دوسری طرف ہندو شدت پسند لیڈروں نے بھی پورے ملک میںمہم شروع کرکے بڑے پیمانے پر ہندووں کو امرناتھ کی یاترا کیلئے راغب کرنا شروع کردیا۔ اتراکھنڈ کے چار دھام کی طرح امر ناتھ کو بھی سیا حت اور بھارت کی شدت پسند قومی سیاست کے ساتھ جوڑنے کی کوششیں کی گئیں۔ پروفیسر کول کے مطابق اگر اس علاقے میں اسی طرح ہزاروں یاتریوں کی آمدورفت کا سلسلہ جاری رہا تو ماحولیات اور گلیشیر کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔لیکن اس مشورے پر کان دھرنے کے بجائے بھارتی حکومت زیادہ سے زیادہ یاتریوں کو بال تل کے راستے ہی امرناتھ بھیج رہی ہے۔ بھارتی حکومت نے ملک کے بیشتردریائوں اورندیوں کے منبع یعنی گنگا کے گلیشیرو ں کی حفاظت کے لئے متعدد اقدامات کئے ہیں لیکن وادی کشمیر اور پاکستان کو پانی فراہم کرنے والے سند ھ طاس گلیشیر کی تباہی پر وہ ذرا بھی فکر مند نہیںنظر آتی ہے۔ 2008ء میں ہی اتراکھنڈ صوبہ میں ماحولیات کے تحفط کیلئے وہاں کی اس وقت کی ہندو قوم پرست بی جے پی حکومت نے ایک حکم نامہ جاری کیا جس کی رو سے ہر روز صرف 250سیاح اور زائرین دریائے گنگا کے منبع گومکھ گلیشیر جا سکتے ہیں۔اس کا موازنہ اگر آپ سندھ طاس کو پانی فراہم کرنے والے کشمیر کے کلاہوئی گلیشیر کے ساتھ کریں تو وہاں ہر روز اوسطاً20ہزار افراد مئی اور اگست کے درمیان اسے روندتے ہوئے نظر آئیں گے۔ماہرین ماحولیات کہتے ہیں کہ ایسے وقت میں جب کہ دنیا موسمیاتی تبدیلیوںکی وجہ سے ایک نئی آفت سے دوچار ہونے والی ہے اور اس مصیبت کو ٹالنے کے لئے دنیا کے بیشتر ممالک پہاڑی علاقوں میں سیاحوں کی آمد کو ریگولیٹ کررہے ہیں، بھارت کو بھی چاہئے تھا کہ کشمیر کے قدرتی ماحول کو برقرار رکھنے کے لئے امرناتھ میں یاتریوں کی تعدادکو ریگولیٹ کرنے کی تجویز پر مذہبی نقطہ نگاہ کے بجائے سائنسی نقطہ نگاہ سے غور کرے۔ بھارت کے ایک اہم ادارے دی انرجی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (TERI) نے بھی اپنی ایک اسٹڈی میں دعویٰ کیا تھا کہ دریائے چناب کے طا س کے گلیشیروں میں 21فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ غیر سرکاری تنظیم ایکشن ایڈ نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ نجوان اکل گلیشیر تو پوری طرح پگھل چکا ہے۔ ماہرین کے مطابق تھجواسن، زوجیلا اور ناراناگ کے گلیشیر بھی بری طرح متاثر ہو چکے ہیں۔ امرناتھ مندر کے غار کے اوپر کا گلیشیر ، جس کی وجہ سے غار کے اندر برف کا شیو لنگ بنتا ہے، بھی تقریباً 100میٹر تک گھٹ چکا ہے۔ شمالی کشمیر کے سیاحتی مقام گلمرگ کے نزدیک افروئٹ گلیشیر کا وجود ہی ختم ہو چکا ہے۔ جبکہ ایک وقت یہ 400میٹر طویل ہوتا تھا۔ اسی طرح جنوبی کشمیر کے ناگی نند، ہانجی پورہ اور وندرنند کے گلیشیر بھی ختم ہو چکے ہیں۔50 سال قبل چناب طاس میں 8,000 مربع کلومیٹر کے قریب گلیشیر ہوتے تھے، جو اب صرف 4,100 مربع کلومیٹر تک رہ گئے ہیں۔ سیاچن گلیشیر پر فوجی سرگرمیوں کی وجہ سے اس کی کیا حالت ہو چکی ہوگی، اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ بھارت میں گلیشیروں کا ڈیٹا حاصل کرنا بھی خاصا مشکل ہے، کیونکہ یہ سرحدی علاقوں میں آتے ہیں اور وزارت دفاع و فوج ان علاقوں کے سروے کی اجازت نہیں دیتی ۔ مجھے یاد ہے کہ جے رام رمیش نے اپنی وزارت کے دوران گلیشیروں کے سروے اور ان کا ڈیٹا اکٹھا کرنے کا حکم صادر کیا تھا مگر وزارت دفاع نے محققین کو ان علاقوں تک رسائی دینے سے انکار کر دیا۔ اب بھی بھارت میں گلیشیروں کے حوالے سے معتبر ڈیٹا موجود نہیں ۔ گلیشیروں کے علاوہ کشمیر میں گھنا جنگلاتی رقبہ بھی 37فیصد سے گھٹ کر 11فیصد رہ گیا ہے۔ ایک نیوز ویب سائٹ Third Poleکے مطابق پہلگام کے علاقے میں گھنے جنگلات کا رقبہ جو 1961میں 191مربع کلومیٹر تھا، 2010میں 3.9مربع کلومیٹر ریکارڈ کیا گیا۔ اب تو یہ اور بھی سکڑ گیا ہوگا۔ اسی طرح پانی کے سب سے بڑے ذخیرہ جھیل ولر کی قسمت بھی کشمیریوں کی قسمت کی طرح سکڑ گئی ہے۔ اس کا رقبہ پچھلی تین دہائیوں میں 157مربع کلومیٹر سے گھٹ کر 86مربع کلومیٹر رہ گیا ہے۔ دریائے جہلم کو پانی فراہم کرنے والا یہ ایک بڑا سورس ہے۔ دہشت گردی ، فوجی کشیدگی یا سرحدی تنازعات ، قومی سلامتی کیلئے خطرات تو ہیں، مگر ایسا لگتا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلیاں ، خاص طور پر جب وہ جان بوجھ کر عمل میں لائی جاتی ہوں،سے اس سے بھی شدید خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ اس سے جنگوں سے بھی زیادہ افراد کی ہلاکت کا اندیشہ ہے۔ ویسے دونوں ممالک کو چاہئے کہ کم از کم اس معاملے میں ایک دوسرے کے ساتھ اشتراک کرکے خطے کو ماحولیاتی تبدیلی کے طوفان سے بچائیں۔ دوسرا طریقہ ہے کہ سارک تنظیم کے ذریعے کوئی میکانزم ترتیب دیا جائے۔ سفارتی مورخ رچرڈ اولمین نے قومی سلامتی کو درپیش خطرات کی تشریح پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہر وہ چیز جس سے عوامی زندگی یا اسکا معیار متاثر ہوتا ہے سلامتی کے زمرے میں آتا ہے۔ بھارت اور پاکستان کو چاہئے کہ گلاسگو کانفرنس کے موقع پر خطہ کشمیر کو ماحولیاتی تباہی سے بچانے اور اسکے جنگلات، گلیشیر اور پانی کے ذخائر کو بچانے کا عہد کریں۔ اگر یہ ناپید ہوجاتے ہیں توہمالیہ، ہندو کش اور پھر نشیب میں ایک بڑی آبادی دائوپر لگ سکتی ہے۔ یاد رہے کہ یہ خطرہ کسی ایٹمی جنگ سے کم نہیں ہے۔ ٭٭٭٭٭