اہل پاکستان اورپاکستان کے حکمران کشمیرکے حوالے سے اگرچہ ایک ہی موقف رکھتے ہیں لیکن دونوں سطحوں پراپروچ الگ الگ ہے۔ پاکستان کے 22کروڑ عوام اسلامیان جموں وکشمیرکے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہیں اوراسلامیان کشمیر کولگے ہرگھائوکادرداورکسک اپنے سینے میں محسوس کر رہے ہیں تاہم گزشتہ 30برسوں کے دوران یہ بات الم نشرح ہوکرسامنے آئی کہ پاکستان کی ہرحکمران جماعت سینہ تان کرآگے بڑھنے اوربھارت سے کشمیرچھینے کے جذبے سے عاری رہی اورپس وپیش سے کام لیتی رہی۔ماضی کی طرح آج بھی یہی صورتحال ہے اورملک کی حکمران جماعت اور اپوزیشن کشمیر کاز پر کندھے سے کندھا ملاکرکھڑی نہیں۔ اس باربھی یوم یکجہتی کشمیر کے موقع پرایک بار پھر پاکستان کی حکمران جماعت اوراپوزیشن جماعتیں ملت اسلامیہ کشمیرکوایک ہی پلیٹ فارم سے مشترکہ طورپر حوصلہ افزاپیغام دینے میں ناکامی ہوئیں اور ایک آوازکے بجائے بھانت بھانت کی بولیاں بولتی نظرآئیں ۔ اپوزیشن کے اتحاد پی ڈی ایم نے کشمیریوں سے اظہاریکجہتی کے لئے مظفرآباد میں ایک جلسہ منعقد کیاجبکہ حکمران جماعت پی ٹی آئی نے وزیراعظم کے لئے کوٹلی آزادکشمیرمیں سٹیج سجارکھاتھامگردونوں جلسوںمیں اوردونوں مقامات پروزیراعظم اپوزیشن پارٹیوں اوراپوزیشن پارٹیاں ایک دوسرے کو کوسنے دیتے رہے ۔ مظفرآبادکے جلسے میں اپوزیشن نے ایک بار پھر وزیراعظم عمران خان اورا ن کی حکومت اس معا ملے پر سودے بازی کاالزام عائدکرتے ہوئے کہاکہ عمران خان نے کشمیر فروخت کردیا۔ دوسری طرف وزیراعظم پاکستان اپوزیشن کو این آر،اونہ دینے کی رٹ لگاتے ہوئے دکھائی دیئے ۔ البتہ کوٹلی کے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہاعمران خان نے مشرف جیسے موقف کودہرایااورکہاکہ ہم کشمیریوں کے ساتھ ہیں اور کشمیری آزاد رہناچاہتے ہیں تب بھی ہم ان کے ساتھ ہیں اوراگرپاکستان سے ملناچاہتے ہیں تب بھی۔عمران خان کے آئوٹ آف بکس حل کی بات کرنے سے اہل دانش حیرت واستعجاب میں پڑ گئے ہیں اورکشمیرکے حوالے سے انہیں دوسرامشرف قراردینے لگے ۔ واضح رہے کہ مشرف نے بھی بھارت کے سامنے دراز ہوئے کشمیریوں کوجبری طور پرمنقسم کرنے والی جنگ بندی لائن پر باڑ لگاکر’’ ادھرتم ادھرہم ‘‘کے فارمولے کو پیش کیاتھا۔ نومبر2003ء کو وزیر اعظم پاکستان ظفراللہ خان جمالی نے صدر مشرف کی ہدایات پربھارت کو کنٹرول لائن پر سیز فائر کی پیشکش کی ،جسے بھارت نے قبول کیا اور باقاعدہ 25نومبر 2003 کو سیزفائر کے نفاذکا اعلان ہوا۔حیرت کی بات یہ ہے کہ 17جولائی 1972 ء کو دونوں ممالک کے درمیان سیز فائر ہوا تھا اور وہی سیز فائرلائن 11دسمبر1972 ء کو کنٹرول لائن میں تبدیل ہوئی تھی۔ کشمیری عوام کی اکثریت نے مشرف فامولے اور میر واعظ گروپ کی طرف سے بھارتی آئین کے اندر مسئلہ کشمیر حل کرانے کی کوششوں کی مزاحمت کی اور اسے مسترد کیا۔ کشمیری مسلمانوں نے سوال اٹھایا کہ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان کوئی جنگ ہوئی اور نہ ہورہی ہے تو اب سیز فائر کا کیا مطلب ۔اصل میں اس سیز فائر کے ذریعے مشرف حکومت کی طرف سے بھارت کو ایک مکمل آہنی باڑھ کھڑی کرنے کا موقع فراہم کیا گیا۔سیز فائر کی آڑ میں ریاست کشمیر کے دو منقسم خطوں کے درمیان ایک دیوار قائم کی گئی اوراس دیوار کے بعد نہ صرف مجاہدین کی نقل و حرکت کو روکا گیا بلکہ ان لوگوں کاراستہ بھی بند کیا گیا جو بھارتی مظالم سے تنگ آکر مہاجر ین کی حیثیت سے یہاں داخل ہونا چاہتے تھے۔ کتنا بڑا المیہ ہے کہ دیوار برلن گرائی جاچکی تھی اور دوسری طرف دیوار کشمیرکھڑی کی جارہی تھی۔ مجاہدین کشمیر اس صورتحال کے نتیجے میں تنہائی اور مشکلات کا شکار ہورہے تھے ۔حیرت کی بات یہ تھی کہ حریت کانفرنس کے ایک حصے جسے مایوس حصہ کہا جاتا تھا دلی میں ڈیرے جمائے تھے دوسری طرف مشرف کوایسے ہی لوگوں کی تلاش تھی جو اس کی ہاں میں ہاں ملادیں۔ 25اکتوبر2004ء کومشرف نے ایک افطار پارٹی میں مسئلہ کشمیر حل کرنے کے لیے اپنے چار نکاتی فارمولے کا اعلان کیا ۔ مسئلہ کشمیر پرمشرف کا چار نکاتی فارمولا پاکستان کی تاریخ کا ایک بہت بڑا واقعہ تھا۔ یہ ملت اسلامیہ کشمیر کے لیے کسی صدمے سے کم نہیں تھا کیونکہ ا سے کشمیرپرمسلمہ بین الاقوامی قراردادوں کو پس پشت ڈال کر پیش کیا گیا ۔ اس پوری کہانی کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ مملکت خدادادکے حکمرانوںکی کشمیر پالیسیوں پر آئے روز کی تبدیلیوں ،یو ٹرنز اور گومگو اوربے سمتی کا نتیجہ ہے کہ وہ لڑھکتے ہی چلے جارہے ہیں۔ اور کشمیری مجاہدین کی منقسم کشمیر میں نقل وحمل اور کشمیریوںکی تحریک آزادی کو در اندازی تسلیم کرچکے ہیں ۔جنوری 2004 ء کے ’’ اعلان اسلام آباد‘‘پر دستخط دراصل جنرل مشرف کاکشمیرپرسرینڈر تھا۔اسلامیان کشمیرکی رضامندی اورانکی عظیم قربانیوں کے علیٰ الرغم سری نگرمظفرآبادکے درمیان ہفتہ وار دوستی بس اورٹرک سروس کے ذریعے مونگ کی دال ،بادام ،سبز الائچی ،کیلا،کینوپیاز ،ٹماٹر اور لہسن کی تجارت کا سرکس لگایاگیادوسری طرف بھارتی قابض فوج کے ہاتھوںکشمیریوں کاقتل عام جاری رہا بلکہ اس میں حددرجہ اضافہ ہی ہوتارہا۔ بہرکیف مشرف کے بعد زرداری ،ا ن کے بعد نواز شریف اور اب عمران خان بھی عالمی استعمار کی ایما پر تحریک آزادی کشمیرکوعملی مددنہ کرسکے جبکہ کشمیری مسلمان کل اورآج’’ تیری جان میری جان پاکستان پاکستان‘‘کانعرہ مستانہ بلندکرتے ہوئے قابض اورسفاک بھارتی فوج سے اپنے سینوں پرگولیوں سے شہید ہورہے ہیں۔ان کا اس امرپرایمان ہے کہ وہ اپنی تحریک آزادی کشمیر جس کامنطقی نتیجہ الحاق پاکستان ہے کو بے وقعت نہیں کریں گے بلکہ اپنی آنکھوں سے اپنی آزادی کاخواب شرمندہ تعبیرہوتے دیکھیں گے ۔اسے واضح ہوجاتاہے کہ پاکستان کے حکمران اپنے اوپر آنے والے کسی بھی (political crisis) کے وقت کشمیرمسئلہ کوخوب استعمال کرتے رہے اورکشمیری مسلمانوں پربھارتی مظالم کاڈھول پیٹتے رہے ۔