پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر اپنی جامع تقریر کے بعد وزیراعظم نے سات رکنی کمیٹی تشکیل دے دی ہے۔ کمیٹی میں وزیرخارجہ، سیکرٹری خارجہ، اٹارنی جنرل ، بین الاقوامی قوانین میں مہارت رکھنے والے وکیل وزیراعظم کے خصوصی نمائندے احمر بلال صوفی، ڈی جی ملٹری آپریشنز اور ڈی جی آئی ایس پی آر شامل ہوں گے۔ یہ کمیٹی بھارت کی پارلیمانی جارحیت کے بعد کشمیر کی صورتحال پر قانونی، سیاسی، سفارتی اور دفاعی ردعمل سے متعلق تجاویز ترتیب دے گی۔ کمیٹی بھارت کے اشتعال انگیز اقدام کے ممکنہ جواب کے لئے تمام آپشنز پر غور کرے گی۔ بھارت کے یکطرفہ طور پر کشمیر کی آئینی حیثیت بدلنے پر اہل کشمیر اور پاکستان میں تشویش کا شکار نہیں ہوئے بلکہ چین نے بھی اس معاملے کو سرحدی امن کے لئے خطرہ قرار دیا ہے۔ اقوام متحدہ، او آئی سی، ترکی اور ملائشیا نے ہی بھارتی اقدام کی مذمت کی ہے۔ ان تمام عالمی تنظیموں اور ممالک کا کہنا ہے کہ بھارت نے خطے کے امن کے لئے خطرات پیدا کر دیئے ہیں۔ عالمی برادری کے یہ خدشات بے بنیاد نہیں۔ خطے میں پہلے سے ایک تنازع عالمی امن کے لئے دردسر بنا ہوا ہے۔ امریکہ اٹھارہ سال تک افغانستان جیسے مالی طور پر کمزور ملک کے ہاتھوں شکست کھا کر وہاں سے باعزت واپسی کا راستہ تلاش کر رہا ہے۔ افغان تنازع نے جنوبی ایشیا کو خصوصاً اور دنیا بھر کو عمومی طور پر دہشت گردی سے دوچار کیا۔ امریکہ اور افغانستان کی مالی اور دفاعی طاقت کا کوئی موازنہ نہیں بنتا۔ کھربوں ڈالر خرچ کرنے کے بعد عالمی سپر پاور نے تسلیم کیا کہ اس کا افغانستان پر قبضہ اور یلغار غلط فیصلہ تھا جسے سدھارنے کے لئے پاکستان کی مدد حاصل کی جا رہی ہے۔ امریکہ کے پاس بھارت جیسا نیا دوست ہے۔ دنیا کی جدید ترین جنگی مشینری اور تربیت یافتہ افواج ہیں۔ امریکی یونیورسٹیاں مذاکرات میں مہارت رکھنے والے ماہرین پیدا کر رہی ہیں۔ ان سب افرادی و ٹیکنالوجیکل وسائل کے باوجود امریکہ چاہتا ہے کہ پاکستان اس کی مدد کرے۔ بھارت کو یہ سمجھانے کی ضرورت ہے کہ امریکہ اور دوسری عالمی طاقتیں اگر پاکستان کی صلاحیتوں کی معترف ہیں اور بھارت سے اچھے تعلقات کے باوجود اس پر بھروسہ نہیں کر سکیں تو اسے کسی مہم جوئی سے قبل پاکستان کی طاقت کو افرادی قوت اور ہتھیاروں سے پیمائش نہیں کرنی چاہئے۔ بی جے پی حکومت نے کشمیرکی آئینی حیثیت بدل کر بھارت کے لئے جن نقصانات کا انتظام کیا ان میں پہلا اس کے جمہوری نظام کی ساکھ برباد کرنا ہے، دوسرا نقصان بھارتی سماج میں سیکولرازم کی شکل میں موجودان عناصر کو پسپا کرنا ہے جن کی وجہ سے اتناوسیع و عریض ملک جڑا ہوا ہے۔ کشمیریوں کے ساتھ بھارت نے جو کچھ کیااسے دیکھتے ہوئے آزادی کے لئے برسرپیکار گروپ آسام، جھاڑکھنڈ، میزورام، پنجاب اور دیگر علاقوں میں مذاکرات کے عمل کو چال بازی تصور کریں گے۔ بھارت کا تیسرا نقصان یہ ہو سکتا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں اس کی زیادہ افواج تعینات ہونے سے اخراجات میں اضافہ ہو گا۔ بھارت کی جی ڈی پی کی شرح گزشتہ چند برسوں میں نیچے جانے لگی ہے۔ کشمیر میں 9 لاکھ فوج کو غیر معینہ مدت تک رکھ کر کشمیریوں کو خاموش نہیں کرایا جا سکتا۔ کشمیری حسب سابق اپنا احتجاج اور جدوجہد آزادی جاری رکھیں گے۔ بی جے پی نے اپنے تشدد پسند ووٹر کو خوش کرنے کے لئے کشمیر کو جبر سے اپنا حصہ بنایا ہے۔ اس عمل نے بھارت کی رہی سہی قانونی پوزیشن کو بری طرح مجروح کیا ہے۔ شملہ معاہدہ، اعلان لاہور اور اس جیسے دوسرے معاہدوں کی وجہ سے پاکستان دوطرفہ مذاکرات کے فریب میں گرفتار تھا۔ وزیراعظم نریندرمودی نے کشمیر کے ساتھ الحاق کی بنیاد کو ختم کرکے صورتحال کو 1947ء جیسی بنا دیا ہے۔ آزادی کے وقت کشمیریوں کے پاس ہتھیار اٹھانے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ اب پاکستان اور کشمیریوں کے پاس عالمی فورمز ہیں، انسانی حقوق کمشن، عالمی عدالت انصاف اور اقوام متحدہ جیسے ادارے اور ایٹمی صلاحیت ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ ان علاقوں کے تنازعات جلد طے ہو جاتے ہیں جہاں غیر مسلم آبادی کسی مشکل میں گرفتار ہو۔ کشمیر اور فلسطین کے معاملات اس لئے حل نہیں ہو رہے کہ یہاں مظلوم آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ پاکستان کو عالم اسلام کی مدد اور حمایت کے لئے سفارتی کوششیں ضرور کرنی چاہئیں لیکن یہ امر پیش نظر رہے کہ جس طرح افغانستان میں اشرف غنی اور ان سے پہلے حامد کرزئی کو امریکہ کے ایجنٹ سے زیادہ کوئی حیثیت حاصل نہیں اسی طرح ان مسلم حکمرانوں سے زیادہ توقعات وابستہ نہ کی جائیں جو اپنے عوام اور سرزمین سے زیادہ مغرب سے وفاداری رکھتے ہیں۔ یقیناً بین الاقوامی قوانین سے آگاہی عالمی تنازعات کو پرامن طریقے سے حل کرنے میں مدد دیتی ہے۔ پاکستان اگر تنازعہ کشمیر کو ایک قانونی مقدمہ بنا کر عالمی برادری کے سامنے پیش کرے تو قانون پسند ترقی یافتہ دنیا کی حمایت حاصل ہو سکتی ہے۔ سابق حکمران ایک طویل عرصہ تک برسراقتدار رہے، ان کے ادوار میں کشمیر کمیٹی اور کشمیر پالیسی کو دوست نوازی کا ذریعہ بنایاگیا۔ کسی غیر متوقع صورتحال نے نمٹنے کی حکمت عملی ترتیب دینے پر دھیان نہیں دیا گیا۔ سابق حکومتوں کی نالائقی اور سستی کے باعث بھارت عالمی فورمز پر دوطرفہ معاہدوں اور الحاق کی دستاویز کی بنیاد پر تاخیری حربے استعمال کرتا رہا۔ مودی حکومت نے اب خود ہی اس رکاوٹ کو دور کر دیا ہے۔ پاکستان پہلے ہی شق 370 کو تسلیم نہیں کرتا تھا۔ ردعمل کمیٹی کی تجاویز اس لحاظ سے سود مند ثابت ہو سکتی ہیں کہ تنازع کشمیر کو نئے حقائق سے ہم آہنگ کرکے کشمیر کی آزادی کے لئے موثر پالیسی کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے۔