وہ سرد جنگ کا سیاسی دور تھا جب ہر عمل اور ہر سوچ میں سازش تلاش کی جاتی تھی ۔ وہ دور گذر چکا ہے۔ مگر ہم اب تک اس دور کے اثرات سے آزاد نہیں ہو پائے۔ ہم اب تک مختلف سیاسی اعمال کے پیچھے سیاسی سازشوں کو تلاش کرتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ کچھ تجزیہ نگار مولانا فضل الرحمان کی آزادی مارچ میں علاقائی سازش کی پرچھائیاں دیکھ رہے ہیں اور کچھ سیاسی حلقے مذکورہ مارچ کو ایک ایسی اسموک وال قرار دے رہے ہیں جس کے پیچھے ملک کی سیاسی جماعتوں کے درمیان جوڑ توڑ ہو رہی ہے۔ ہم کسی بھی سیاسی عمل کے مخالف کس طرح ہو سکتے ہیں؟ سیاست میں ہر جماعت کو احتجاج کی آزادی ہے۔ مگرہر آزادی کسی نہ کسی طرح سے ذمہ داری کی زد میں آتی ہے۔ مولانا فضل الرحمان ملک کے سینئر سیاستدان ہیں۔ انہوں نے ملک کے سیاسی چمن کا ہر موسم دیکھا ہے۔ انہوں نے حکومت اور ریاست کے درمیاں اہم فریضے بھی سرانجام دیے ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ مولانا فضل الرحمان نے بڑا عرصہ کشمیر کمیٹی کا سربراہ بن کر گزارا ہے۔ وہ کشمیر کے حالات اور کشمیری عوام کی مشکلات سے بخوبی آگاہ ہیں۔ اس وقت کشمیری تاریخ کے سب سے کڑے امتحان میں ہیں اورکشمیر کو قید خانہ بنے ہوئے تین ماہ گزرنے والے ہیں۔ اس دوراں دنیا کے ضمیر کو کشمیری عوام کے لیے بیداری کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی وہ المیہ اپنی جگہ مگر پاکستان کی سیاسی جماعتوں نے جس طرح کشمیریوں کو نظر انداز کرنے کا سلسلہ شروع کیا وہ انتہائی تکلیف دہ عمل ہے۔ مولانا فضل الرحمان کو کشمیری عوام کی فکر ہونی چاہئیے۔ مولانا نے کشمیر کمیٹی کی سربراہی سرکاری حوالے سے تو چھوڑ دی ہے مگر مولانا کو یہ بات محسوس کرنی چاہئیے کہ جب بھی کوئی سپاہی یا سالار فوج سے ریٹائر ہو جاتا ہے تب وہ اپنی وردی تو اتار دیتا ہے مگر اپنے دل سے وطن سے محبت اور وطن کے لیے جان دینے کا جذبہ ختم نہیں کرتا۔ ایک سپاہی کے لیے وطن کی حفاظت اور اس کی آزادی صرف ملازمت سے مشروط نہیں۔ یہ ایک ایسا فرض ہے جس ہر حال میں ادا کرنا ہوتا ہے۔ اس حوالے سے جب ہم ملک کی سیاسی جماعتوں کے کردار پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں افسوس ہوتا ہے۔ کیوں کہ ان کے لیے ہر ایشو اہم ہے سوائے کشمیر کے۔ انہوں نے کشمیر کو فراموش کردیا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ کشمیر کی بات اس وقت کی جائے گی جس وقت انہیں اقتدار ملے گا۔ کشمیر ان کے لیے اقتداری ذمہ داری ہے۔ کشمیر ان کے لیے انسانی اور قومی فرض نہیں ہے۔ اس لیے ہماری سیاست ہمارے عوام کے دل سے اتر رہی ہے۔ عوام کا دل بہت بڑا ہے۔ عوام کو اس بات کا احساس ہے کہ وہ کشمیریوں کے بغیر ادھورے ہیں۔ اس لیے عوام ملک کی سیاسی جماعتوں سے یہ توقع کرتے ہیں وہ کشمیر کے لیے اپنا قومی کردار ادا کریں مگر ملک کی سیاسی جماعتوں نے کشمیر کو صرف سرکاری ذمہ داری قرار دے رکھا ہے۔ پیپلز پارٹی کا تو اپنا مخصوص مزاج ہے۔ اس پارٹی نے کشمیر پر اپنے بانی رہنما کی وہ بات بھی فراموش کردی ہے جس میں مسٹر بھٹو نے کہا تھا کہ کشمیر کے معاملے پر تو میں نیند میں بھی غلطی نہیں کر سکتا۔ میاں نواز شریف کی سیاست میں بہت ساری خوبیوں کے ساتھ یہ خامی ہے کہ وہ ایسی کوئی بات نہیں کرتے جو بھارت کو ناگوار گزرے۔ ہمارے ملک کے بہت سارے دانشوروں اور لبرل خیال لوگوں کا بھی یہ المیہ ہے کہ وہ بھارت کوناراض کرنے کو بڑا پاپ سمجھتے ہیں۔ اس صورتحال میں صرف دینی جماعتوں پر کشمیر کاز کا فرض بڑھ جاتا ہے۔ چند دن پہلے کراچی میں جماعت اسلامی نے کشمیر کے حق میں جو ریلی نکالی وہ قابل تحسین تھی۔ ہم کو یہ احساس بھی ہونا چاہئیے کہ مسئلہ کشمیر صرف چند احتجاجوں سے حل نہیں سکتا۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ملک میں کشمیری محاذ قائم کیا جائے جس میں ملک کی سیاسی جماعتیں شامل ہر کر اپنا قومی فرض ادا کریں۔ اس بہت بڑے کام کو صرف مولانا فضل الرحمان سرانجام دے سکتے ہیں۔مولانا کی جماعت دین اور سیاست کا سنگم بھی ہے۔ انہوں نے کشمیر کمیٹی کا سربراہ بن کر کشمیر کے حالات کو قریب سے دیکھا ہے۔ آج وہ عمران خان کی حکومت سے ناراض ہوکر کشمیری عوام کو کیوں فراموش کیے بیٹھے ہیں؟ کشمیر کی آزادی صرف حکومت پاکستان کا فرض نہیں۔ اس کام میں نہ صرف ہر سیاسی جماعت بلکہ ہر سماجی تنظیم اور نہ صرف سماجی تنظیم بلکہ ہر فرد کو اپنا فرض ادا کرنا ہوگا۔ اس سلسلے میں پورے ملک میں تصور کشمیر کے لیے ایک مضبوط تحریک کی ضرورت ہے۔ وہ تحریک ان حالات میں کس طرح ممکن ہے جب ایک برس کی حکومت کو گرانے کے لیے مولانا سندھ سے لیکر اسلام آباد تک ریلی کی قیادت کرتے ہوئے اسلام آباد میں دھرنہ دینے کی تیاری کر رہے ہیں۔ ایک طرف کشمیر پر مودی حکومت وار کر رہی ہے اور دوسری طرف پاکستان میں حکومت کے خلاف وہ جماعت شدید احتجاج میں مصروف ہے جس جماعت کے سربراہ کو کشمیر کے لیے فکر مند ہونا چاہئیے۔ ایک طرف پاکستان کو معاشی مشکلات کا سامنا ہے اور دوسری طرف پاکستان کے خلاف علاقائی ہی نہیں بلکہ عالمی سازشوں کا جال بنا جا رہا ہے۔ ان حالات میں ہمارا ملک کشمیر کے لیے وہ کردار ادا نہیں کرسکتا جو اس کو ادا کرنا چاہئیے۔ جب اقتدار کے لیے جماعتیں حکومت کے ساتھ الجھ جائیں تو پھر حکومت ملک کو معاشی اور سیاسی طور پر کس طرح مضبوط کر سکتی ہے؟ ہماری جماعتوں کو اس وقت کشمیر کے لیے متحدہ محاذ بنانے کا فرض ادا کرنا ہوگا۔ آزادی کشمیر صرف حکومت کی ذمہ داری نہیں ہے۔ آزادی کشمیر ہر جماعت اور ہر فرد کی ذمہ داری ہے۔ہم کشمیر کے لیے کون سی قربانی دے سکتے ہیں؟ کشمیر کے لیے اگر ہم اپنی سیاسی اناؤں کے بت توڑ ڈالیں تو یہ بہت بڑی بات ہوگی۔ کیا ہم کشمیر کے لیے اپنی سیاسی مفادات کو بالائے طاق نہیں رکھ سکتے؟ کیا ہم کشمیر کے لیے اقتداری میچ معطل نہیں کر سکتے؟ کیا ہم کشمیر کے لیے اختلافات کے باوجود ایک ساتھ نہیں بیٹھ سکتے؟ کیا ہم کشمیر کے لیے آپس میں متحد اور منظم نہیں ہوسکتے؟ ایک طرف کشمیر کے وجود پر زخم لگائے جا رہے ہیں اور دوسری طرف ہم متحد ہوکر کشمیر یوں کی حفاظت کرنے کے بجائے منتشر ہو رہے ہیں۔ منتشر قوت کشمیر کے لیے وہ کردار ادا نہیں کرسکتی جس کی اس وقت کشمیر کو ضرورت ہے۔کیا ہمارا موجودہ انتشار اس بات کا ثبوت نہیں ہے کہ ہم نے کشمیر کو فراموش کردیا ہے!!؟