مسلسل120ویں روز بھی مقبوضہ وادی کشمیر میںبھارتی فوجی محاصرہ جاری ہے۔محاصرے کے اس طویل دورانیے میں ظلم وجورکی وہ کونسی قسم ہے کہ جوقابض فوج کی طرف سے اسلامیان کشمیرپرآزمائی نہ گئی ہو۔ظلم وستم کے ساتھ ساتھ بھارت کشمیرکی(Demography)تبدیل کرنے کے لئے واضح طورپر کئی طرح کے ناپاک اقدام بھی اٹھارہاہے جن میں اسرائیلی طرزکاشرمناک منصوبہ بھی شامل ہے جس پروہ عمل درآمدکرچکاہے اوربدھ27نومبر2019کوکشمیری پنڈتوں’’کشمیری ہندوئوں‘‘ اور بھارتی ہندوئوںکی ایک مشترکہ تقریب سے تقریرکرتے ہوئے امریکی شہر نیویارک میں تعینات بھارتی قونصلیٹ جنرل سندیپ چکرورتی نے اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ نریندر مودی حکومت مقبوضہ کشمیر میں ہندوئوں کی آبادکاری کو یقینی بنانے کے لئے اسرائیل طرز کا ماڈل اپنائے گی۔ بھارتی قونصلیٹ جنرل کاکہناتھاکہ اگر اسرائیل فلسطینی علاقوں میں یہودیوں کو آباد کر سکتا ہے تو ہم بھی اس کی پیروی کر تے ہوئے کشمیر میں ہندوئوں کو بسا لیں گے۔ دراصل ہندو منصوبہ سازوں کی کھوپڑیوں میںیہ بات سما گئی ہے کہ کشمیرکی مسلمان آبادی کے شرح تناسب کوبدلے بغیر کوئی چارہ کارنہیں اس سے یہ مسئلہ ہمیشہ کے لئے ختم ہوجائے گا۔ سرزمین فلسطین پراسرائیل نے دنیاکے کونے کونے سے یہودیوں کولالاکر بسایا اور فلسطینیوں کو اقلیت میں بدلنے کے ناپاک منصوبے پرکام کرتارہا۔بھارت سمجھتاہے کہ جب کشمیرمیں فلسطین جیساماڈل اپنایاجائے گااوربھارت کے طول وعرض سے ہندئووں کولاکرکشمیرمیں بسایاجائے گاتو کشمیری مسلمانوں کواقلیت میں بدل دینے اورپھرانکی آوازدبانے کایہی کارگرطریقہ ہے جسے کشمیری مسلمان مکمل طورپرزیرہوسکیں گے۔ بھارت کے ناپاک منصوبوں کو بنظر غائر دیکھا جائے تو بات بالکل اور واضح طور سمجھ میں آجاتی ہے کہ کشمیری مسلمانوں کا بھارت سے جھگڑا یہ محض اختیارات اور انتظامی فیصلوں کا نہیں بلکہ یہ کشمیر کے نظریاتی اور تہذیبی تشخص کی لڑائی ہے۔ بھارتی منصوبہ سازوں اور تھینک ٹینکس نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ جب تک کشمیری مسلمان اپنی مسلمانیت پر فخر کر تے اور اپنی تہذیب، اپنے تشخص کی بحالی اور بقا پر اصرار کر تے ہیں تب تک کشمیر کی کشمکش ختم نہیں ہوسکتی کیونکہ کشمیریوں کے اجتماعی شعور میں ایک خلاء اور احساس محرومی ان کے اجتماعی شعور کے خلاف بڑھاوا دے رہی ہے کہ ان کی تاریخ اور تہذیب کے فطری دھارے دریائے جہلم کے ساتھ ساتھ پاکستان کی طرف چلتے اوربہتے ہیں نہ کہ ان دھاروں کا رخ دریائے ستلج کے ساتھ بھارت کی طرف ۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت کشمیر کی اسلامی تہذیب ، ثقافت ، تعلیم ، تشخص اور نظریاتی ہیت پر حملہ کر رہا ہے۔ امرناتھ یاتراکے ذریعے بھارت ریاست جموںوکشمیرمیں ہندو تشخص کو ابھار رہا ہے تا کہ یہ تاثر نمایاں ہو کہ کشمیر محض مسلم اکثریتی ریاست نہیں بلکہ کشمیریت کی گہری جڑیں ہندو ازم میں بھی پیوستہ ہیںاور ہندو ازم ریاست کا غالب عنصر ہے۔ اس کے مقابلے میں اسلامیان کشمیر1947 ء سے آج تک مسلسل انتہائی نا مساعد، مشکل اور کٹھن حالات میں بھی کشمیرکی اسلامی تہذیب و ثقافت اور تشخص کی محافظت کی اورکررہے ہیں۔ بھارتی جابرانہ قبضے اور جارحانہ تسلط کے باوجود وہ جزیرے کی مانند الگ تھلگ رہے، اپنے تشخص اور تہذیب کو بچانے کے لیے انہوں نے اس طرح کی تنہائی کو بخوشی قبول کیے رکھا۔ اسلامیانِ جموں و کشمیر کے نسل کشی کے منصوبہ ساز، قاتلین ہندمیںسب سے بڑے قاتل جگ موہن نے 1990ء میں جب وادی کشمیر سے (2لاکھ) کشمیر ی پنڈتوں’’کشمیری ہندوئوں‘‘ کوجموں دہلی اوربھارت کی مختلف ریاستوںمیں منتقل کردیااس کے پس منظرمیں یہی فلسفہ تھاکہ کشمیر ی پنڈت’’کشمیری ہندو‘‘ جموں،دہلی اوردیگربھارتی ریاستوں میں کپڑے پھاڑتے، روتے ،بلکتے ،چیختے اورچلاتے ہوئے بھارت ہندئووں سے فریادکناں ہوںگے کہ کشمیری مسلمانوں نے ان پرمظالم ڈھائے اورانہیں ان کے گھروں سے بے دخل ہونے پر مجبورکر دیا اوراس طرح کی فریادسن کربھارت کے اطراف واکناف کے ہندوکشمیر ی پنڈتوں’’کشمیری ہندوئوں‘‘ کی ڈھارس بندھائیں گے اوران سے وعدہ کریں گے کہ وقت آنے پروہ انہیں ان کے گھروں کولوٹائیں گے اورخودبھی ان کے ساتھ جاکران کی حفاظت کے لئے انکے گھروں کے سامنے ارض کشمیرمیں اپناگھربسائیں گے ۔ ان تمام ناپاک سازشوں کا واحد مقصدیہ تھاکہ کشمیر کے اسلامی تشخص کو مٹاکراسے کشمیریوں کے لیے فلسطین بنا دیا جائے یعنی کشمیر کو بر صغیر کا فلسطین بنا دیا جائے گا۔یہ کشمیریوں کو بھارتی بنانے کا وہ دیرینہ ہندو خواب تھا جو1947ء سے پورا نہ ہو سکا تھا۔لیکن جب اسلامیان کشمیرنے ہندوبھارت کوللکارا اور(Quit Kashmir Movement) شروع ہوئی تو ارض کشمیر بھارتی ہندو باشندوں کو دئیے جانے اور انہیں منتقل کرنے کے نامراد منصوبے تیار ہوئے اور اس سلسلے میں سب سے اہم کام یہ ہواکہ جب کشمیرکی سرزمین پر’’ امر ناتھ شرائن بورڈ ‘‘کا قیام عمل میں لایاگیااور 2006ء میں اس ہندوبورڈ کو800کنال اراضی دے دی گئی تاکہ وہ کشمیرمیں ایک ’’ہندوکشمیر‘‘کابیس بناسکے ۔یہ اراضی کشمیرکے ضلع گاندربل میں ہندوئوں کے امر ناتھ شرائن بورڈ کومنتقل کی گئی جس پراسلامیان کشمیرنے شدیداحتجاج کیااورانہوں نے اس فیصلے کوماننے سے صاف انکارکردیا۔ اس کے بعد 2011ء میںکشمیر ی مسلمانوں کی آبادی کاشرح تناسب گھٹانے کے لیے مردم شماری میں ہیرا پھیری کا مکروہ کھیل کھیلاگیا جو ہنوز جاری ہے۔جبکہ 5 اگست 2019ء کااقدام کشمیرکو فلسطین بنانے کے کھیل کی تکمیل ہے۔المختصر!بھارت کامنصوبہ ساز طبقہ اس نتیجے پر پہنچا کہ کشمیر کا اسلامی تشخص تبدیل کئے بغیر کشمیری مسلمانوں کو بھارت کی غلامی تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں کیاجا سکتا۔ اسی لیے1990ء سے ہی ایک طویل المیعاد شرمناک منصوبے پر کام شروع کر دیا گیاتھا۔ فلسطینیوں کی حمایت سے دست کش یا کم از کم خاموش کر دینے کا جو عمل گزشتہ ایک سو سال کی تاریخ ہمارے سامنے پیش کرتی ہے، وہ اسی قسم کی پالیسیوں سے عبارت ہے۔مقبوضہ وادی میں80لاکھ کشمیریوں پر10لاکھ بھارتی قابض فوج مسلط ہیںاس طرح ہر 8نہتے کشمیریوں پر جدیداسلحے سے لیس ایک فوجی مسلط ہے۔لیکن عالمی سطح پر سرد مہری اب مجرمانہ حیثیت اختیار کر رہی ہے خصوصا مسلم ممالک کے حکمرانوںنے بھی آواز نہ اٹھا کر اور بالواسطہ طور پر بھارت کا ساتھ دے کر ایک مایوس کن سوچ پیدا کی ہے۔