زمین کی پشت پر خلق خداایک بہت بڑی طاقت ہے اور کوئی ذی ہوش اس طاقت سے آنکھیں چرانہیں سکتا ۔ یہ الگ بات ہے کہ چاردانگ عالم اقتداری ٹولے نے عوام پر سواری گانٹھ رکھی ہے جس کے ذریعے عوام کی طاقت وقتی طور پر کمزور دکھائی دیتی رہی اوروہ اس قدر بوجھ تلے دبی نظرآتی رہی ہے کہ لمحہ بھربندہ یہ سوچتا کہ شائد کبھی یہ طاقت اٹھ نہ سکے گی لیکن جب یہ اپنے وجدمیں آکر ایک بار اٹھ جاتی ہے اورعوام کاسیلابستان رواں ہوجاتاہے توپھرچشم فلک دیکھتی ہے کہ یہ اپنالوہا منواکرہی دم لیتی ہے اورپھر آشفتہ سر بہار آمد نگار آمد کا نظارہ کرتے ہیں۔کشمیرکے ہنگامہ امروز سے نابلد،ناہنجار بھارت ابھی تک کشمیرکی خلق خداکے نقارہ کاادراک کرنے سے مکمل طورپرقاصرہے یاجان بوجھ کرحقائق سے آنکھیں چراتاہے؟ اہل کشامرکا نغمہ انقلاب جب جب فضا میںگونج اٹھا توبنیاکے پالیسی سازادارے سرپیٹنے لگتے ہیں اور وہ ورطہ حیرت میں پڑجاتے ہیں کہ آخرانقلاب کے نغمہ خوانان کشامرکوکیسے چپ کرایاجائے چنانچہ وہ اپنے تمام دائوپیچ کھیلنے لگ جاتے ہیں۔کشمیرمیں حال ہی میںچار مراحل پر منعقدکرائے جانے والے نام نہادبلدیاتی الیکشن بھارتی دائوپیچ کاحصہ تھا۔ ماضی میں وہ بھارت نواز نیشنل کانفرنس اورپیپلزڈیموکریٹک پارٹی کے اقتداری ٹولے کوکام پرلگادیتا تھا۔یہ غلام درغلام اور بھارتی وظیفہ خورہندکی دہلیز پر اپناسب کچھ پٹخ دینے کی ایک لمبی سیاہ تاریخ رکھتے ہیں۔ 1947ء سے 1953ء تک شیخ عبداللہ کی کے ذریعے ریاست جموں وکشمیرکے غیورعوام کو چپ کرانے کے لئے چکمہ دیتے ہوئے رائے شماری کا تماشہ لگا دیا اور بالآخر قومے فروختند کا مرتکب ہوا، اسکے بعدتواترکے ساتھ بھارت نوا جماعتوں میں سے کسی نے خود مختار کشمیر کا چکمہ دیا، کسی نے خود حکمرانی کا خواب دکھایا، کسی نے خوش حال کشمیر کا بہلاوا دیا ، کسی نے صحت مند کشمیر کاجل دیا ، کسی نے انسانیت کشمیرکا نعرہ دیا، کسی نے مرہم کشمیر کا دلاسہ دیا لیکن ا ن سب کھلونوں اور تماشوںکا لب لباب بس کشمیری عوام کااستحصال اور اپنے اوراپنی اولادکے لئے حصول کرسی اقتدار تھا، جوں جوں کشمیری عوام کوبات سمجھ میں آنے لگی تو ناامیدی کے منحوس سائے چھائے ہونے کے باوجود مظلومستان کشمیرمیں پیچ وتاب کاایک آتش فشاں پکنے لگا 1990ء میں جوبالآخر پھٹ گیا اور تب سے یہ آتش فشاں لاوااگل رہاہے۔ پوری دنیا کشمیر کے اس عوامی آتش فشاں سے اگلنے والے لاوے کو دیکھ رہی ہے خاموش تماشہ دیکھ رہی ہے کہ کس طرح کشمیریوں کوموت کے گھاٹ اتارا جاتا رہے گا۔ماضی قریب میں جب 25 اگست جمعرات 2016ء کوسری نگر میں صحافیوں کے سخت اور تیکھے سوالات کی بوچھاڑ ہونے پر جب اس وقت کی خاتون وزیراعلیٰ پھٹ پڑیں اور بھڑاس نکالتے ہوئے کہہ دیاکہ5فیصد لوگ 95 فیصد لوگوں کو یرغمال نہیں بنا سکتے۔ اسلامیان کشمیر کے قاتل بھارتی وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ کی مشترکہ پریس کانفرنس میں اس وقت عجیب اور ڈرامائی صورتحال نظر آئی جب کٹھ پتلی خاتون وزیراعلیٰ میڈیانمائندگان کے سوالات سے تلملا اٹھی۔ سوال نہایت سادہ تھالیکن کسی صحافی نے یہ سوال اٹھانے کی تاب نہیں لائی کہ جب معاملہ محض پانچ فیصد کا کھڑاکردہ ہے توپھربھارتی فوج پچانوے فیصد عوام کو موت کے گھاٹ اتارنے پرکیوں تلی ہوئی ہے ، کیوں پھر تم نے بہیمیت ،حیوانیت ، ابلیسیت اور چنگیزیت کا ننگا ناچ رچاکر یہاں انسانیت کی مٹی پلید کر دی ، پھر بھارتی فوج نے کشمیرکوظلام کی نگری،ستم کی بستی ،لہوکی کھیتی، خون آغشتہ مصائب، غموں کا سرگرم کیوں بنا ڈالا ہے۔ پھر سلاسل کی اس جھنکار، پیلٹ گن کی مار، بندشیں اوریہ قدغیں اور مظاہرین پر گولیوں کی بارش کا جواز کیا۔ آج اکتوبر 2018ء ہے اوروقت نے ثابت کر دیا کہ کشمیرمیں صرف4فیصدلوگ مرعوب اورخوفزدہ ہیں جبکہ96فیصدکشمیری مسلمان آزادی کی تحریک کے ساتھ دل وجان سے جڑے ہوئے ہیں اوراپنے خواب کی تعبیرچاہتے ہیں۔ 8اکتوبرسے 16 اکتوبر تک چار مراحل پر جموں و کشمیر میں نہام نہاد بلدیاتی انتخابات پر ڈرامہ ہوا اور ڈھونگ رچایا گیا جس کے آغاز پر کشمیری عوام کا بائیکاٹ بھارت کیلئے چشم کشا ہے۔ وادی کے 598وارڈوں میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 10 لاکھ 32ہزار 498 بتائی گئی، جموں کے521 وارڈوں میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 6 لاکھ 44 ہزار 568 جبکہ لداخ کے 26 وارڈوں میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 20 ہزار 225 ہے۔ ان میں سے 250 وارڈوں میں کوئی امیدوار کھڑا نہیں ہواجبکہ 260 میں کشمیر کو چھوڑکرجموں اور دہلی چلے گئے کشمیری ہندووں ’’کشمیری پنڈتوں‘‘ کو وادی کشمیرمیں تیس برسوں سے موجود نہ رہنے کے باوجود بلامقابلہ کامیاب قرار دیا گیا۔ وادی کشمیرمیں چاروں مراحل پر کسی ووٹر نے پولنگ بوتھ کی طرف رخ نہیں کیا۔ سری نگرمیںالیکشن آفیسر شانت منو نے اعتراف کیا کہ کشمیری عوام پولنگ بوتھوں کی طرف نہیں آئے جبکہ پولنگ عملہ دن بھران کے انتظارمیں تھا۔انہوں نے انتخابات کی شرح کوانتہائی مایوس کن قراردیتے ہوئے کہاکہ کشمیرکے حریت پسندوں کو کئی ہفتوں سے گھروں یا جیلوں میں نظربند کیا گیا لیکن اس کے باوجود انتخابات پر بائیکاٹ کا اثر غالب رہا۔الیکشن آفیسر شانت منونے 4 فیصدووٹ کاسٹ ہونے کا دعویٰ کیا حالانکہ منطقی اور ریاضی طور پرکشمیری اسے صحیح اور درست نہیں مانتے۔ کیونکہ8لاکھ بھارتی فوج کی موجودگی میں الیکشن کا ڈھونگ رچانا اس شرح کی اعتباریت باقی نہیں رہتی ہے۔ نام نہادبلدیاتی الیکشن ڈرامے کے نام پر یہ دراصل وادی کشمیرمیں ایک’’ فوجی آپریشن ‘‘تھا جسے کامیاب بنانے کے لیے حسب سابق بے تحاشا ظلم وبربریت کیا گیا۔سری نگرمیںنام نہادانتخابی کمیشن کے مطابق پولنگ کا عمل صبح سات بجے سے شام تک جاری رہا لیکن کشمیریوں نے بلدیاتی انتخابات کے چاروں مراحل کو مستردکرتے ہوئے الیکشن کا بائیکاٹ کیا۔ واضح رہے جن 4فیصدووٹرز کاجودعویٰ کیاگیایہ ان علاقوں کے اعدادوشماربتائے گئے کہ جوکلی طور پر بھارتی فوج کے رحم وکرم پرجی رہے ہیں اوروہاں فوج کی اجازت کے بغیرکسی دوسرے علاقے کے مکین کو جانے نہیں دیا جاتا۔ ان علاقوںمیں ’’ شرح آبادی سے شرح فوج ‘‘ زیادہ ہے اورگن پوائنٹ پر ان علاقوں کے مکینوں سے ووٹ ڈلوائے گئے ان علاقوں میں بارمولہ کااوڑی علاقہ اورکپواڑہ کے مژھل ،کرناہ اور کیرن علاقے ہیں۔ وادی کشمیر میں عوام الناس نے نام نہادبلدیاتی الیکشن کا بائیکاٹ، لاتعلقی اور بے رخی کا بھر پور مظاہرہ کرکے عملی طور پر اس امر کو واشگاف کر دیا کہ وہ خون سے سینچی تحریک آزادی کی اس وقت تک آبیاری جاری رکھیں گے جب تک انہیں منزل مقصود نہیں مل جاتی۔