹھتی ہے۔ بات واضح ہے کہ قوم کے وسیع تر مفاد میں سوچنے کی بجائے اقتدار کی شدید ہوس نے کشمیرکی سب سے بڑی قوم پرست پارٹی نیشنل کانفرنس (این سی) کو نہ صرف بزدل بنا دیا ہے، بلکہ اس کی نفسیاتی صورت حال کی بھاری قیمت سادہ لوح کشمیریوں کو چکانی پڑ رہی ہے۔ یہی حال اب پی ڈی پی کا بھی ہے۔ بد قسمتی سے دونوں کا محور یہ بنا ہوا ہے کہ اقتدار کی نیلم پری سے بوس وکنارکس طرح رکھا جائے۔ اٹانومی اور سیلف رول کے ایجنڈوں کے خواب دیکھنا تو کجا فی الحال جس تیز رفتار ی سے مودی سرکار کشمیریوں کے تشخص اور انفرادیت کو پامال کرنے کے حوالے سے جنگ آزمائی کے راستے پر چل نکلی ہے، اس کا توڑ کرنے کیلئے حد متارکہ کے دونوں اطراف باضمیر افراد نیز حریت پسند جماعتوں کو باہمی تعاون کرنے کی کوئی سبیل نکالنی چاہیے۔