آج پورے78دن ہوئے کہ کشمیرمیںمعمولات زندگی پوری طرح منجمدہیں۔کشمیریوں کی آزادانہ نقل وحمل بند،سکول بند،کالجزبند،یونیورسٹیزبند،ووکیشنل تعلیمی ادارے بند،بازاربند،کاروباری اورتجارتی اداے بند،پبلک ٹرانسپورٹ بند،الغرض سب کچھ بندپڑاہے ۔ یہ ایک اذیت ناک حقیقت ہے کہ اخلاقی اور جمہوری آزادی کے یہ نام نہادعلمبردارصرف مکاری اورفنکاری سے کام چلارہے ہیں انسیانیت کے تئیں ان میں ہمدردی کاعنصرکافورہے بلکہ یہ سب ایک سے بڑھ کرایک درندے بنے ہوئے ہیں۔جبری طورپرغلام بنائی گئی قوموں کی لاچارزندگی کی تفہیم اور اس کے رموز و اسرار کی تعبیر کے باب میں یہ سب اپنی آنکھوں پہ پٹی باندھے بیٹھے ہیں۔ان کی اپنی نظر تجارت ،کاروبار، مفادات پرجمی ہوئی ہے،ان کا اپنا الگ زاویہ مقررہے اوروہ اِسی انفرادی زاویہ نظرسے معاملات کودیکھتے ہیں اورمظلوم قوموں کی حیات کے مدو جزر ،نشیب و فراز کو سمجھنے کے باوجودوہ حقائق تسلیم نہیں کرتے اورنہ ہی سچ کاساتھ دیتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ وہ کشمیرکے بنیادی مسئلے کوحل کرنے کے بجائے انسانی حقوق کی بات کرنے کی آڑ میں کشمیریوں کوبھارتی غلامی میں ہی گزارہ کرنے اوربھارتی رحم وکرم پررہنے پربھارت کے سر میں سرملاتے ہیں۔بس دنیامیں زورآورممالک چھیننے اور جھپٹنے کی پالیسی پرگامزن ہیںاور اپنا الو سیدھا کرنے کا شوربرپا ہے۔ جفا ئیں انتہا پر، کوئی پوچھے، کوئی ٹوکے، کوئی روکے ایساکوئی نظرنہیں آرہا ، بے ایمانوں کی دنیا، ظالموں کی دنیا، بے دردوں کی دنیا، ہوس پرستوں کی دنیا، مفاد پرستی اور خود غرضی کی دنیا، دوست کے چہرے مگر دشمن کا کردار، میٹھی بولی مگر بغل میں چھری، زبان پر واہ واہ مگردل میں کراہ ،ظاہر آئینہ سے زیادہ صاف مگر باطن سیاہ ترایسا بدتر،متعفن اور بدبودار کہ دماغ پھٹنے کوآجاتاہے، نام کے توبڑے مسلمان مگر کام کے پست ترین، بس عہدوں اورمسندوں کی مارا ماری ہے ، شکم سیرہ ہی عبادت اور جاہ پروری کوہی معبودبنادیاگیاہے۔ اخوت کا نغمہ اب کانوں کو نہیں ملتا، دل پر ملت اسلامیہ کی سنگیت اور وہ نغمگی اب چھاپ نہیں چھوڑتی، مایوسی کی لپٹ میں،مسلم امہ کے حکمران جب سے امریکی گماشتے بنے تو الجھنوں کے تنوع نے زندگی کا لطف ختم کردیا،نشاط ثانیہ کی ہر خواہش طلوع سے پہلے ہی غروب ہوجاتی ہے، اٹھنے کی ہمت باندھی جاتی ہے کہ دھڑام گرادیاجاتا ہے،ایک زخم سلتا نہیں کہ اگلاوارہوجاتاہے اورگہراگھائو سے تڑپناپڑتاہے، ایک گتھی سلجھ نہیں جاتی کہ دوسری الجھ جاتی ہے، گانٹھ پر گانٹھ لگی ہوئی ہے کھولنے کاارادہ کیاجاتاہے توگرہ پہ گرہ لگ جاتی ہے۔ حال دل سوز کچھ اگر کہہ دوں موم بن جائے سنتے ہی فولاد سات عشروں سے زائدعرصے پر محیط کشمیری مسلمانوں کی حق خودارادی کی جدوجہد کچلنے کیلئے نئی دہلی تمام اوچھے ہتھکنڈے استعمال کررہی ہے اورہردن جبر و استبداد کے واقعات رونماہورہے ہیں ۔دنیا کے رنگ نیارے ہیں۔عالمی ضمیر مرچکا ہے یہی وجہ ہے کہ مشرق اورمغرب کے ہر حکمران نے کشمیرسے منہ موڑ لیا ہے۔ دنیاکے حکمران دبے الفاظ میں بھی کشمیری مسلمانوں کوان کابنیادی اورپیدائشی حق دلانے کی بات نہیں کرتے ،ان کے دلوں پر مہر لگ چکی ہے اوروہ پتھربن چکے ہیں۔عالمی طاقتیں کیوں خاموش ہیں۔سچ ہے کہ ظلم کا پہاڑ بھی اٹھا لیں، اپنے دوش ناتواں پر وہ بھی سہی، لیکن اپنوں کی خموشی اور انکے ضمیر کا جموداورانکی بے پرواہی اوربے وفائی کا کیا کریں؟اسلامیان کشمیر کو اب مرغ بسمل کہیے!انہیںراہ عشق کا مظلوم نام دیجئے !میدان کارزارکا بھٹکا سپاہی سمجھ لیجئے!یاپھراپنی معصومیت میں قربان جانے والا نادان مان لیں! 5اگست 2019ء سے وادی کشمیرمیں کئی ماہ تک زندگی پوری طرح مفلوج ہے،نقل وحمل پر سخت قدغنوں اور بندشوں کے باعث تمام تجارتی ادارے مقفل اور تعلیمی ادارے ویران پڑے رہے جبکہ پبلک ٹرانسپورٹ بندرہا۔یہ بندشیں ’’جدیددورکے وسیلہ رابطہ‘‘مواصلاتی سہولیات انٹرنیٹ اور موبائل فون پر بھی عائدکردیں گئیں۔ مواصلاتی بندش نے وادی کشمیرکو بیرونی دنیا سے کاٹ کر رکھ دیا ہے جس سے سب سے زیادہ متاثرکشمیر کی معیشت ہوئی کیونکہ دورجدید میں پوری دنیاکی طرح کشمیرکی باغبانی اور دست سازی کی صنعت کاانحصار (e-commerce) پر ہے۔مقبوضہ کشمیر چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے اعداد و شمار کے مطابق 5اگست2019 ء سے ستمبر2019ء کے اختتام تک لگاتاربندشوں کے باعث کشمیر کی معیشت کو 10000کروڑ روپے کا نقصان ہوا ۔ جبکہ بی بی سی اردوسروس کی شائع شدہ ایک رپورٹ جواکتوبر2019ء کے پہلے ہفتے میں منظرعام پرآئی اسکے مطابق 5اگست 2019ء سے اکتوبر2019ء تک کشمیرکی فروٹ صنعت کو ایک ارب ڈالرکانقصان ہوا ۔ اگست اورستمبرکے ،مہینوں میں سیب اوردیگرپھل پک جاتے ہیں اورانہی دومہینوں میں اسے درختوں سے اتارکرمنڈیوں میں لایاجاتاہے۔ مسلسل کرفیواورلگاتار لاک ڈائون کے باعث وہ اپنی فصلیں منڈیوں اورپھر مارکیٹوں تک پہنچانہیں پارہے ہیں۔ اخروٹ ، بادام، زعفران ، قالین ، پیپر ماشی اور شال بافی سے منسلک کاروباری حضرات کے نقصان کا تخمینہ لگانا باقی ہے۔1990 ء سے جاری بھارتی بربریت کے باوجودمقبوضہ کشمیر خوشحال خطہ ثابت ہوا۔جس کی خوشحالی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ صرف وادی میں بھارت کے مختلف علاقوں سے سالانہ4 لاکھ مزدور مارچ سے نومبر تک رزق کمانے کے لئے کشمیر آتے ہیں۔