سید عطاء اللہ شاہ بخاری، اپنی طرز کے ایک ہی آدمی تھے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ میری آدھی عْمر ریل اور آدھی جیل میں گزر گئی۔ ریل کا قصہ یہ ہے کہ شاہ جی آج کلکتے میں، ہزاروں کے مجمع سے خطاب کر رہے ہیں۔ کَل ٹرین میں بیٹھے، دلی کی طرف رواں ہیں۔ دو دن بعد، لاہور کے موچی دروازے میں تقریر ہو رہی ہے۔ اور اگلے روز، یو پی کے دور افتادہ علاقے میں کسی فتنے کو دبانے کے لیے، انہیں بلایا گیا ہے۔ غرض ع منزلیں گَرد کے مانند اڑی جاتی تھیں شاہ جی کا زاد ِراہ، جذبۂ آزادی تھا۔ اسی نے انہیں، زمین کا گز بنائے رکھا۔ رہی جیل، تو اس زمانے میں، وہ ان کا دوسرا نہیں، پہلا گھر تھا! کسی اْستاد نے کہا ہے ؎ ہر غنچہ کہ گْل گشت، دگر غنچہ نہ گردد قربان لب ِ یار، گہی غنچہ، گہی گْل شاہ جی کو بھی حق تعالٰی نے، زبان پر وہ قدرت دی تھی کہ کبھی غنچہ اور کبھی گْل دکھا کر، لوگوں کے دل پرچا لیتے۔ ہاں یہ اَور بات کہ زبان سے، ایک کے لیے پھول جھڑتے، تو دوسرے کے لیے کانٹے نکلتے! جیل پہنچنے کا سامان، کتنی سہولت سے ہوتا تھا، وہ بھی سْن لیجیے۔ خطاب کرتے کرتے، شاہ جی دونوں ہاتھ اْٹھا کر، یہ نعرہ لگاتے اور لگواتے بھی کہ "لعنت بر پدر ِفرنگ"! ان کی "انگریز دانی"، بر سر ِجلسہ کہواتی تھی کہ بہت دْور، کسی سمندر کی تہہ میں، دو مچھلیاں بھی کہیں لڑتی ہیں، تو اس میں بھی انگریزوں کی سازش ہے! سو نتیجہ معلوم! شاہ جی کا انگریزوں سے اتنا بدک جانا اور بگڑ جانا، بے جا بھی نہیں تھا۔ بعض قوموں کا دماغ تعمیر اور بعض کا تخریب میں زیادہ چلتا ہے! انگریزوں کی بھی تخریب کی کہانیاں، ساری دنیا میں بکھری ہوئی ہیں۔ فتنے کے بیج بونا، اَوروں سے بھی ہو سکتا ہے۔ لیکن ایک بیج میں پوری فصل دیکھ لینا، یہ کمال انگریزوں کا ہے! حد یہ کہ جن کا یہ ناس مارتے ہیں، وہ بھی ان کے نام کی مالا جپتے ہیں! ہر بگولہ، تھینکس میں مصروف صبح و شام ہے اس طرح برباد کرنا، آپ ہی کا کام ہے! سامنے کی چیز ہے کہ ان کی تعلیم میں ہندوستانیوں کا بھلا ہوتا تو کبھی نہ دیتے۔ اور اگر بھلائی مقصود تھی، تو آزادی کیوں نہیں دیتے تھے؟ مرعوبیت کی عینک، آنکھوں پر آج بھی جمی ہوئی ہے۔ کیسے نہ ہو؟ ع یہ برکتیں تمہاری تعلیم کی بلا ہیں خواتین کے عالمی دن کے مناظر ؟ ع مارا "ترقیوں" نے، اللہ کی دْہائی! دوسری جنگ ِعظیم میں، خوب پِٹنے کے بعد، انگریز کو یہاں سے بھی رخصت ہونا تھا۔ ہر چند کہ چرچل چیختا رِہ گیا کہ اسے موخر کرنا چاہیے مگر ہونی ہو کر رہی۔ مسلمانوں اور ہندوئوں کے درمیان، اس درجہ بے اعتمادی تھی کہ انہیں، ان کے حال پر چھوڑ دینا، بظاہر عین "انگریزیت" ہوتی۔ انگریز اپنے گھر سدھارتا اور یہ دونوں آپس میں لڑتے ہی رہتے۔ لیکن اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلنا تھا کہ ہندوستان کے دو چار نہیں، بیسیوں ٹکڑے ہو جاتے۔ پھر ان چھوٹے چھوٹے ملکوں میں، لڑائی کا امکان بھی کم رہتا اور انہیں قابو میں رکھنا بھی مشکل ہوتا۔ انگریز کے لیے بہترین راہ یہ ہوئی کہ تقسیم کی جائے، مگر ایسی ٹیڑھی کہ دونوں ملک آپس میں لڑتے ہی رہیں۔ سو کشمیر، حیدرآباد دکن اور جونا گڑھ وغیرہ کا تصفیہ، جان بوجھ کر نہیں کیا گیا۔ بنگال اور پنجاب کی تقسیم میں دھاندلی کی گئی۔ بلکہ اب تو یہ شواہد بھی سامنے آ رہے ہیں کہ تقسیم کے فورا بعد ہونے والے فسادات، انگریز انتظامیہ کے منصوبہ کے عین مطابق ہوئے! اب حال یہ ہے کہ کشمیر کی علیحدگی، بھارت کے لیے وہی صورت ِحال پیدا کر دے گی، جس کا ذکر اوپر گْزر چکا ہے۔ یعنی پنجاب سمیت، کئی نئے ملک بن کر رہیں گے۔ کشمیر کی آزادی، دراصل بھارت کا خاتمہ ہے! اسے ہر قیمت پر یہ قبضہ، برقرار رکھنا ہے۔ مْلک ہو مسلمانوں کا اور ایٹمی طاقت بھی، تو بھارت کا سب سے بڑا اور فطری مددگار اسرائیل ہی کو ہونا تھا اور ہے بھی۔ ان کے گٹھ جوڑ کی تفصیل بھی، ان شاء اللہ اگلی قسط میں آئے گی۔ زیر ِنظر تحریر کو، تمہیدی کالم جانیے۔ طبعاً، میں ہر ایک شے میں، سازش کے آثار دیکھنے والوں میں سے نہیں ہوں۔ مگر دیکھی ہوئی مکھی نگلنا اور ایک سوراخ سے دوبارہ ڈسے جانا بھی، الحمدللہ میرا شیوہ نہیں۔ قْرب ِقیامت کی نشانیاں بھی، سچ یہ ہے کہ مجھے زیادہ معلوم نہیں۔ بلکہ یہ قول ِفیصل، مجھے ہمیشہ یاد رہتا ہے کہ قیامت کب آئے گی، کوئی نہیں جانتا۔ نہ ہر یہودی کو دیکھ کر، دل میں کراہت ہی پیدا ہوتی ہے۔ بلکہ ان کی توحید پرستی اور اپنے مذہب سے سچا لگائو، ستائش کے لائق ہیں۔ یہودی خدا کی مخلوق ہیں، اہل ِکتاب ہیں، پھر سارے یہودیوں سے نفرت، کیوںکر ہو؟ شیخ سعدی کہتے ہیں اے کریمی! کہ از خزانہ ٔ غیب گبر و ترسا، وظیفہ خورداری دوستان را، کْجا کْنی محروم تو، کہ با دشمنان، نظر داری ‘‘اے داتا! اپنے نہ ماننے کا بھی، بے گمان اور مستقل رزق، تْو نے مقرر کر رکھا ہے۔ ماننے والوں کو تو کیوں محروم رکھے گا، جب کہ اپنا شریک ٹھہرانے والوں کو بھی تْو، عطا کرتا ہے!’’ لیکن یہودی یہودی میں بھی فرق ہے۔ دنیا بھر میں سب سے شرارتی قوم، وہ یہودی ہیں، جو "اشکے نازی" کہلاتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں، جو نسلی اعتبار سے یہودی نہیں ہیں۔ یورپ اور مغربی ممالک میں، ان کے آباء نے، بوجوہ یہودیت اختیار کر لی تھی۔ اسرائیل تو خیر، امریکہ میں ان کا اختیار اور اقتدار، کتنا بڑھ چکا ہے۔ اس کی چند مثالیں دیکھیے۔ یہودی، امریکی آبادی میں بمشکل ڈیڑھ فیصد ہیں۔ مگر کانگرس میں کھْلے ہوئے یہودیوں کی تعداد، آٹھ فیصد سے زیادہ ہے۔ اس میں اگر انہیں بھی شامل کر لیا جائے، جن کی شادیاں یہودیوں سے ہوئی ہیں، تو یہ تعداد کہیں زیادہ ہو جاتی ہے۔ اس سے بھی آگے کی کہانی یہ ہے کہ اسرائیلی لابیوں، خصوصا "اے پَیک" نے، اس بات کو یقینی بنا دیا ہے کہ اسرائیل کے خلاف، ایک حرف بھی کہنے والے کو، مردْود بنا دیا جائے۔ نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ ریاستی سطح پر، ایسے قوانین منظور کرا لیے گئے ہیں، جن کے مطابق، الیکشن لڑنے کی بنیادی شرائط میں، یہ بھی شامل ہے کہ اسرائیل مخالف کسی تحریک کی حمایت نہیں کی جائے گی۔ ہر سال اسرائیل کو، اربوں ڈالر کی امداد دی جاتی ہے۔ اس امداد سے، فلسطینیوں کا جو حشر کیا جا رہا ہے، وہ میں اسرائیل اور فلسطین، دونوں میں دیکھ چکا ہوں۔ کِس کے منہ میں دانت ہیں جو اس "امداد" کا حساب مانگ سکے؟ یہ ساری رقم ع تو مشق ِناز کر، خون ِدو عالم میری گردن پر کی مَد میں جا رہی ہے۔