مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج نے نام نہاد سرچ آپریشن کے دوران مزید 4کشمیری نوجوانوں کو شہید کر دیا جبکہ تشدد کے باعث 10کشمیری زخمی ہو گئے ہیں ۔دوسری جانب آزاد کشمیر کے صدر سردار مسعود خان نے کہا ہے کہ بھارت مقبوضہ کشمیر میں آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنے کے لیے ریاستی دہشت گردی اور طاقت کا بے جا استعمال کر رہا ہے ۔اقوام متحدہ فوری مداخلت کرتے ہوئے بھارت کو اس مذموم حرکت سے باز رکھے۔ مقبوضہ کشمیر پاکستان اور بھارت کے مابین ایک متنازعہ علاقہ ہے‘بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے کشمیر کو پاکستان کی شہہ رگ قرار دیا تھا جبکہ بھارت اسے اپنا اٹوٹ انگ کہتا ہے۔ کشمیری عوام اقوام متحدہ کے اعلان کے مطابق حق خود ارادیت چاہتے ہیں لیکن بھارت 7لاکھ افواج کے ذریعے ان کے حقوق غضب کئے ہوئے ہے۔ آئے روز کشمیریوں کا قتل عام ان کی صدائے حق دبانے کی کوشش ہے۔ بھارت کسی نہ کسی طرح کشمیر میں ہندو اکثریت ثابت کر کے دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش میں ہے کہ مقبوضہ وادی میں مسلمان نہیں بلکہ ہندو زیادہ رہتے ہیں۔ حالانکہ 1927ء میں پنڈت لیڈر شنکر لال کول اور جموں میں ڈوگرہ سبھا کی ایما پر ہی مہاراجہ ہری سنگھ نے قانون بنایا تھا جس کی رو سے کوئی بھی غیر ریاستی شخص ریاستی حکومت میں ملازمت کا حقدار ہو گا نہ ہی غیر منقولہ جائیداد رکھنے کا مجاز ہو گا۔مئی 1947ء میں آر ایس ایس کی ایما پر ہی ہندو مہا سبھا کی ورکنگ کمیٹی نے جموں میں بلائے گئے ورکنگ کمیٹی کے اجلاس میں ایک قرار دادمیں آزاد ریاست جموں و کشمیر کی حمایت کی تھی لیکن 70سال کے بعد ہندو دہشت گرد تنظیم آر ایس ایس سے وابستہ ایک تھنک ٹینک نے بھارتی سپریم کورٹ میں رٹ دائر کی جس میں مقبوضہ وادی کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے لیے آئین کی شق35 Aکو معطل کرنے کی استدعا کی گئی۔ طرفہ تماشہ یہ ہے کہ مرکزی مودی حکومت جو آئین کی محافظ اور نگران ہے اس نے سپریم کورٹ میں آئین کی اس شق کا دفاع کرنے کی بجائے غیر جانبدار رہنے کا فیصلہ کیاہے، بالفرض اگر عدلیہ اس شق کو منسوخ کرتی ہے تو مودی حکومت دنیا کو یہ باور کرائے گی کہ یہ آزاد عدلیہ کا معاملہ ہے حکومت کا اس کے ساتھ لینا دینا نہیں ہے۔ حالانکہ بھارتی وزیر خزانہ ارون جیٹلی کچھ عرصہ قبل برملا اس بات کا اظہار کر چکے ہیں کہ کشمیر کا واحد مسئلہ مسلم اکثریتی کردار ہے۔ خصوصی پوزیشن نے اس کو مزید پیچیدہ بنا رکھا ہے اس بنا پر کشمیر میںترقی نہیں ہو رہی ۔ کیونکہ بھارت کے دیگر علاقوں سے آ کر لوگ یہاں آباد نہیں ہوسکتے اسی بنا پر سرمایہ کاری بھی رُکی ہوئی ہے۔در حقیقت بھارت ایسے ڈھونگ ایک عرصے سے رچا رہا ہے۔ دسمبر 2014ء کا انتخابات جیت کر مودی سرکار نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کا اعلان کیا تھا لیکن مقبوضہ کشمیر کے عوام نے مودی کے اس خواب کو پورا نہ ہونے دیا اور عام انتخابات میں بی جے پی کو شکست ہوئی۔ جب پی ڈی پی اور بی جے پی نے مل کر اقتدار سنبھالنے کا اعلان کیا تو تب یہ طے ہوا تھا کہ بی جے پی ہندوستانی آئین کی دفعہ 370کے تحت کشمیر کو دیے گئے خصوصی اختیارات موضوع بحث نہیں لائے گی بظاہر یہ وعدہ ایفاہوا مگر مودی سرکار نے پس پردہ رہ کر آر ایس ایس کے ذریعے سازشیں کرنا شروع کر دی ہیں۔ 6اگست 2018 ء کو ایک جج کی غیر حاضری کی وجہ سے کیس کی مزید سماعت 27اگست تک ملتوی کر دی گئی ہے۔ جبکہ کشمیری عوام اس بھارتی غنڈہ گردی پر سراپا احتجاج ہیں۔ اس شق کی منسوخی کے بعد غیر ریاستی باشندوں کو ریاست میں نوکری کرنے‘ ووٹ دینے اور غیر منقولہ جائیداد خرید نے کا حق مل جائے گا ۔ اس لحاظ سے شق A35کا خاتمہ دفعہ 370کے خاتمے سے زیادہ خطرناک ہو گا۔ اسی طرح کی شقیں بھارت کے دیگر علاقوں ناگا لینڈ‘ میزورم ‘ارونا چل پردیش کو خصوصی اور منفرد حیثیت دیتی ہیں لیکن بھارت ان علاقوں کے بارے خاموش ہے۔ مقبوضہ وادی کے عوام سراپا احتجاج ہیں۔ حریت رہنما بھی عالمی برادری کی توجہ بھارت کے اس خوفناک منصوبے کی جانب دلا رہے ہیںلیکن نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی اس پر خاموش ہیں ۔دراصل ان کا بھی فرض بنتا ہے کہ اپنے ووٹروں کے حقوق کی جنگ اسمبلی کے اندر اور باہر لڑیں۔ ان دونوں سیاسی جماعتوں کو بھی اس قانون کے خاتمے پر سیاسی نقصان ہو گا۔ لہٰذا انہیں بھی خواب غفلت سے بیدار ہو کر عوام کے شانہ بشانہ احتجاج میں شریک ہونا چاہیے اگر اب وہ خاموش تماشائی کا کردار ادا کرتے رہے تو پھر جیسے فلسطین میں اسرائیلی یہودی بستیوں کی بستیاں تعمیر کر کے ان کے مفادات کو زک پہنچا رہا ہے، بھارت اس سے چار قدم آگے بڑھ کر ہندوئوں کی آباد کاری شروع کرے گا۔ فلسطینی علاقوں پر قبضے اور یہودیوں کی آباد کاری پر عرب ممالک نے مجرمانہ خاموشی اختیار کیے رکھی جس کا خمیازہ آج پورا عالم اسلام بھگت رہا ہے جبکہ ایسی ہی غفلت کا مظاہرہ پورا عالم اسلام کشمیر کے معاملے پر کر رہا ہے ۔او آئی سی اور عرب لیگ سمیت 57اسلامی ممالک میں سے کسی ایک ملک نے بھی بھارت کو کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کی کوششوں پر نہیں ٹوکا۔ اقوام متحدہ، یورپی یونین‘ امریکہ اور انسانی حقوق کی تنظیمیں اس پر خاموش ہیں جبکہ پاکستان بھی عالمی سطح پر کوئی تحریک چلاتا نظر نہیں آ رہا ہے۔ 21اپریل 1948ء کو برطانیہ ‘ بلجیم‘کینیڈا، امریکہ اور کولمبیا کی قرار داد پر اقوام متحدہ نے استصواب رائے کے لیے منتظم مقرر کرنے کی منظور دی لیکن اقوام متحدہ نے آج تک استصواب رائے کے لیے کوئی نمائندہ مقرر نہیںکیا جس بنا پر مقبوضہ کشمیر کے مسائل جوں کے توں ہیں۔ اقوام متحدہ مسئلہ کشمیر پر اپنی ذمہ داری پورا کرتا نظر نہیں آ رہی۔70سال سے ایک مسئلہ سلامتی کونسل میں موجود ہے لیکن مسلسل تساہل اور غفلت برت کر اسے لٹکایا جا رہا ہے جبکہ سوڈان اور مشرقی تیمور کے مسئلے فلسطین اور مقبوضہ کشمیرسے بعد میں اقوام متحدہ کے پاس آئے اور حل پہلے ہو گئے۔ اس کا مطلب ہے کہ جو مسائل یہودی اور عیسائی لوگوں کے متعلق ہوں اقوام متحدہ ا سے ترجیح بنیادوں پر حل کرتا ہے اور مسلمانوں کے متعلق مسائل کو نظر انداز کر کے انہیں ظلم و ستم سہنے پر مجبور کرتا رہتاہے۔ مشرقی تیمور اور سوڈان کے ساتھ مقبوضہ کشمیر کی مماثلث پائی جاتی ہے ان دونوں ممالک میں جس طرح انسانیت کا قتل ہوا ویسا ہی قتل مقبوضہ کشمیر میں ہو رہا ہے۔ بھارت انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کر رہا ہے جبکہ عالمی برادری اس جانب توجہ کرنے کو تیار ہی نہیں۔ پاکستان مقبوضہ کشمیر کے عوام کی آواز کو عالمی سطح پر اٹھائے اور اقوام متحدہ کے ذریعے بھارت کو کشمیریوں کی خصوصی حیثیت ختم کرنے سے روکے،کیونکہ اس سے خطے میں مزید انتشارپیدا ہو گا ۔