بھارت کے 5اگست والے اقدامات کے بعد سے پاکستانیوں کے ذہن میں متعدد سوالات گردش کر رہے ہیں۔ ان میں سے پہلا سوال بھارت کے ماضی اور حال کے رویے سے متعلق ہے۔ یعنی بھارت گزشتہ 72سال سے کشمیر کے معاملے پر ٹال مٹول سے کام لے رہا تھا اور بالآخر اس نے آخری قدم اٹھا لیا اور کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرتے ہوئے اسے بھارت کا حصہ بنانے کا اعلان کر دیا۔ گویا اس نے اقوام متحدہ کے فورم پر کئے گئے وعدوں اور گیارہ قرار دادوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کشمیر کو باقاعدہ بھارت کا حصہ قرار دیا۔ اس طرح کے طرزعمل میں اسے امریکہ کی درپردہ پشت پناہی بھی حاصل ہے۔ ظاہر ہے کہ جب فلسطین کے مسئلے پر اقوام متحدہ اسرائیل کا کچھ نہیں بگاڑ سکی تو پھر بھارت کو ڈرنے کی کیا ضرورت ہے؟ دوسرا سوال ہے کہ ان حالات میں اقوام متحدہ اور اقوام عالم سے کیسے مدد کی توقع رکھی جا سکتی ہے؟ بد قسمتی سے چین‘ ترکی ‘ ایران اور ملیشیا کے سوا کسی مسلم ملک نے بھی کشمیر کے مسئلے پر دو ٹوک الفاظ میں پاکستان کی حمایت نہیں کی۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ بدلے ہوئے حالات میں ہر ملک کی خارجہ پالیسی اس کے قومی مفادات کے تابع ہے۔ ایک بڑی منڈی اور ابھرتی ہوئی معیشت ہونے کے ناطے بھارت کو جو اہمیت حاصل ہے اس کا انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اسی لئے بیشتر مسلم ممالک نے بھی کشمیر کو بھارت کا اندرونی معاملہ قرار دیا یا زیادہ سے زیادہ پاکستان اور بھارت کو باہمی مذاکرات سے یہ مسئلہ حل کرنے کی تلقین کی۔ ہمارے بیشتر کالم نگار تاحال قرون وسطیٰ کے ماحول اور نسیم حجازی کی متاثر کن تحریروں سے باہر نہیں نکل پارہے جب کہ زمانہ کہیں کا کہیں نکل چکا ہے۔ تیسرا عوامی سوال ہے کہ پاکستان نے ابھی تک مقبوضہ کشمیر میں اپنی افواج کیوں داخل نہیں کر دیں؟ اس سوال کا نصف جواب تو ’’عالمی ماحول‘‘ میں مضمر ہے یعنی دنیا پاکستان کے موقف کو درست سمجھنے کے باوجود ہمارا ساتھ دینے کو تیارنہیں کیونکہ ان کے معاشی مفادات بھارت کی بڑی منڈی اور معیشت سے وابستہ ہیں۔ ظاہر ہے کہ پاکستان تنہا تمام دنیا سے تو جنگ نہیں کر سکتا۔ اس کے علاوہ ہماری کمزور معیشت جنگ کرنے کی متحمل ہی نہیں ہو سکتی۔ جب ہمارا کرنٹ اکائونٹ خسارہ ہی قابو میں نہیں آ رہا تو جنگ کے اخراجات کہاں سے پورے ہوں گے؟ ادھر جنگ کی ترغیب دینے والے حضرات حکومت کو ٹیکس دینے کو بھی تیار نہیں۔ پھر یہ بھی مت بھولئے کہ نائن الیون کے خودکش حملے کا سب سے بڑا فائدہ بھارت کو ہوا کیونکہ اس حملے کی آڑ میں تمام جہادی تنظیموں کو بھی دہشت گرد قرار دے دیا گیا اور کشمیر اور فلسطین کی جنگ آزادی کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔ اسی لئے پاکستان کو بھی ایف اے ٹی ایف کی گرے کیٹیگری کی نگہداشت کی فہرست میں شامل کر لیا گیا۔ اگر پاکستان کو خدانخواستہ بلیک لسٹ میں شامل کر لیا گیا تو دنیا کے تمام ممالک ہمارے ساتھ تجارتی سرگرمیاں ختم کرنے پر مجبورہوں گے۔ اس صورت میں نہ تو ہمیں پٹرول یا گیس ملے گی نہ دفاعی سازو سامان اور نہ ہی گولہ بارود بنانے کے دیگر لوازمات۔ ان حالات میں بہت سے جذباتی اصحاب علامہ اقبال کا یہ مصرع بے موقع دہراتے ہیںکہ ’’مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی‘‘ وہ بھول جاتے ہیں کہ علامہ نے یہ بھی کہا تھا کہ ؎ ’’ہو صداقت کے لئے جس دل میں مرنے کی تڑپ پہلے اپنے پیکر خاکی میں جاں پیدا کرے‘‘ اگر ہم نے جذباتیت سے ہٹ کر سنجیدہ صحافت کرنی ہے تو پھر ہمیں خود کو موجودہ عالمی ماحول سے ہم آہنگ کرنا ہو گا۔ کرنے کا کام تو یہی ہے ’’مگر اس میں پڑتی ہے محنت زیادہ‘‘ یہ دانشورہمیں بتائیں کہ شمشیرو سناں کا دورو تو گزر گیا۔ آج ٹینک ‘ توپ اور جہاز کے بغیر روایتی جنگ کیسے لڑی جائے؟ حقائق سے لاعلم ایک اور طبقے کا سوال ہے کہ ہم نے ایٹم بم کیوں بنا رکھا ہے۔ ہم بھارت پر ایٹم بم کیوں نہیں گرا دیتے؟ ایسے لوگوں کو نہ تو ایٹم بم کی تباہ کاریوں کا علم ہے نہ مابعد اثرات کا اور نہ ہی جوابی حملے کے مضمرات کا۔ ایٹمی ہتھیار دشمن ملک کو اپنی سرحدوں سے دور رکھنے کا باعث بنتے ہیں۔ ان کا سب سے بڑا فائدہ ان کی ’’دہشت‘‘ ہے تاکہ اپنی تباہی کے خوف کی بنا پر دشمن مہم جوئی کی جرأت نہ کرے۔ پاکستان اور بھارت میں سے اگر کسی نے ایٹم بم استعمال کرنے کی حماقت کی تو اس پر بھی یقینا جوابی ایٹمی حملہ ہو گا اور دونوں ممالک نیست و نابود ہو جائیں گے۔ البتہ وزیر اعظم عمران خان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے یہ واضح کر دیا ہے کہ خدائے واحد پر ایمان رکھتے ہوئے اگر پاکستان کی سلامتی کو خطرہ لاحق ہوا تو گھٹنے ٹیکنے کے بجائے میں آخری حد تک جائیوں گا۔ چاہے پھر کچھ بھی ہو جائے۔ یعنی اس صورت میں جوہری ہتھیاروں کا استعمال بعیداز قیاس نہیں، لہٰذا قوام عالم دو ایٹمی ممالک میں ٹکرائو سے بچنے کے لئے مسئلہ کشمیر جلدازجلد حل کرائیں۔ مندرجہ بالا سطور سے اخذ ہونے والے نتائج کا خلاصہ یہ ہے کہ 1۔ جنگ مسئلہ کشمیر کا حل نہیں اور نہ ہی ہم جنگ کے متحمل ہو سکتے ہیں۔2۔ مسلم امہ کا تصور اب ماند پڑ چکا ہے۔ تمام ممالک اب قومی ریاستیں ہیں جن کے معاشی مفادات دیگر عوامل پر حاوی ہیں۔3۔ قومی مقاصد حاصل کرنے کے لئے مستحکم معیشت کا قیام ناگزیر ہے۔4۔ جہادی تنظیموں کی مداخلت ہماری حکمت عملی اور کشمیری جدوجہد کے لئے باعث نقصان ہو گی۔5۔ کشمیریوں کو ادراک ہو گیا ہے کہ بھارت کے ہاتھوں ان کی موت تو مقدر ہوچکی ہے لہٰذا جب مرنا ہی ہے تو لڑ کر کیوں نہ مریں۔ یہ جدوجہد جاری رہنی چاہیے۔6۔ بھارت کی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں سے اقوام عالم کو آگاہ کرنے کی مہم زور و شور سے جاری رہنی چاہیے اور سفارتی سطح پر پوری تند ہی سے بھارت کی انسانیت دشمن پالیسیوں کو اجاگر کرتے رہنا چاہیے۔ اس سلسلے میں پیشہ ور لابی کرنے والی ایجنسیوں کی خدمات بھی حاصل کی جا سکتی ہیں۔ موجودہ حالات میں کشمیریوں کے جذبات بہت مشتعل ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ اب وہ لڑنے مرنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ اگر انہوں نے بھارت کے خلاف اپنی جدوجہد جاری رکھی تو اقوام عالم کو نوٹس لینا ہی پڑے گا۔ اس صورت میں اسی لاکھ کشمیریوںکو دہشت گرد قرار دینا ناممکن ہو جائے گابلکہ اسے بھارتی ظلم و ستم سے نجات پانے کے لئے جنگ آزادی سمجھنے پر دنیا مجبور ہو جائے گی اور سکیورٹی کونسل کو کشمیر کو حق خود ارادی دلانا ہی پڑے گا۔ آخر میں چند حروف داخلی حالات کے متعلق ذوالفقار علی بھٹو نے بھی خارجہ امور میں بہت سی کامیابیاں حاصل کی تھیں لیکن وہ داخلی طور پر ناکام رہے۔ ان کی پالیسیوں نے ملکی صنعت کا جنازہ نکال دیا اور انہوں نے اپنے حریفوں سے مذاکرات کرنے کے بجائے ایف ایس ایف جیسی متوازی تنظیم کے ذریعے ظلم و ستم کا بازار گرم کر دیا اور پھر ان کا جو انجام ہوا وہ باعث عبرت ہے۔ عمران خان بھی ابھی تک کسی داخلی کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو سکے۔ معیشت کی حالت دگرگوں ہے۔ صنعتیں روبہ زوال ہیں اور مہنگائی برداشت کی حدود عبور کر چکی ہے۔ لیکن کچھ بھی ہوتا دکھائی نہیں دے رہا اور تو اور محکمہ صنعت کے تحت اور ان کے پیمائشوں کا ادارہ ہے جو ایوب خان نے متعارف کرایا تھا۔ اس محکمے کا کام باقاعدگی سے اوزان اور پیمائشوں کی جانچ پڑتال ہے تاکہ عوام کو قیمتوں سے قطع نظر کے بجائے سات سو گرام سبزی گوشت ‘ آٹا‘ دالیں‘ لیٹر کے بجائے سات آٹھ سو ملی لیٹر پٹرول اور دودھ اور ایک میٹر کپڑے کے بجائے آٹھ سو سینٹی میٹر کپڑا نہ ملے۔ یہ محکمہ آج بھی موجود ہے اور عملہ تنخواہیں پا رہا ہے لیکن کوئی اس سے کام نہیں لے رہا کیا حکومت اس عملے کو بازاروں میں جا کر کام کرنے کو بھی نہیں کہہ سکتی؟حکومت کوئی تو ایسا کام کرے جس میں عوام کی بہبود کا کوئی پہلو ہو۔