سوئٹزر لینڈ میں عالمی اقتصادی فورم کے اجلاس میں شرکت کی خاطر پہنچنے والے وزیر اعظم عمران خان اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مابین ملاقات ہوئی ہے۔ امریکہ کا کردار جنوبی ایشیا میں بہت فعال ہے اس لئے صدر ٹرمپ جب کبھی یہاں کے کسی سربراہ حکومت سے ملاقات کرتے ہیں تو پورے خطے کی سکیورٹی و معاشی صورت حال میں بہتری کے امکانات کا تجزیہ کیا جانے لگتا ہے۔ سوئٹزر لینڈ کے شہرڈیووس میں ہونے والی ملاقات میں وزیر اعظم عمران خان نے صدر ٹرمپ کو مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے آگاہ کیا اور کہا کہ پاکستان خطے میں امن کا خواہاں ہے اور امن کے لئے کردار ادا کرنا چاہتا ہے۔ صدر ٹرمپ نے ایک بار پھر تنازع کشمیر پر ثالثی کی پیشکش کی اور معاملے پر تشویش کا اظہار کیا۔ اس ملاقات میں افغانستان میں قیام امن کی کوششوں‘ ایران امریکہ کشیدگی اور ایف اے ٹی ایف کے مسئلہ پر دونوں رہنمائوں نے تبادلہ خیال کیا۔ پاکستان اور مریکہ کئی عالمی معاملات میں ایک دوسرے کے اتحادی اور معاون رہے ہیں۔ افغان جہاد کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں یہ دو طرفہ تعلقات بڑے نمایاں رہے ہیں۔ بدقسمتی سے امریکہ اپنے بین الاقوامی تعلقات کو غرض کے ساتھ منسلک رکھتا ہے جبکہ پاکستان میں بین الاقوامی تعلقات تزویراتی حکمت عملی سے زیادہ جذباتی معاملہ سمجھے جاتے ہیں۔ اس وقت امریکہ کی غرض ہے کہ افغانستان میں اس کو ملی شکست دنیا کے سامنے اس کی جیت کی صورت میں آئے۔ اس عمل کو ممکن بنانے کے لئے اسے افغانستان میں مزاحمت کرنے والی طاقتوں سے بات کرنی پڑی۔ پاکستان اگر امریکہ کی طرح سوچتا تو مذاکرات میں سہولت کاری سے انکار کر دیتا یا پھر اس کام کے بدلے امریکہ سے بہترین سودے بازی کرتا۔ دہشت گردی کے خلاف طویل جنگ لڑنے‘75ہزار جانیں قربان کرنے‘ ایک سو ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان اٹھانے اور پوری قوم کے اٹھارہ سال ضائع کرنے کا معاوضہ لیا جاتا۔ پاکستان نے ایسا کچھ بھی نہیں کیا بلکہ صرف کشمیر کا تنازع طے کرنے کی خاطر امریکی کردار فعال ہونے کا تقاضا کیا۔ گزشتہ برس کے وسط میں وزیر اعظم عمران خان پہلی بار سرکاری دورے پر امریکہ گئے۔ اس وقت پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں واضح کشیدگی موجود تھی۔صدر ٹرمپ سے کچھ عرصہ قبل تک کسی پاکستانی اعلیٰ عہدیدار کا رابطہ نہ تھا۔ بھارت اس صورت حال کا بھر پور فائدہ اٹھا رہا تھا۔ پاکستان کی مالیاتی مشکلات بڑھ رہی تھیں، ایف اے ٹی ایف کی صورت میں ایک نئی مصیبت اس کے تعاقب میں لگا دی گئی۔ ٹرمپ عمران پہلی ملاقات کا ٹرننگ پوائنٹ صدر ٹرمپ کا یہ انکشاف تھا کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے ان سے کشمیر کے معاملے پر ثالثی کرانے کا کہا ہے۔ پاکستان نے اس انکشاف کا خیر مقدم کیا جبکہ بھارت میں اپوزیشن جماعتوں نے اسے بھارت کے دیرینہ ریاستی موقف سے غداری قرار دے کر نریندر مودی سے وضاحت کا تقاضا کیا۔ اس ہنگام مودی حکومت نے 3اگست 2019ء کو یکطرفہ طور پر کشمیر کی آئینی حیثیت تبدیل کر دی۔ ساتھ ہی مقبوضہ کشمیر میں کرفیو اور دیگر پابندیاں عاید کر دیں جو 170روز سے مسلسل جاری ہیں۔ ان پابندیوں کے دوران بھارتی پولیس اور سکیورٹی فورسز نت نئے آپریشن کر رہی ہیں۔ خواتین کی عصمت دری کے 70واقعات رپورٹ ہو چکے ہیں‘ کم سن لڑکوں کو گھروں کی تلاشی کے دوران گرفتار کر کے حراستی مراکز میں قید کیا جا رہا ہے۔ ان حراستی مراکز کو بھارت اصلاحی مرکز کا نام دیتا ہے۔ بہت سے کشمیری نوجوان شہید کر دیے گئے ہیں اور بے شمار لاپتہ ہیں‘ علاج کے لئے ہسپتالوں میں سٹاف میسر ہے نہ ٹرانسپورٹ‘ مقامی کاروبارتباہ ہو چکا ہے۔ ہر گھر کے سامنے مسلح اہلکار کھڑے ہیں۔ جمہوری اقدار پر یقین رکھنے والے کسی معاشرے میں یہ تمام چیزیں خلاف قانون اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کہلاتی ہیں۔ پاکستان بھارت سے کہہ چکا ہے کہ اس کی پالیسی خطے میں خوفناک تصادم کو جنم دے رہی ہے۔ دونوں ریاستیں ایٹمی صلاحیت رکھتی ہیں۔ اس صلاحیت کی وجہ سے پاکستان اور بھارت پر ذمہ داری عاید ہوتی ہے کہ وہ دونوں اپنے باہمی تنازعات کو بات چیت سے طے کریں۔ پاکستان کی طرف سے ہمیشہ امن کی بات کی گئی۔ گزشتہ ایک دو سال کے واقعات کا جائزہ لیں تو معلوم ہو گا کہ کنٹرول لائن پر اشتعال انگیزی اور پھر بھارتی طیاروں کی پاکستانی حدود کی خلاف ورزی بھارت کی جنگ پسند پالیسیوں کا مظہر ہیں۔ پاکستان اپنا دفاع کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے لیکن مسلسل تنازعات میں الجھے رہنا معاشی ترقی کو متاثر کرتا ہے۔ امریکہ اور ایف اے ٹی ایف جیسے ادارے ایسے اشارے دے رہے ہیں کہ پاکستان اگر سی پیک سے دستبردار ہو جائے تو وہ پاکستان کی معاشی مشکلات کو کم کرنے میں مدد دینے کوتیار ہیں۔ یقینا ہر نئے دن ایف اے ٹی ایف کی طوف سے میں جن معاملات پر اعتراض کیا جاتا ہے وہ بھی ختم ہو سکتا ہے۔ افغانستان میں قیام امن کی کوششوں کا حصہ بن کر پاکستان نے بتا دیا ہے کہ وہ امن پسند ملک ہے۔ وزیر اعظم عمران خان اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ واضح کرتے رہے ہیں کہ پاکستان اب دوسروں کی جنگوں میں شریک ہو کر اپنا نقصان کرنے پر تیار نہیں۔ ان حالات میں صدر ٹرمپ ایک ذمہ دار عالمی طاقت کے سربراہ بن کر کشمیر کے مظلوم عوام کی مدد کریں۔ کشمیر کی صورت حال اب زبانی وعدوں اور دعوئوں سے آگے کا تقاضا کر رہی ہے۔ امریکہ نے یہ وقت حیلے بازی میں ضائع کر دیا تو اسے خطے میں کئی تزویراتی فوائد سے محروم ہونا پڑ سکتا ہے۔