کشمیر پر پاکستانیوں کے دل اُداس ہیں۔ بھارت کے تازہ اقدام کے بعد لوگوں میں ایک بے بسی کا احساس ہے۔ قوم چاہتی ہے کہ کشمیری بھائیوں کی مدد کیلیے ہماری ریاست اور حکومت نتیجہ خیز اقدامات کریں۔ انہیں ظالم بھارتی سامراج سے آزادی دلائیں۔ پانچ اگست کے بعد پاکستان نے بعض اہم اقدامات کیے۔ پارلیمان کے مشترکہ اجلاس نے بھارتی اقدام کے خلاف متفقہ قرار داد منظور کی‘ حکومت نے بھارت سے دو طرفہ سفارتی تعلقات کی سطح کم کی‘ دونوں ملکوں کے درمیان بس‘ ریل سروس اور تجارت بند کی۔ ان فیصلوں کے ذریعے بھارت سے پاکستانی عوام کی ناراضی اور غصہ کا اظہار کیا گیا۔کشمیریوں کو یہ پیغام دیا گیا کہ وہ اکیلے نہیں‘ پاکستان کی ریاست اور عوام ان کے ساتھ ہیں۔ جب تک وہ اپنی آزادی کی جد و جہد کرتے رہیں گے پاکستان اُن کے ساتھ کھڑا رہے گا اور اس وقت تک ان کا ساتھ دیتا رہے گا جب تک وہ اپنی آزادی کی منزل نہیں پالیتے۔ موجودہ حالات میں پاکستان کشمیریوں کیلیے کیا کرسکتا ہے اور اسکے پاس کیا آپشن ہیں اسکا حقیقت پسندانہ جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ سب سے اہم ہمارے اندرونی سیاسی حالات ہے۔ ہم سیاسی طور پر غیرمستحکم ہیں۔ حکومت اور حزب اختلاف میں سخت کشیدگی ہے۔ ایک بڑی سیاسی جماعت مسلم لیگ (ن) ماضی میں بھارتی ریاست سے پینگیں بڑھاتی رہی‘ اس کے بیانیہ کو پاکستان میں فروغ دیتی رہی۔ اٹل بہاری واجپائی اور نریندرا مودی جو بھاگ بھاگ کر نواز شریف سے ملنے آئے تھے اسکی وجہ صرف یہ تھی کہ نواز شریف انہیں بھارت کی شرائط پر کشمیر تنازعہ حل کرانے کی یقین دہانی کراچکے تھے۔ وہ بھارت سے مُک مکا کرچکے تھے لیکن سیاسی ردعمل کے خوف سے اس کا باضابطہ اعلان نہیں کرتے تھے۔ تاہم ان کی وزارت عظمیٰ کے دونوں ادوار میں ریاستی اداروں اور محب وطن شہریوں نے انکے منصوبوں کی مزاحمت کی۔ نواز شریف نے اس کا بدلہ ڈان لیکس کی شکل میں لیا جس میں انہوں نے پاکستانی ریاستی اداروں پر بھارت میں دہشت گردی کرنے کے الزامات لگوائے۔ یوں خود پاکستان کا وزیراعظم اپنے ملک کے خلاف گواہ بن گیا۔ پاکستان کے میڈیا اور سول سوسائٹی میں بھارت نواز لابی بھی موجود ہے۔ بھارت کو پاکستان کی اس سیاسی تقسیم اور کمزوری کا اچھی طرح ادراک ہے۔ دوسرا مسئلہ ہماری بے حد کمزور معیشت ہے۔ بددیانت سیاسی قیادت اور افسر شاہی نے اس ملک کا اتنا خون چُوسا ہے کہ اسکا بال بال قرضوں میں بندھا ہوا ہے۔ ماضی میں جان بوجھ کر ایسی پالیسیاں اپنائی گئیں کہ ملک میں صنعت کاری کا عمل رک گیا‘ درآمدات اتنی زیادہ ہوگئیں کہ زرمبادلہ کا بحران پیدا ہوگیا اور ملک بیرونی ادائیگیوں کی نادہندگی کے دہانے پر پہنچ گیا۔ دشمن کو معلوم ہے کہ پاکستان طویل روایتی جنگ لڑنے کے لیے معاشی وسائل سے محروم ہے۔ ایٹمی جنگ دونوں ملکوں کی مکمل تباہی پر منتج ہوگی۔ بھارت پاکستان سے چھ گنا بڑا ملک ہے۔ اس کے روایتی فوجی طاقت اور معاشی حیثیت ہم سے کہیں زیادہ ہے۔ طاقت کا توازن اس کے حق میں ہے۔اسے اپنی طاقت پر غرور ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ طاقت کے بل بوتے پر وہ کشمیر پر قبضہ قائم رکھ سکتا ہے، اصول اور قانون جائیں بھاڑ میں۔ لے دے کر ہمارے پاس ایک سفارتی آپشن رہ جاتا ہے۔ پاکستان بین الاقوامی برادری اور نام نہاد مسلم امّہ سے مدد مانگے کہ ہمیں کشمیر پر انصاف دلایا جائے۔ تلخ حقیقت یہ ہے کہ ستاون مسلمان ملکوں میں سے صرف ایک ملک ترکی نے باضابطہ طور پر بھارت کے کشمیر کی حیثیت تبدیل کرنے کے اقدام پر تنقید کی۔ ہمارے دفتر خارجہ کی بھاگ دوڑ کے بعد چند عرب ملکوں نے ہلکے پھلکے بیانات دیے جن میں بھارتی اقدامات پر تشویش اور تحفظات کا اظہار کیا۔ ایران کے سپریم لیڈر نے کشمیریوں کیلیے آواز اٹھائی لیکن ایرانی حکومت نے باضابطہ طور پر بھارتی اقدام کی مذمت نہیں کی۔ بین الاقوامی برادری میں چین کے سوا کسی ایک ملک نے بھی بھارتی اقدام کے خلاف بیان نہیں دیا۔ بھارت اس خطہ میں چین کے خلاف امریکہ کا بڑا سٹریٹجک شریک کار ہے۔ امریکہ ہماری خاطر کوئی ایسا کام نہیں کرے گا جس سے اسکے تعلقات بھارت سے خراب ہوں۔ یورپ‘ امریکہ اور روس بھارت سے اربوں ڈالر کی تجارت کرتے ہیں۔ یہ ان کی بڑی منڈی ہے۔ جب روپے پیسہ کا مفاد سامنے ہو تو دنیا اپنے اصول پش پشت ڈال دیتی ہے۔کشمیریوں کا ایک بڑا گناہ یہ ہے کہ وہ مسلمان ہیں۔ مغربی دنیا مسلمانوں کے خلاف سخت متعصب ہے۔ کشمیر ہو یا فلسطین مغربی ممالک کبھی کسی مسلمان ملک کی عملی مدد نہیں کرتے۔ جنوبی سوڈان اور مشرقی تیمور میں عیسائی آبادی تھی ان کی آزادی دلانے کیلیے سب متحد ہوگئے تھے۔ جو مسلمان اپنی آزادی کی جدوجہد کرے تو اسے دہشت گرد قرار دے دی جاتا ہے۔ بین الاقوامی برادری قانونی اور سفارتی کوششوں کے نتیجہ میں کشمیریوں کی اشک شوئی تو کرے گی لیکن بھارت سے ان کی آزادی کی حمایت نہیں کرے گی۔ البتہ ہم انہں قائل کرنے کی کوششیں جاری رکھ سکتے ہیں تاکہ مسئلہ کسی حد تک زندہ رہے۔ ان حالات میں صرف ایک راستہ کھلا ہے۔ وہ ہے کشمیر کے حریت پسند عوام کی بھارتی فورسز کے خلاف مزاحمت۔ اگرکشمیری عوام اپنی جد و جہد جاری رکھتے ہیں تو بھارت کو ایک دن وہاں سے بھاگنا پڑے گا۔ انہیں پاکستان کی مکمل حمایت اور عملی مدد کی ضرورت رہے گی۔ بھارت دہشت گردی کا شور مچائے گا۔ اگر پاکستانی ریاست کمزوری نہ دکھائے جیسا کہ نواز شریف دور میں دکھائی گئی تو بھارتی سامراج کے خلاف کشمیری جدجہد زور پکڑے گی۔ اگر ہم نے بھارت کے ساتھ دوستی کی پینگیں بڑھائیں‘ دوستی بسیں اور ٹرینیں چلائیں‘ تجارت شروع کردی تو کشمیریوں کو پیغام جائے گا کہ پاکستان اُن سے مخلص نہیں‘ دُہری پالیسی پر عمل کررہا ہے۔ یوں اُن کی جدوجہد کمزور ہوگی۔ اسرائیل نے فلسطین پر غاصبانہ قبضہ کیا اسلیے ہم اس سے سفارتی تعلقات نہیں رکھتے۔ ہمارے پاسپورٹ پر اسرائیل کا سفر نہیں کیا جاسکتا۔ بھارت نے کشمیر پر غیرقانونی‘ ظالمانہ قبضہ کیا ہوا ہے تو ہم اس سے سفارتی تعلقات کیوں رکھیں؟ ہمارا پاسپورٹ بھارت کے سفر کے لیے بھی استعمال نہیں ہونا چاہیے۔ ہمیں بھارت کے بارے میں اپنی پالیسی واضح رکھنے کی ضرورت ہے کہ جب تک وہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیر کو متنازعہ علاقہ تسلیم نہیں کرتا ہم اس سے کسی قسم کے تعلقات نہیں رکھنا چاہتے۔