سوال یہ ہے کہ کشمیر کے حوالے سے فیس بک پر پوسٹ لگانے سے لوگوں کے فیس بک اکائونٹ کیوں معطل ہو رہے ہیں؟ کیا ہمیں معاملے کی سنگینی کا کوئی احساس ہے اور کیا ریاست کو کچھ خبر ہے۔ فیس بک نامی اس گلوبل بیٹھک پر اگر قومی پالیسی کے ابلاغ کے امکانات محدود تر ہوتے چلے گئے تو اس کے منطقی نتائیج آگے چل کر کیا ہوں گے؟ آئے روز سوشل میڈیا پر نوجوان ایک دوسرے کو بتا رہے ہوتے ہیں ،انہوں نے کشمیر پر فلاں پوسٹ لگائی جو کمیونٹی سٹینڈرز کے خلاف بھی نہیں ، پھر بھی وارننگ آ گئی یا اتنے دنوں کے لیے اکائونٹ معطل ہو گیا یا لائیو جانے پر اتنے دنوں کے لیے پابندی عائد کر دی۔ سوشل میڈیا پر بے چینی ہے لیکن حکومت کے ہاں اس اضطراب کا کوئی احساس نہیں۔ چند ماہ پہلے جب وزیر اعلی پنجاب کے ایک ترجمان کا اکائونٹ کشمیر پر پوسٹ لگانے سے معطل ہوا تو حکومتی مشینری میں کچھ حرکت ہوئی اور ہم نے سنا فیس بک اور ٹوئٹر سے حکومتی سطح پر بات کی جائے گی۔کیا بات ہوئی ا ور کیا نتائج نکلے ، معلوم نہیں البتہ یہ علم ہے فیس بک پر اکائونٹ معطلی کا سلسلہ پھر سے شروع ہو گیا ہے۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ پہلے یہ سمجھنا ہو گا ، پھر لائحہ عمل کی بات کریں گے۔ یہ دنیا مفادات کی دنیا ہے۔ وجہ بھارت کا فیس بک ایکٹویسٹ ہے۔ وہاں سے لاکھوں میں رپورٹ کیا جاتا ہے اور اکائونٹ معطل ہو جاتا ہے۔ انڈیا کی کنزیومر مارکیٹ اور معاشی حجم ریاستوں کو اپنی طرف کھینچتا ہے اور ریاستیں اصول بھول کر مفادات کا تعاقب کرتی ہیں۔ جب ریاستوں کے اصول نہیں ہوتے ، مفادات ہوتے ہیں تو کارپوریٹ کلچر میں مفادات کی نفی کیسے کی جا سکتی ہے؟ ہمیں سب سے پہلے یہ جاننا ہو گا کہ فیس بک کی دنیا میں بھارت کا حجم کیا ہے اور ہم کہاں کھڑے ہیں۔ بھارت میں 280 ملین لوگ فیس بک استعمال کر رہے ہیں۔ایک ملین دس لاکھ کا ہوتا ہے یعنی 28 کروڑ لوگ فیس بک استعمال کر رہے ہیں۔ یہ تعداد پاکستان کی کل آبادی سے بھی زیادہ ہے۔ امریکہ میں فیس بک استعمال کرنے والوں سے 9کروڑ زیادہ لوگ بھارت میں فیس بک استعمال کر رہے ہیں۔پاکستان میں فیس بک استعمال کرنے والوں کی تعداد قریبا ساڑھے تین سے چار کروڑ ہے۔کہاں 28 کروڑ اور کہاں ساڑھے تین کروڑ؟ حساب سودو زیاں کر کے دیکھ لیجیے ، فیس بک کی حساسیت کا جھکائو کس طرف ہو گا؟ بھارت کی جانب یا آپ کی طرف؟ بھارت کے 28 کروڑ فیس بک صارفین میں سے ایک فیصد بھی رپورٹ کرنے لگیں تو یہ 28 لاکھ بنتے ہیں۔ اعشاریہ پانچ فیصد لوگ رپورٹ کرنے بیٹھ جائیں تو 14 لاکھ شکایات بنتی ہیں۔مزید کمی کر لیں پھر بھی تعداد لاکھوں میں ہے۔کیا عجب بھارت پروپیگنڈہ کے میدان کی معنویت کو سمجھتا ہو اور اس نے اس بات کا باقاعدہ اہتمام کر رکھا ہو کہ اس کے مفادات کے خلاف مواد آئے تو فوری طور پر لاکھوں شکایات فیس بک کو پہنچائی جائیں ۔ شکایات چلی گئیں ، اب آئیے فیکٹ چیک میکنزم کی جانب۔ پاکستان میں فیس بک کا ایک ہی فیکٹ چیکنگ پارٹنر ہے ، اے ایف پی۔ بھارت میں بہت سے ہیں۔ بوم ہے ، فیکٹلی ہے ، انڈیا ٹوڈے فیکٹ چیک ہے ، نیوز موبائل فیکٹ چیکر ہے، کوئنٹ ہے وشواس نیوز ہے۔معاملات دنیا میں کیسے ہوتے ہیں ، یہ آپ کے سامنے ہیں تو خود فیصلہ کر لیجیے کہ اس تناسب کے ساتھ کس کا پلڑا بھاری ہو گا؟ بھارت سے شکایات کی یلغار ہوتی ہے ، فیکٹ چیکنگ پارٹنرز ان ہی کے ہیں ، نتیجہ یہ کہ پاکستانی صارفین اکائونٹ معطل کرا کے ایک دوسرے سے پوچھ رہے ہوتے ہوں یہ کیا ہو ا، کیوں ہوا؟ حکومت اس سب سے بے نیاز دہی کے ساتھ کلچہ کھا رہی ہوتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس کا حل کیا ہے؟ یہ ایک طویل جد و جہد ہے جس میں سب سے پہلے ہمیں اپنا گھر ٹھیک کرنا ہے۔ فیس بک کے استعمال میںہم بھارت سے بہت پیچھے سہی لیکن جتنے فیس بک صارفین برطانیہ اور ترکی میں ہیں اتنے ہی ہمارے پاس بھی ہیں۔انہیں سہولیات دینا ہوں گی اور سستا اور تیز تر انٹر نیٹ عام کرنا ہو گا۔ ابھی تو یہ عالم ہے کہ فیس بک پر کالم کا لنک دیں تو دوست شکایت کرتے ہی کہ ہمارا نیٹ سلو ہے یہاں لنک اوپن نہیں دیتا اس لیے متن لگایا کریں۔ سوشل میڈیا پر متحرک لوگ پاکستان کے آن لائن سفیر ہیں۔ ہم نے کبھی اس امکان پر غور ہی نہیں کیا کہ فیس بک نامی اس گلوبل بیٹھک میں جس ملک کے جتنے زیادہ لوگ ہوں گے اس ملک کا موقف اتنا ہی زیادہ دہرایا جائے گا۔ وہ اس کے سماجی ، ثقافتی ہر طرح سے نمائندے ہوں گے۔ہمارے ہاں فیس بک وغیرہ کو داخلی انداز سے دیکھا گیا اور ان گستاخوں کو درد سر سمجھا گیا۔ سخت قوانین لانے کی کوشش بھی اسی سوچ کی عکاسی ہے۔ ہمیں اس فکری گرہ کو کھولنا ہو گا۔ داخلی سطح پر یہ لوگ جتنے بھی گستاخ ہوں اور حکومتوں کے ناقد ہوں ،گلوبل بیٹھک میں یہ پاکستان کے دست و بازو ہیں۔انہیں کمزور کرنے کی بجائے ان کو مضبوط بنانے کا سوچنا ہو گا۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمیں فیس بک انتظامیہ سے باقاعدہ بات کرنا ہو گی۔کشمیر ایک ایسا بین الاقوامی مسئلہ ہے جو اقوام متحدہ میں سلامتی کونسل کے ایجنڈے پر موجود ہے۔ اقوام متحدہ کے ہاں یہ آج بھی ایک متنازعہ مسئلہ ہے۔ بھارت کے تازہ انتظام کا بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں کوئی اعتبار نہیں۔اس پر تنقید کرنا اور کشمیریوں کے حق خود ارادیت کی بات کرنا بین الاقوامی قوانین کے عین مطابق اور جائز ہے۔اس پر فیس بک اکائونٹ معطل ہوتا ہے تو یہ آزادی رائے کے مسلمہ بین الاقوامی اصولوں کی خلاف ورزی ہے۔ انسانی حقوق کے عالمی اعلامیے کے آرٹیکل 19،انٹر نیشنل کوونینٹ آن سول اینڈ پولیٹیکل رائٹس کے آرٹیکل 19، افریقن چارٹر آف ہیومن رائٹس کے آرٹیکل 9 ، یورپین کنونشن فار پروٹکشن آف ہیومن رائٹس اینڈ فندامنٹل فریڈم کے آرٹیکل 10، امریکن کنونشن آن ہیومن رائٹس کے آرٹیکل 13 اور آسیان ہیومن رائٹس ڈیکلیریشن کے آرٹیکل 23 کے تحت کشمیر یوں کے حق خود ارادیت کے لیے آواز اٹھاناآزادی رائے کے باب میں انسان کا بنیادی حق ہے۔ فیس بک کسی کو اس حق سے محروم نہیں کر سکتی۔ معاملے کی سنگینی کو سمجھنا ہو گا۔ اس کے بہت خطرناک سماجی اور نفسیاتی اثرات مرتب ہوں گے۔ آپ کا فیس بک صارف بتدریج پسپا ہوتا جائے گا کہ وہ آخر کب تک اپنا اکائونٹ معطل کراتا پھرے۔ دوسری طرف سے مزید پیش قدمی ہوتی رہے گی۔ پاکستانی صارف کے لیے اہم قومی اور بین الاقوامی معاملات پر بات کرنا مشکل ہو جائے گا۔ فیس بک کے قوانین سر آنکھوں پر ، لیکن ان کا استعمال کیسے ہو رہا ہے، اس پر فیس بک سے بات کرنے کی ضرورت ہے۔