بھارت نے جب دیکھ لیاکہ مسلسل ذہنی ٹارچر اورجسمانی تعذیب سے اسلامیان کشمیرکے تدبر، غور و فکر اورمعاملہ فہمی کی صلاحیتیں اپنی جگہ بدستور قائم ہیں اوران کاذہن شکست نہیں کھارہاایسے عالم میںانہیںتازیست غلامی میں نہیں رکھاجاسکتاتووہ انکے سوچنے اورسمجھنے کی صلاحیتوںکومائوف بنانے کے ناپاک منصوبوں پراترآیاہے۔چندیوم سے یہ خبر گشت کررہی ہے کہ بھارت وادی کشمیرکے دس اضلاع میں مجموعی طورپر76شراب خانے کھولنے کی منصوبہ بندی کرچکاہے۔اس خبرسے اسلامیان کشمیرمیں اضطراب اوربے کلی پائی جارہی ہے۔ ویسے تو1947ء میں جب بھارت نے کشمیر پر جارحانہ قبضہ جمایاتو وہ سامراجیت ،ظلم وجور،نسل پرستی، فرقہ پرستی ،بے حیائی ،اخلاق سوزی کے ساتھ ساتھ شراب کی خباثت کوبھی اپنے ساتھ کشمیر لے آیا ۔لیکن1990ء کو کشمیرمیں مسلح جدوجہد شروع ہونے کے بعد اس نے کشمیرمیں شراب اور منشیات عام کرنے کی اپنی ناپاک کوششوں میں سرعت لائی جس کامقصد یہ تھاکہ کشمیرکی نوجوان نسل کوشراب پلائی جائے ،وہ مست اورمدہوش رہیں اوربوتل کے فراق میںجب وہ اپنے ہوش و حواس کھوبیٹھیں توپھران میں اس بات پرسوچنے کی صلاحیت سرے سے مفقود ہو جائے کہ آیا ایک مسلمان ریاست پرہندوبھارت نے کیونکرقبضہ کر لیاتوجب انکی حالت اورکیفیت نشیلی ہوگی تووہ بھارتی قبضے کے خلاف کبھی مزاحمت کے لائق بھی نہیں رہیں گے ۔ا سی مکروہ فکروفلسفے کے تحت گذشتہ ستر دہائیوں میںشراب ’’ام الخبائث‘‘ کوارض کشمیر میں پھیلانے اورعام کرنے کے لئے دہلی کی طرف سے بڑی تگ و دو جاری رہی۔ سب سے پہلے اس نے اپنی فوج کو ٹاسک سونپاکہ وہ کشمیریوں کو فوجی کیمپوں کے ساتھ مانوس کر کے شراب سے ان کی تواضع کرے اور جب فوجی کیمپوں کے ساتھ ان کے روابط استوارہوجائیںتوپھرانہیں فوجی کیمپوں کے ذریعے شراب کی بوتل مفت فراہم کی جائے ۔لیکن یہ کشمیری مسلمانوں کی تاریخ رہی ہے اورانہیں بہرحال یہ کریڈٹ جاتاہے کہ انہوں نے بھارتی فوج کوروزاول سے ہی غیرملکی اورقابض فوجی سمجھ کران کے کیمپوں کے ساتھ کسی بھی قسم کاکوئی تعلق واسطہ نہیں رکھااورنہ ہی ملاقاتوں کاکوئی جھلمل ممکن بنایا۔ اس طرح بھارت کاکشمیریوں کوشرابی اور ایک نشیلی اورمدہوش قوم بنانے کی شرمناک سازش ناکام ہوئی ۔ دہلی کوجب فوجی فرنٹ سے اس باب میں ہزیمت اٹھاناپڑی توایک اورطریقے سے بھارتی چیرہ دستی جاری رہی وہ یہ کہ اس نے دنیاکے عارضی تعیش میں الجھے ،حرص وآزکی آگ اورطمع ولالچ کی روگ میں مبتلا اور حقیرمنفعت کے غلام کشمیرکے غدار شیخ عبداللہ کی قیادت والی کشمیری غداروں پرمشتمل کٹھ پتلی اسمبلی سے 70کی دہائی میںجب کشمیری قوم ’’نان مارشل‘‘سمجھی جاتی تھی یہ کہتے ہوئے ’’شراب بل‘‘ پاس کروایاکہ کشمیرمیں بیرون ممالک بالخصوص یورپ سے لوگ سیاحت پرآتے ہیںجبکہ کشمیرمیں سکھ کیمونٹی بھی رہتی بستی ہے جو شراب کے خوگرہیں لہٰذاہمیں ان دونوں طبقوں کا خیال رکھناہوگا۔ اس بل کے ذریعے سے کشمیرکی کٹھ پتلی اسمبلی میں بیٹھے شرابیوں نے اپنے ہم مشربوں کو ہر قسم کا قانونی تحفظ فراہم کیا ہے اور شراب کے حق میں نام نہاد قانونی جواز پیش کیا جاتا رہا ہے ۔واضح رہے کہ اس طرح کے غلیظ اقدامات اٹھاکر شیخ عبداللہ اپنی قبائے زندگی میں جھانک کر بھی شرمندہ نہیں ہوئے اور لغویات کی اس آڑ میں پہلے ان تمام ہوٹلوںمیں شراب مہیارکھی گئی جہاں غیرملکی سیاح قیام پذیرہوتے۔ لیکن ہوٹلوں اور غیر ملکی سیاحتوں تک شراب کی ترسیل سے بھارت کا وہ ناپاک منصوبہ روبہ عمل نہ آسکاجواسلامیان کشمیر کو مائوف دماغ وحس بنانے کیلئے وہ ترتیب دے چکا تھا۔ اس لئے اپنے شرمناک منصوبے کو عملاتے ہوئے سترکے دہائی میں ہی سر ینگر کے فوجی زون سونہ وارعلاقے جہاں قابض فوج کا15کورہیڈ کوارٹرہے عین سامنے بٹ وارہ بازار میں آزمائشی طورپر (BROADWAY)کے نام سے ایک شراب خانہ اورایک سینماہال کھولا ۔ تاہم کشمیری مسلمانوں نے سرزمین کشمیر پر شراب خانہ کھولنے اورفسق وفحش کے ان دونوں اڈوں کو نا قا بل بر داشت قرار دیا اوراس کے خلاف ہر سطح پرصدائے احتجاج بلندکرکے بھارتی منصوبے کا تیاپانچہ کردیا۔کشمیری مسلمانوں کے شدیدردعمل کو دیکھتے ہوئے بھارتی قابض فوج اور نیشنل کانفرنس کی کٹھ پتلی انتظامیہ نے یہ کہہ کر معاملہ ٹال دیاکی یہ شراب خانہ اورسینمادونوںمحض بھارتی فوجی اہلکاروں کیلئے کھولے گئے اسی لئے ان کی جگہ کاتعین بھارتی فوج کے ہیڈکوارٹر کے سامنے بازارمیں کیا گیا چونکہ یہ فوج کے مخصوص ہے اس لئے عام شہری اس پرپریشان نہ ہوں کیونکہ ان کی رسائی یہاں ممکن نہیں ہوگی مگر اس تلبیس ابلیس کے باوجود بھارت نواز نیشنل کانفرنس اور کانگریس سے وابستہ کارکن بے شک تعداد میں نہایت کم ہی سہی لیکن چوری چھپے گناہوں کے ان دونوں اڈوں کے ساتھ منسلک ہوئے۔ اسلامیان کشمیرکے کڑے تیور اور فوری ردعمل دیکھ کربھارتی قابض فوج اوربھارت نواز نیشنل کانفرنس کی کٹھ پتلی انتظامیہ کے گٹھ جوڑ ’’کشمیری میں جسے لچہ واٹھ‘‘کہتے ہیں کشمیرکے دیگر علاقوں میں شراب خانے کھولنے سے کترا گیا اور اس گٹھ جوڑ میں یہ جرات پیدانہ ہوسکی کہ وہ شراب کوعام کرکے کشمیری مسلمانوں کے جذبات سے کھلواڑ کرسکیں۔ واضح رہے کہ کشمیرکا مسلم سواداعظم دینی معاملات کے حوالے سے ہمیشہ چوکناہوشیارثابت ہوا ہے۔دین کے ساتھ اسلامیان کشمیر کی لازوال ایمانی وابستگی ان کی بیدار حس اورہوشیارمغزی نے ارض کشمیرمیں شراب عام کرنے اوراس کے اڈے قائم کرنے والے بھارت نوازوںکی ہمیشہ بساط الٹ دی ۔جب بھی کٹھ پتلی اسمبلی میں شراب خانے کھولنے کی باتیں ہوئیں تومزاحمت کے لئے اسلامیان کشمیر نے کمرکس لی توپیداشدہ صورتحال کو دیکھ کرکٹھ پتلی انتظامیہ اور بھارتی قابض فوج کادہلی سے سازبازاپنے مذموم منصوبوں پرعمل درآمدنہ کرانے میں ناکام رہا۔جس کی تاز مثال 2018ء کی ہے کہ جب سری نگر کے ائیرپورٹ پرایک شراب خانے کے کھل جانے کی خبر سامنے آئی تواسلامیان کشمیرسراپااحتجاج بن گئے۔ کشمیری مسلمانوںکے کڑے رخ کودیکھ کرقابض فوج اورکٹھ پتلی انتظامیہ کے گٹھ جوڑ کواپنافیصلہ واپس لیناپڑا۔ تاہم بھارت کی طرف سے اپنی فوج اورکشمیرمیں اپنے زرخرید تنومندغلاموںکے ذریعہ کشمیرکے مسلمانانہ تہذیب و تمدن اورکشمیری مسلمانوں کے اسلامی عقاید کوللکارنے کے لئے درپردہ ناپاک منصوبے اورکشمیرکے اسلامی تشخص اورمسلم شناخت کو مٹانے کے لئے منظم مگرمذموم سازشیں تیارہوتی رہیں ۔ (جاری )