پاکستان میںبڑے شادیانے بجائے جا رہے تھے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے حالیہ دو روزہ دورہ بھارت میں نریندر مودی کے روایتی پاکستان دشمن بیانیے کو گھاس نہیں ڈالی بلکہ الٹا کہا کہ عمران خان بڑے اچھے آدمی اور میرے دوست ہیں، مودی سے بھی میرے تعلقات اچھے ہیں ،کشمیر کا مسئلہ حلق کا کانٹا ہے پاکستان اس پرکام کر رہا ہے اور میں کشمیر پر ثالثی کرانے کے لیے ہر وقت تیار ہوں۔ لیکن دورے کے اختتام پر جاری ہونے والے مشترکہ اعلامیے میں بلی تھیلے سے باہر آ گئی ۔مشترکہ اعلامیے میں پھر اسی گھسے پٹے انداز میں پاکستان کو دہشت گردی کے لیے مورود الزام ٹھہراتے ہوئے ’ڈو مور‘ کے مطالبے کا اعادہ کیا گیا۔ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ امریکی صدر اور بھارتی وزیراعظم نے دہشت گردوں کی پراکیسوں اور ہر قسم کی کراس بارڈر دہشت گردی کی بھرپور مذمت کی ہے ۔ ’’کراس بارڈر ‘‘سے بھارت کا مطلب ہی پاکستان ہوتا ہے اعلامیے میں اگلے ہی فقرے میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ اپنی سرزمین دہشت گردی کے لیے لانچنگ پیڈ کے طور پر استعمال نہ ہونے دے اور اس قسم کی کارروائیاں رو کے نیز ممبئی حملوں اور پٹھانکوٹ واقعے میں ملوث دہشت گردوں کو کیفرکردار تک پہنچائے ۔جن میں القاعدہ ،جیش محمد ، لشکر طیبہ ،حزب المجاہدین ،حقانی نیٹ ورک ،تحریک طالبان پاکستان ،ڈی کمپنی اور ان سے منسلک تنظیمیں شامل ہیں ۔ اس سے بڑی ستم ظریفی کیا ہو سکتی ہے کہ انہی نام نہاد دہشت گرد تنظیموں میں سے بعض کے ساتھ امریکہ مذاکرات کر رہا ہے اور ہفتے کو افغان طالبان اور امریکہ کے درمیان ہونے والے معاہدے پر قطر میں دستخط ہونے جا رہے ہیں۔ حال ہی میں کالعدم تنظیم لشکر طیبہ کے سربراہ حافظ سعید کو گیارہ برس قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ چند روز قبل طالبان کے ڈپٹی لیڈر سراج الدین حقانی کا ایک مضمون نیو یارک ٹائمز میں شائع ہوا ہے جس کا عنوان ہے’’ ہم‘‘ یعنی طالبان کیا چاہتے ہیں جس میں ان کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان امریکہ کے ساتھ افغان طالبان کی بات چیت کرا دے تو سب اچھا ہے لیکن دوسری طرف وہ اپنے سٹرٹیجک اتحادی بھارت کو خوش کرنے کے لیے پاکستان پر ان میں سے بعض دہشت گردوں کی پشت پناہی کرنے کا الزام لگاتا ہے گویا کہ میٹھا میٹھا ہپ کڑوا کڑوا تھو ۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ خود پاکستان میں بہت سے حلقے ماضی کی بعض حکومتوں کے جہادیوں کی پشت پناہی کرنے کی سخت ناقد رہے ہیں ۔ اس پر بھی میڈیا اور سیاسی حلقوں میں سخت نکتہ چینی ہوتی رہی ہے کہ پاکستان کو جہادی تنظیموں کا ٹریننگ گراؤنڈ نہ بننے دیا جائے بعداز خرابی بسیار ایسی پالیسیوں کو ترک کر دیا گیا اور پاکستان میں بالخصوص سانحہ آرمی پبلک سکول پشاور کے بعد اسلام کا نام لے کر دہشت گردی پھیلانے والوں کا قلع قمع کرنے کے لیے بھرپور کردار ادا کیا گیا اور اس کی پاداش میں ہمیں بھاری جانی ومالی نقصان بھی اٹھانا پڑا ۔ اب کشمیر میں حریت کی جو لہر چل رہی ہے وہ وہاں کے مقامی کشمیریوں کی جدوجہد اور قربانیوں کا نتیجہ ہے اسی بنا پر بھارتی آئین کے آرٹیکل 370کی تنسیخ کے ذریعے کشمیرکی نام نہاد خصوصی حیثیت بھی ختم کر دی گئی ہے۔ فاروق عبداللہ ،عمرعبداللہ اور محبوبہ مفتی جیسے دہلی نواز کشمیری بھی پابند سلاسل ہیں ۔کشمیر چھ ماہ سے زائد عرصے سے لاک ڈاؤن ہے اس سے بڑا ظلم کیا ہو سکتا ہے کہ ان حقائق کے باوجو د امریکی صدر یہ سمجھتے ہیں کہ یہ سب کچھ ’’پاکستان سے بھیجے گئے گھس بیٹھیوں‘‘ کی کارروائیوں کا شاخسانہ ہے ۔ پاکستان سفارتی اور سیاسی سطح پر کشمیر کاز کے لیے بھرپور آواز اٹھا رہا ہے اس کا کریڈٹ یقینا وزیراعظم عمران خان کو جاتا ہے لیکن یہ کہنا کہ ہم سے پہلے مسئلہ کشمیرمردہ ہو چکا تھا جو ہم نے زندہ کر دیا ہے درست نہیں ہے ۔ماضی کی حکومتیں بھی کشمیر کاز کی آبیاری کرتی رہی ہیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کے دور میں پارلیمنٹ کی سطح پر کشمیر کاز کمیٹی بنی تھی جس کے سربراہ نوابزادہ نصراللہ خان تھے اور بعدازاں مولانا فضل الرحمن اور آج کل سینئر سیاستدان سید فخر امام اس کی سربراہی کر رہے ہیں ۔یہ بات ہمارے پالیسی سازوں گھول کر پی لینی چاہیے کہ امریکہ کا سٹرٹیجک اتحادی بھارت ہے جبکہ پاکستان کا چین۔ ہمیں اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہو گا کہ ماضی میں سیٹو اور سینٹو کے اتحاد اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان امریکہ کا حواری رہا ہے ، لیکن اب ایسی پوزیشن نہیں ہے۔ کامیاب خارجہ پالیسی کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ دشمن کی چکنی چپڑی باتوں میں نہ آیا جائے ۔ٹرمپ کا کیا ہے گنگا گئے گنگارام ، جمنا گئے جمناداس۔ وہ شمالی کوریا کے ڈکیٹیٹر کم جونگ اِن کو اپنی باتوں کی میٹھی گولیاں کھلا کر اس کا جارحانہ ایٹمی میزائل پروگرام ختم کرانا چاہتے تھے لیکن وہاں بھی ان کو منہ کی کھانا پڑی ۔ٹرمپ ہوں یا عمران خان یا حسن روحانی یا کم جونگ اِن ہوں بدیہی سٹرٹیجک حقیقتیں ایسی باتوں سے بدلی نہیں جا سکتیں ۔ہماری خارجہ پالیسی کے کارپردازان نے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا ہے کہ بھارت کو تین ارب ڈالر کا جدید اسلحہ بیچا جا رہا ہے جو پاکستان کے خلاف استعمال ہو گا ۔ لیکن بھارت کے لیے پاکستان کے خلاف استعمال کے لیے -3ارب ڈالر کا اسلحہ خریدنا کوئی بڑی بات نہیں ہے کیونکہ اس کے پاس چار سو ارب ڈالر سے زیادہ کے زرمبادلہ کے ذخائر ہیں۔دراصل مسئلہ پاکستان کا ہے جو اپنی پتلی اقتصادی صورتحال کی بنا پر بھارت کے ساتھ اسلحہ کی دوڑ میں مقابلہ کرنے کی سکت نہیں رکھتا۔ ہمیں ٹھنڈے دل سے اپنی خارجہ اور سٹرٹیجک پالیسی کے اہداف مقرر کر کے ان کے حصول کے لیے بھرپور محنت کرنی چاہیے ۔ہمارا سٹرٹیجک اتحادی چین ہے لیکن مغرب کی طرف سے جب بھی ڈگڈگی بجائی جاتی ہے ہم اس کی طرف کھینچے چلے جاتے ہیں ۔دلی میں مسلم کش حملوں میں -38افراد جاں بحق اور 250 سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔ مسلمانوں کی املاک جلائی جا رہی ہیں اور ان پر عرصہ حیات تنگ کر دیا گیا ہے ۔وزیراعظم عمران خان نے بدھ کو بالا کوٹ پرحملے کا ایک سال مکمل ہونے اور بھارت کے عزائم ناکام بنانے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے درست طور پر بھارت کو متنبہ کیا ہے کہ وہ خطرناک راستے پر چل رہا ہے اور وہ نقصان اٹھائے گا ۔مودی نے جو راستہ چنا ہے اس سے واپسی بہت مشکل ہے انھوں نے درست طور پرعالمی برادری سے مداخلت اپیل کی ہے کہ کروڑوں مسلمان بھارت میں نسلی تشدد کا نشانہ بن رہے ہیں دنیا وہاں مداخلت کرے۔ یہ مشورے بڑے صائب اور درست ہیں لیکن اس حوالے سے ہماری حکمت عملی کیا ہے۔ ہمارا دفتر خارجہ اس معاملے میں کیا کر رہا ہے؟۔