میری سوچوں کا تصور ہے وہی ذات کہ جو جہاں ہوتے نہیں اسباب بنا دیتی ہے بے یقینی میںکبھی سعدؔ سفر مت کرنا یہ تو کشتی میں بھی گرداب بنا دیتی ہے میرا ارادہ یہی تھا کہ جماعت اسلامی کے آزادیٔ کشمیر مارچ پہ لکھوں کہ اس میں شرکت کرنے کی بھی میرے دل میں شدید خواہش تھی کہ کشمیر ہمارا سب کا مسئلہ ہے، میں ناساز طبیعت کے باعث شریک نہ ہو سکا اور واقفان حال بتاتے ہیں کہ ایسی شاندار اور زوردار ریلی کم کم ہی دیکھنے میں آئی کہ اس میں جماعت اسلامی کے لوگ ہی شریک نہ تھے عام لوگ بھی جوق در جوق کشمیری بھائیوں سے یکجہتی کے لیے آئے۔ اس شاندار ریلی پر ڈاکٹر حسین احمد پراچہ نے نہایت جاندار کالم لکھ دیا اور اس کے بعد کہنے کی گنجائش کہاں۔ 64دن کرفیو کو بھی ہو گئے اور خان صاحب کی ہر شک سے بالاتر تاریخی تقریر کو بھی کئی دن گزر چکے۔ وہ کب کے امریکہ سے بھی واپس آ چکے اور آزادی کے متوالے ان کی کال کے منتظر ہیں۔ مگر بات اتنی سادہ نہیں ہے۔ موجودہ حالات بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتے ہیں۔ ایک طرف ادارے حکومت کو سپورٹ کرنے کی بجائے رخنہ ڈال رہے ہیں۔ تاجروں کے حوالے سے نیب کا سرنڈر کرنا کوئی معمولی بات نہیں مگر یہ طعنہ نہیں بلکہ اچھی حکمت عملی ہے، یک دم آپ وہی کر بیٹھیں گے جو عجلت میں ہو جاتا ہے۔ بڑا پن اور تدبر بہت زیادہ ٹھہرائو اور دانش کا متقاضی ہوتا ہے۔ اس سے پیشتر بھی ہمارے ایک نامور کالم نگار نے لکھا تھا کہ اب عمران خان ڈنڈا اٹھا لیں۔ شاید ان کے ذہن میں ہو گا کہ ’’ڈنڈا پیر اے بگڑیاں تگڑیاں دا‘‘ مگر یہاں محل نظر ہے کہ ڈنڈا ہے کس کے پاس۔ وہ جو کہتے ہیں کہ برا وقت اکٹھا ہی آتا ہے۔ بات ارشاد احمد عارف صاحب نے بھی صد فیصد درست کہی کہ مافیا کامیاب ہو گیا اور دیکھا جائے تو یہ پسپائی رکے گی نہیں مگر دوسری طرف اتنے محاذ کھولنے بھی تو جنگی اصولوں کے خلاف ہیں۔ ایک مولانا فضل الرحمن کا معاملہ ہی آپ دیکھ لیں۔ ڈاکٹر فخر عباس کا ایک شعر ہے: یہ جو لاہور سے محبت ہے یہ کسی اور سے محبت ہے آپ اسے یوں بھی کر سکتے ہیں: یہ جو عمران سے عداوت ہے یہ کسی اور سے بغاوت ہے پتہ نہیں میں اپنی بات سمجھانے میں کامیاب ہوا ہوں یا نہیں لیکن بات خطرناک ہے۔ مسئلہ ہوتا ہی ٹائمنگ کا ہے۔ بہت کچھ دیکھنا پڑتا ہے کہ کس کے پاس کھونے کو کیا کچھ ہے۔ انتشار اور انارکی آغاز میں تو کنٹرول ہو سکتی ہے مگر بعد میں یہ ایسی تحریک بن سکتی ہے جو بھٹو جیسے شخص کو بھی سمجھنے کا موقع نہ دے۔ یہ ٹپ آف دی آئس برگ کی طرح ہے۔ ہو سکتا ہے ن لیگ اور پیپلزپارٹی مولانا سے زیادہ متحرک ہوں۔ آزاد کشمیر کے لوگوں کی بے تابی اور پریشان حالی اپنی جگہ درست ہے کہ ان کے بہن بھائی اور عزیز مقبوضہ کشمیر میں بری طرح محصور ہیں اور نہ جانے کن حالوں ہیں۔ وہ ایل او سی کی طرف پیش قدمی کرنے کے لیے مجبور ہیں اور انہی کی نمائندگی جماعت اسلامی کر رہی ہے اور سراج الحق صاحب نے جو کچھ کہا ایک سچے مسلمان کے جذبے کا عکاس ہے۔ وہ جو ہمارے دوست عدیم ہاشمی نے کہا تھا: مصالحت نہ سکھا جبر نارسا سے مجھے میں سربکف ہوں لڑا دے کسی بلا سے مجھے ہمیں تو سچ مچ بلائوں نے گھیرا ہوا ہے۔ امریکہ کی ثالثی سے لے کر صبروتحمل کی تلقین تک سب کچھ ایک سازش ہی تو ہے۔ پہل کون کرے گا۔ پہل کرنے کی بھارت کو کیا ضرورت ہے۔ وہ تو جارح ہیں۔ ہماری شہ رگ پنجۂ ہنود میں ہے اور ہمیں چیخنے چلانے کی حد تک آزادی ملی تو ہم خوش ہو گئے۔ عصا نہ ہو تو کلیمی ہے کارِ بے بنیاد مگر کیا کریں کہ ان کے پہلو سے جہاں یدبیضا نکلنا تھا، وہاں کاسہ نکل آیا۔ جنہوں نے اس ملک کو اس حال تک پہنچایا وہ بھی تو محفوظ ہیں اور نظام کی تباہی کے منتظر ہیں۔ ان کا تو کچھ نہیں بگڑا کہ ان کی لوٹی ہوئی دولت کی ایک پائی بھی ملک میں نہیں آئی جبکہ غریب پائی پائی کا محتاج ہو گیا۔ اس کے پاس تو دوائی کے پیسے نہیں۔ جنگیں تو عوام کے سر پر لڑی جاتی ہیں۔ 65ء کی جنگ کسے یاد نہیں بلکہ 71کی جنگ بھی کہ عوام نے اپنے فوجی بھائیوں کے لیے امداد کے ڈھیر لگا دیئے تھے۔ اب تو کالجوں میں NCCتک قصۂ پارینہ ہو چکی۔ہمارے مزاج ہی بدل چکے ہیں: وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات ہمیں تو رفتہ کا آموختہ بھی بھول چکا: فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی خیر،ہو رہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا۔ عمران خان صاحب چین کے دورے پر جا چکے ہیں۔ راوی بھی سب چین لکھ دے گا۔ ویسے میں سوچتا ہوں کہ عمران خان جائے تو کدھر کو جائے، جن پر بھی وہ تکیہ کرتا ہے وہ پتے ہوا دینے لگتے ہیں۔ ایک پولیس کا محکمہ ہی حکومت کے قابو میںنہیں آ رہا حالانکہ ان کے ظلم سے کتنی بار چشم پوشی کی گئی۔ جماعت اسلامی اپنی جگہ درست ہے اس کے خلوص میں ذرا سا بھی شک نہیں کہ وہ عوامی خدمت میں ہمیشہ پیش پیش رہتے ہیں۔دوسری بات یہ کہ ان کے جتنے بھی اراکین یا کارکنان حکومتی ذمہ داریوں میں رہے تو کسی ایک پر بھی کرپشن کا ایک کیس نہیں۔ ان کی اپنی کمزوریاں ہیں کہ استعمال ہوتے آئے ہیں۔ وضاحت کی ضرورت نہیں۔ وہ اپنی خامی مانتے بھی ہیں انہوں نے کشمیر کا مسئلہ اٹھایا ہے تو یہ ان کا دینی فریضہ ہے۔ کشمیر کی آزادی کے لیے ان کا کافی رول ہے۔ اب بھی وہاں کے محصور اور پریشان حال کشمیریوں کو کچھ نہ کچھ امداد انہی کے حوالے سے پہنچ رہی ہے۔ بہتر یہ ہوتا کہ جنگ کے حوالے سے اے پی سی بلا کر سب کو اعتماد میں لیا جائے ؎ دیکھ لینا کہ یہی وقت نہ ہو چلنے کا آپ کہتے ہیں تو پل بھر کو ٹھہر جاتے ہیں