انڈیا کے چیف آف ڈیفنس سٹاف بپن راوت کا کشمیری کمسن بچوں کے لیے قائم’’ ڈی ریڈکلائزیشن ‘‘کیمپوں روح فرسا اوررونگٹے کھڑے کرنے والے انکشاف سے کئی سوالات پیداہوئے ہیں۔ بپن راوت نے دلی میں منعقدہ ’’رائے سینا ڈائیلاگ‘‘میں جمعرات16جنوری 2020 ء کو ایک مذاکرے میں یہ انکشاف کیاکہ دس سے بارہ برس کے کشمیری بچوں کو آزادی پسند نظریات سے نکالنے کے لیے حکومت کے ذریعے ’’ڈی ریڈیکلائزیشن کیمپس‘‘چلائے جا رہے ہیںجن میں ان کے بقول شدت پسند کشمیری بچوں اور نوجوانوں کو تنہائی میں رکھا جارہا ہے تاکہ نظریات بدلنے کے لئے ان کی ذہن سازی کی جا سکے ۔بھارتی فوج کے اعلیٰ عہدے دارکایہ انکشاف کشمیری مسلمانوں پرڈھائے جانے والے قیامت خیزبھارتی مظالم کی ایک نئی دلدوزکہانی کاپتادیتی ہے۔دراصل یہ کشمیرکے کمسن بچوں کے لئے تعذیب خانے ہیں جن میں پابندسلاسل بناکر انہیں عمربھرکے لئے اپاہج اورذہنی معذور بنانا ہے۔ اکتوبر2019 ء میں خبر آئی تھی کہ سینکڑوںنابالغ اورکمسن کشمیری بچوں کو حراست میں لیا گیا تھااور6ماہ گذرجانے کے بعدانڈیا کے چیف آف ڈیفنس سٹاف بپن راوت نے بھارت میںنام نہاد بحالی یا’’ڈی ریڈکلائزیشن ‘‘کیمپوں میںنابالغ اورکمسن کشمیری بچوں کی موجودگی کا خوفناک رونگٹے کھڑاکرنے والا اعتراف کیا ہے۔ اس انکشاف پرمقبوضہ کشمیرمیں زبردست تشویش اورفکرمندی کی ایک لہرپیداہوئی ہے۔کیونکہ دراصل کشمیری نوجوانوں اور بچوں کی بحالی اور اصلاح کے نام پر بنائے گئے تعذیب خانے ہیں جو انہیں ذہنی اورجسمانی طورپرمعذوربنانے کے لئے بنائے گئے اوریہ کشمیریوں پر بھارتی ظلم و ستم کی ایک نئی شکل ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ بھارتی حکومت کومقبوضہ وادی میں اسلامیان کشمیرکی طرف سے جس شدید مزاحمت کا سامنا ہے وہ اس سے خوفزدہ ہو کر کمسن کشمیری بچوں اورکڑیل نوجوان کیBrainwashing کیلئے شرمناک اورمذموم منصوبے بنارہی ہے تاکہ جدوجہد آزادی کی تحریک کی شدت اور حدت کو توڑا جا سکے۔ بھارتی جنرل کے اس اعتراف و انکشاف کے بعد عالمی اداروں اورانسانی حقوق کے لئے کام کرنے والی تنظیموں کو چاہیے کہ وہ ’’ ڈی ریڈکلائزیشن ‘‘کے نام پربھارت میںچلائے جانے والے ان نئے تعذیب خانوں کوتلاش کریں اورکشمیری مسلمانوں کی نسل کشی کی نئی اورمذموم سازش کوطشت ازبام کرکے کشمیری مسلمانوں کی نسل کشی کے تمام حربوں اورہتھکنڈوں پر روک لگادیں ۔ مقبوضہ وادی کشمیر میں5اگست کے بعد گیارہ سال سے کم عمر بچے اور بعض گرفتار ہونے والے بچوں کی عمریں دس سال سے بھی کم ہیںیہ بچے اپنے گھروں سے اٹھالئے گئے اورتاحال ان کاکوئی پتہ نہیں لگ رہاکہ انہیں کن کن حراستی مراکزاورجیلوں میں رکھاگیاہے ۔گرفتارشدہ کم سن بچوں کے والدین اورانکے لواحقین اپنے لخت ہائے جگرکوتلاش کرنے کاموقع نہیں دیاجارہاہے کیونکہ گذشتہ 6ماہ سے کشمیرمیں شدیدقسم کی قدغنیں اورپابندیاںعائدہیں۔ مقبوضہ کشمیر کی آبادی کا 40 فیصدکمسن بچوں اورنوجوانوں پرمشتمل ہیں۔ ایسے میںانڈیا کے چیف آف ڈیفنس سٹاف بپن راوت کے انکشاف سے صورتحال انتہائی تشویشناک رخ اختیارکرچکی ہے اورسینکڑوں بچوں کے لواحقین اورانکے والدین اپنے جگرگوشوں تک رسائی دینے کامطالبہ کررہے ہیں۔ جنرل راوت کے اس انکشاف کے بعد اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ بھارت کی طرف سے5اگست2019ء کے بعداٹھائے جانے اقدامات پر جس نسل کشی کا خدشہ ظاہر کیا جاتا رہا ہے وہ اب پوری طرح واشگاف ہو چکی ہے۔ اسلامیان کشمیرمیںایک طرف طبی سہولیات کی عدم دستیابی سے اموات ہو رہی ہیں، بدترین تشدد کی وجہ سے لوگوں کی زندگی ختم ہو رہی ہے تودوسری طرف ان کے جگرگوشوں بچوں اور نوجوانوں کی گرفتار کرکے تعذیب خانوں میں دھکیل دیاگیا ہے۔ دنیا کی تاریخ میں دس سال سے کم عمر بچوں کی مذہبی بنیادوں پر گرفتاری کی کوئی مثال شاید ہی ملتی ہو لیکن مقبوضہ کشمیر میں یہ ظلم بھی ہو رہا ہے اور اعلاناََہو رہاہے اوراعلان بھی ایک بہت بڑے بھارتی فوجی عہدے دارکر رہے ہیں۔ ایسے تعذیب خانوں میں کمسن کشمیری بچوں پر ہونے والے مظالم کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ ان کیمپوں میں ٹارچرکے تمام اقسام ان کے ذہنوں پر آزمائے جارہے ہیں توپھروہ اگرکبھی چھوٹ بھی جائیں توانکی ذہنی کیفیت کیاہوگی محتاج وضاحت نہیں۔مقبوضہ کشمیرکرہ ارضی کاوہ خطہ ہے جہاں بلالحاظ جنس وعمرکشمیری مسلمان قابض بھارتی فوج کے ہاتھوں سرعام قتل ہورہے ہیں، مساجد کو بند کر دیا جاتاہے، تو وہاں بچے گرفتار کیے جائیں گے تو ان سے کس سلوک کی توقع کی جا سکتی ہے۔یہ دراصل گذشتہ 6ماہ کے لاک ڈائون میں طاقت کے زور پر ظلم کی نئی داستان رقم ہو رہی ہے۔ انسانی حقوق کی اس سے بڑی خلاف ورزی اور کیا ہو سکتی ہے کہ دس سال یا اس سے بھی کم عمر بچوںکوتعذیب خانوں میں ڈال دیا جائے۔ بھارتی حکومت اس اہم معاملے پر بھی ہمیشہ کی طرح جھوٹ بول کر دنیا سے حقیقت چھپانے کی کوشش کر رہی ہے لیکن آخرمظالم کوکب تک چھپایا جا سکتا ہے۔عالمی سطح کی انسانی حقوق کی تنظیموں کو اس اہم ترین مسئلے پر حرکت میں آنا چاہیے۔ جنرل راوت کاانکشاف اس امرپرمہرتصدیق ثبت کرتاہے کہ اب تک بھارتی حکومت نے کشمیری مسلمانوں پرلگائی گئی قدغنوں اورپابندیوں میں کوئی نرمی نہیں لائی گئی اورسختیاں بدستوربرقرار ہیں۔ ہزاروں گرفتاریاں ہو چکی ہیںاورگرفتارشدگان کا قصور بھارتی قبضے کے خلاف آواز بلند کرنا ہے۔ بھارت ان کی رائے نہیں بدل سکا تو اس نے فوجی طاقت کے ذریعے سے بچوں کی آوازوں کو بند کرنے کا سلسلہ شروع کیاگیا ہے۔ لاک ڈائون میں کشمیری مسلمانوں کو ختم کرنے کے لیے تمام حربے اختیار کیے جا رہے ہیں۔ دیکھنایہ ہے اس روح فرساانکشاف کے بعد عالمی ضمیرجاگ اٹھتاہے کہ کشمیرکے کمسن بچوں پر ہونے والے مظالم پرکوئی آوازاٹھتی ہے یا پھر یہاں بھی معاشی مجبوریاں آڑے آئیں گی۔ کشمیری مسلمانوں پرڈھائے جانے والے بھارتی مظالم کی ایک طویل اورلمبی فہرست ہے۔بھارتی بربریت کے دوران ایک لاکھ سے زائد کشمیری مسلمان شہیدہوچکے ہیںہر5کشمیریوں پر ایک بھارتی فوجی تعینات ، 6 ہزار سے زائد نامعلوم اجتماعی قبریں دریافت ہو چکی ہیں جنہیں قابض بھارتی فوج نے اغوا کر کے تشدد سے شہیدکردیا۔قابض بھارتی فوجی اہلکاروں کی بربریت کے باعث 80 ہزار سے زائد بچے یتیم ہوچکے ہیں ، مسلسل ظلم و ستم اور تنائو کے باعث 50فیصد بالغ کشمیری پی ایس ٹی ڈی نامی دماغی مرض کا شکار ہوچکے ہیں۔5 اگست سے تادم تحریر6ماہ پورے ہونے کوآرہے ہیں کہ ہر دن کشمیریوں کے لیے تکلیف، اذیت اور پریشانی میں اضافے کا باعث بنا ہواہے۔ کھانے پینے کی اشیا اور ادویات کی قلت کا سامنا ہے۔ جان بچانے والی ادویات کی قلت سے زندگی کے امکانات کم ہوتے جا رہے ہیں۔تعلیمی ادارے بند ہیں، مساجد میں نماز جمعہ کی ادائیگی سے روک دیا گیا ہے۔کشمیری مسلمانوں کے اثاثہ جات ان سے لوٹ لئے جارہے ہیںاور لاک ڈائون سے کشمیریوں کی زندگی بدتر ہو گئی ہے۔