مقبوضہ کشمیر میں موجودقابض انڈین فوج کے کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل ڈھلوں نے بہادر کشمیری مائوں سے اپیل کی کہ وہ اپنے بیٹوں سے کہیں کہ وہ ہتھیار ڈال دیں ورنہ انھیں مار دیا جائے گا۔ان کا کہنا تھا کہ میں کشمیری ماں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ اپنے بچوں کو سرینڈر کروائیں ورنہ انھیں مار دیا جائے گا۔ بچوں کی پرورش میں ماں کا ایک اہم کردار ہتا ہے۔ آپ اپنے بیٹوں کو بتا دیں کہ وہ واپس آ جائیں ورنہ مارے جائیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ جو بندوق اٹھائے گا، ہلاک ہو جائے گا۔انڈین فوج کی 15ویں کور کے کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل کے ایس ڈھلوں نے یہ بات 19 فروری منگل کو ایک پریس کانفرنس میں کہی۔ 14 فروری کو کشمیر کے جنوبی ضلعے پلوامہ میںقابض بھارتی فوج پرفدائی حملے میں 49اہلکار ہلاک ہوئے تھے۔ اس کے صرف تین دن بعدپیر کو پلوامہ میں ہی کشمیری مجاہدین اورقابض بھارتی فوج کے درمیان ایک معرکے میں ایک میجر سمیت چار انڈین فوجی مارے گئے ۔دریں اثنامودی سرکار نے مقبوضہ کشمیر میں فوری طور پر فوج کی 100نئی کمپنیاں تعینات کرد ی ہیں جس سے سرینگرپرفوج کشی کی تعدادمیں مزید10ہزارفوجی اہلکاروں کااضافہ ہوگیا۔سوال یہ ہے کہ کیابھارتی لیفٹیننٹ جنرل کی اس اپیل کاکوئی اثرنظرآسکے گا۔ آیئے اس امراورکشمیری مائوں کی بہادری پرایک اجمالی نظر دوڑاتے ہیں کہ قابض انڈین فوج کے کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل ڈھلوں نے جن کشمیری مائوں کوڈرانے‘ دھمکانے کی ناپاک کوشش کی وہ کشمیرکی بھارت سے آزادی اورکشمیرمیں آلائے کلمہ الحق کے لئے اپنے بچوں کی قربانی دینے پرکتنی پرعزم ہیںکشمیری مائیں گزشتہ تیس برسوں سے مسلسل جومصائب جھیل رہی ہیں۔ عصرحاضرمیں اسکی کوئی مثال نہیں ملتی ، مقبوضہ کشمیر کرۂ ارض پر واحد خطہ ہے کہ جہاں مائوں کی گود اجاڑ کر ان کے لخت ہائے جگرچھین کرسرعام ذبح کئے جارہے ہیں اور ایسے گھنائونے جرائم رونما ہورہے ہیں۔جہاں اِس طرح کی ظالمانہ وارداتوں پر میڈیاکی زبان گنگ ہو جاتی ہے جہاںمجرموں کی گرفتاری کے لئے کوئی شورنہ اٹھ رہاہو۔سچی بات یہ ہے کہ بھارتی فوجی درندوں کے ہاتھوں کشمیر کی صنف نازک کے ساتھ جو وحشیانہ سلوک ہو رہا ہے ، اس پر دل افسردہ، اور پوری قوم شرمندہ ہے۔ان دل دہلانے والے خوفناک جرائم کی روک تھام۔ کشمیر کی ان ایثار کیش ،خندہ پیشاں، کردارساز،تقویٰ و پرہیزگار خواتین اسلام کو سلام، بلاشبہ تاریخ کشمیرخواتین کشمیرکی قربانیوں، کردار اور خدمات کا تذکرہ کئے بغیر نامکمل رہے گی ۔ خواتین کشمیرکی تاریخ یہ ہے کہ گزشتہ 30برسوں سے ظالم بھارت کے دست تظلم سے بچنے کے لئے انہیںاپنے گھروں سے بے دخل ہوناپڑا،ان میں ایسی اولوالعزم خواتین بھی ہیں کہ جنہیں تعذیب خانوں سے گزارا گیا۔ان کی تاریخ ہے کہ ظلم کے خلاف ہاتھوں میں پتھراورلاٹھیاں،گانگڑیاںاورکلہاڑیاں لیکرظالموں کو دعوت مبازرت دیکرسڑکوں پرنکل پڑتی ہیں۔یہ وہ خواتین اسلام ہیں کہ جبروجورکسی بھی طور پرقبول نہیں کرتی۔ کشمیرکازکے ساتھ ان کی اس نوعیت کی کمٹمنٹ کو تاریخی طورپربہت زیادہ اہمیت حاصل ہے اورتاریخ کشمیرمیںانکی بہادری اورانکی عظمت پر مشتمل باب، آب زرسے لکھاجائے گا۔ جوان رعنا ریاستی دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ کرابدی نیند سو جائے تویہ ایک ایسا سانحہ ہوتاہے کہ اس پر خود کو گریہ پیہم سے بچانا اور خاموش رہنا ممکن نہیں ۔ انسان جس قدر صابر و شاکر کیوں نہ واقع ہوا ہو،مگر اس موقع پر قوت برداشت مکمل طورپر جواب دے جاتی ہے اور وہ بے اختیار آنسوبہانے پر مجبور ہو تے ہیں۔ ایسے عالم میں زندگی کے سارے فلسفے، ساری حکمتیں اور محکم ضوابط، دکھی دل کے ردعمل کو روکنے میں ناکام ثابت ہوتے ہیں۔ 1990ء سے آج تک کوہ گراں بنی ہوئیں کشمیری مائوں کی بے لوث کمٹمنٹ، ان پرروارکھے جانے والا کثیرالجہت مظالم اور جبر انہیں جادہ حق سے خوفزدہ نہ کرسکا ۔ حالات کے مدوجزرکے ساتھ ساتھ کشمیرمیں کئی فتنے اٹھے جن میں ’’بھوت آپریشن ‘‘اور ’’فتنہ نابدیت ‘‘جیسے خوفناک فتنے شامل تھے ،اس کثیر الانواع فتن سے حالات نے مختلف کروٹیں بدلیں۔ لیکن اس سب کے باوجود کشمیری مائوںنے اپنے بنیادی حق کے حصول کے مطالبے سے قطعاً نہیں بدلیں اور ان کی شناخت بہادر خواتین کے طورپرقائم رہی۔کشمیری مائوںکے خلاف حالیہ شورش اورتازہ یلغارگوکہ ایک خوفناک کیفیت کی حامل ہے،مگرصبر کی پیکرکشمیرکی مائیں اس نفسیاتی جنگ کامقابلہ کرکے دشمن کی اس سازش کواس کے منہ پر ماردیںگی۔ قابض بھارتی فورسز کے ہاتھوں کشمیری خواتین کو تختہ مشق بنا یاجارہاہے خواتین کی شہادتیں واقع ہو رہی ہیںاورانکی آبروریزی کی گئی جس نے کشمیریوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے ۔ اکیسویں صدی کے اس دور میں جب ساری دنیا خواتین کے حقوق یک زباں ہے، کرۂ ارضی پر یہ قطعہ سرزمین بھی ہے، جہاں خواتین کے جان و مال کی حفاظت ، خاص طور پر سرکار کے ہاتھوں، کی کوئی ضمانت نہیں۔نہ کوئی معیاری ضابطہ کار۔ گزشتہ برس کے اواخرمیں بٹہ مڈن شوپیاں میں ایک ایسی خاتون کوبھارتی قابض فوج نے شہید کر دیا جو آٹھ ماہ کی شیر خوار بچی کی ماں تھی ۔ شہیدہ کو گھر کے اندر اس وقت گولی مار دی گئی جب وہ کھڑکی سے باہر کے حالات دیکھنے کی کوشش کررہی تھی۔اس سے پتا چلتاہے کہ بھارتی قابض فوج نے تشدد کا ایک ایسا جال پھیلایا ہوا ہے کہ جس میں بغیرلحاظ عمرو جنس کشمیری پھنس گئے ہیں اور اس جرم عظیم کوجوا ز بخشنے کیلئے کراس فائرنگ کی وسیع اصطلاح استعمال کرکے معاملے کو گول کرنے کا معمول بن گیا ہے۔ کشمیری مائیںگولیوں سے چھلنی اپنے بچوں کے لاشوںاور چھروں سے چھیدے ہوئے انکے چہروںکا سامنا کرتے ہوئے، آج تک اپناحوصلہ ہارنہیں بیٹھیں یہ اپنے شیردل بیٹوں کے ہمراہ یک ہی منزل کی راہی ہیں۔منزل مرادپانے کے لئے انکے قدم سے قدم ملاکروہ رواں دواں ہیں۔کشمیر ی مائوں کی آنکھوں میں ایک ہی خواب ہونٹوں پر ایک ہی نعرہ ہے اوروہ ہے ’’بھارت سے آزادی‘‘ ۔