زمانے کوپھرسے ظلمت کدوں اورظالم خو حکمرانوںکاسامناہے۔ پھر وہی دورجہالت کی داستانیں دہرائی جارہی ہیں ، انسانیت دم توڑرہی ہے اور عالم انسانی کی فضائیںمسموم ومکدرہیں۔ظلم، ضمیرانسانی کی اجتماعی بیخ کنی کا نام ہے۔ بھارت عشروں سے وادی کشمیر میں ریاستی استبداد کے جوابواب لکھ رہا ہے۔انہیںپڑھ کربھی عالمی سطح پرکشمیریوں کی طرف کوئی توجہ نہیں۔عالمی چوہدری مسئلہ کشمیرکوخالصتاََمسلمانوں کامسئلہ سمجھتے ہوئے ایساعقدہ لایخل قراردے رہے ہیں کہ جس کی انکی لغت فہم کے مطابق گرہ کشائی ممکن نہیں۔کشمیرکی سسکتی بلکتی انسانیت پرکوئی توجہ نہیں کیونکہ دنیاکادل پتھراوراس کی فکریں بالیدگی کی شکارہیں ۔ جب انسانیت کی کتاب دستور بے توقیر ہو جائے تو بے ضمیروں ، طالع آزمائوں اور جرائم پیشہ حکمرانوں کا ایک بے رحم کھیل شروع ہوجاتا ہے جو کسی اصول ضابطے کا پابند نہیں ہوتا۔مفاد کی مقراض سے قطع و برید کے بعد بچ رہنے والے ادھورے سچ کی طوطی نقارخانے میں بول بھی رہے لیکن سیل بلا کے منہ زور تھپیڑوںکے شورکے باعث اسے کوئی نہیں سنتا۔5اگست سے آج تک پورے 100دن ہوئے کہ اسلامیان کشمیر ریاستی استبداد ، سیاسی جبراورعالم اسلام کی مجرمانہ خاموشی کی سہ گونہ ٹکٹکی سے بندھ گئے اورسرزمین کشمیرپر 5اگست کوآئے بھونچال کے آفٹر شاکس باقاعدگی کے ساتھ بدستور جاری ہیں۔ پتھر کی سل پر نوشتہ ہے کہ باطل کا انکار انسان کی سرشت میں موجزن ہے لیکن اس کااظہار اکثرظلم کے بطن سے پھوٹتا ہے اورپھرانسان بلند تر نصب العین کے حصول کی ذمہ داری اپنے کندھوں پراٹھالیتاہے۔ اغیارکہتے ہیں کہ 72 برس کے اس سن رسیدہ تنازع کو تو تاریخ کے حافظے کی پاتال میں فراموش ہو جانا چاہئے تھا۔ واقعہ مگر یہ ہے کہ جاں بلب کشمیریوں کی سانس کا ہر زیر و بم سیاسی منظر پر اپنے لہوکے نشان چھوڑ رہا ہے۔کشمیرکابچہ بچہ عزیمت کے چراغ جلا رہا ہے۔ تاریخ انسانی کا یہ پہلامعرکہ حق وباطل ہے کہ جس میں نہتے حق پرستوں کاباطل کی دس لاکھ سفاک فوج سے پالاپڑاہواہے اورمظلوم نہتے ہاتھوںتاریخ کی طویل ترین جنگ کی تاریخ رقم کر رہے ہیں اوراسلامیان کشمیرکے دل کا ہر تار اسلام کا سربکھیرتاہے اور اخوت اسلامی کا ڈنکا بجاتے ہوئے اس نے پاکستان پاکستان کی گردان کو اپنامسحورکن سازبنالیا ہے۔ قابض قوتوں سے آزادی کی کلیاں جب دل میںچٹخنے لگتی ہیںتودل میں بے قراری وبے اطمینانی کاایک طوفان اورسیلاب امنڈآتاہے ،فریفتگی وشیفتگی کودوبالاکرکے طمانیت حاصل ہوجاتی ہے ۔عشق اوردیوانگی وفدائیت کاعنصرجاگ جاتاہے ۔ علامہ نے کیاخوب فرمایا عشق سے پیدا نوائے زندگی میں زیر و بم عشق سے مٹی کی تصویروں میں سوزِودم آدمی کے ریشے ریشے میں سما جاتا ہے عشق شاخِ گل میں جس طرح بادِ سحر گاہی کا نم کشمیرکاگلستان ویران اوراس چمن کی تمام رونقیں ماندپڑیں ہیں، دلوں کی کھیتیاں خشک ہورہی ہیں،یہاں کی بہاروخنک ہوائوں اورلطیف وسبک فضائوں نے رت ہی بدل ڈالی۔بحربیکراں کے بھنورمیں پھنسی کشتی جانگسل لہروں میں ہچکولے کھارہی اوراسے ساحل حیات ابھی تک نصیب نہ ہوسکا۔جوآزادی کی راہ پرچلاتواس کی جگربازی کاکوئی مقابلہ نہیں۔شعوری طورپر اس راہ پرنکلنے والے میں ہرستم برداشت کرنے کامادہ موجودہوتاہے۔ دراصل نعرہ آزادی رطل گراں اورشوق لافانی ہے ۔یہ ایک ایسافعال ،محرک اورقوت آفریں احساس ہے کہ جوقلوب واذہان میں ایک ایسی کیفیات پیداکرتاہے کہ جوانسان کو طوفانوں ،بھونچالوں اورزلازل کے سامنے ایسا کوہ ثبات اور آہنی دیوار بنادیتاہے کہ جو سد سکندری اوردیوارچین کی مضبوطی کوبھی مات دیتاہے۔ اس نعرہ میں موجوں میں طوفان پیداکرنے، سمندر کے سکوت میں تلاطم پیداکرنے ،ظلام کے پہاڑوں کے سینے چیرکرراستہ بنانے اوربحرظلمات میں گھوڑے دوڑانے ،کوہستان میں بہارپیداکرنے ،ریگستانوں میں نسترن وگلاب اگانے اوربنجرکوسبزہ زارکرنے کی بھرپور صلاحیت موجود ہوتی ہے ۔ 1931ء میں ڈوگرہ استبدادکے شکارکشمیری مسلمانوں میںحریت کی چنگاری روشن کر نے کے لئے علامہ اقبال نے انہیں ستیزہ کاری کی جرأت دلا ئی اور مٹی کے دیوتائوں سے ٹکرانے کی ہمت بندھائی بالآخرانہوں نے1947ء میں ظالم ڈوگرہ کواس وقت چلتاکردیاکہ جب تقسیم برصغیرہوکرمملکت پاکستان کاقیام عمل میں آرہاتھا۔لیکن اسی کے ساتھ بھارتی استبدادنے انہیں گھیرلیاجس پرشاعر کا’’داغ داغ اجالے اور شب گزیدہ سحر‘‘ کا نوحہ پوری طرح صادق آتاہے ۔ یوں اسلامیان کشمیرکوایک کے بعد دوسرے آگ اورخون کے دریا کاسامنا رہالیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ آگ اورخون کے دریاکی منہ زور لہروں سے وہ زیرنہ ہوسکے اورانہوں نے اپنی منزل سے منہ نہیں موڑا۔ وہ بے آب و گیاہ صحرائوں سے گزرے لیکن دشت امکان کو اوجھل نہیں ہونے دیا۔ سنگ زنی کی مشق میں آئینہ سازی کا شوق ترک نہیں کیا۔وہ تیروخنجرکے زخموں کوزیر تبسم جھیلنے کے عادی ہوچکے ہیں۔وہ اپنے سینوںمیںموجزن حصول آزادی کی سوزش وآگ کے ذریعے اپنی نسلوں میں آزادی کی شمع روشن کررہے ہیں۔ ظلم کی عمیق غارمنہ پھاڑے ان کے سامنے بیٹھی ہے اورقابض فوجی آفیسروں کااپنارینک بڑھانے کی بوالہوسی رگ وریشہ میں دوڑرہی ہے۔مگردوسری طرف ملت اسلامیہ کشمیرپابہ جولانیوں ،داروسن کی وحشتوں اورتازیانوں سے خوفزدہ نہیں۔ان کے عزم آزادی میںکم ہمتی اورضعیف ارادی کاشائبہ تک نہیں۔وہ ایک دوسرے کے دست وجبین کوبوسہ دے کرہمت افزائی کررہے ہیں۔راہ حق کی خاک کوآنکھوں کاسرمہ بنالیناگویادل کی لوح پرنقش کالحجرکی اہمیت رکھتاہے اوریہ انسان کواوج کمال پرپہنچاتاہے ۔ کشمیرسے فلسطین اوربرماسے افغانستان تک آج پوری صفحہ ہستی کوجنگ وجدل اورشروروفتن سے بھردیاگیاہے اوراسے بہیمیت کی سولی پر چڑھادیاگیاہے۔انسانوں کی زندگی اجیرن ہے۔ امریکہ ،اسکے اتحادیوں اوربھارت و اسرائیل نے دنیاکو ظلمت وتاریکی کی عمیق غاربناڈالاہے ۔ انکے مظالم نے چاردانگ عالم تعفن زدہ کرکے انسانی بستیوں کوہلاکت کی بھٹی میں چھونک دیا۔یہ وہ درندے ہیں کہ جوانسانوں کوبے دریغ قتل کررہے ہیںعزت وعصمت تارتارکرتے انسانیت کاحجاب چاک کرنے میں کسی طرح بھی چوکتے نہیں۔لیکن کشمیرسے فلسطین تک باطل سے انکارکرنے والے اپنے لہوسے خوفناک آندھیوں میں بھی شمع آزادی جلاتے رہے۔