اندھا دھند بلٹ اور پیلٹ کے ذریعے کشمیری مسلمانوں کو بے دردی سے شہیدکرنے کی کارروائیوںسے کشمیریوں کو اس عظیم نصب العین سے دورنہیں کیاجاسکتا جس بلند نصب العین کے حصول کیلئے وہ پون صدی سے بالعموم اورگزشتہ تین دہائیوں سے بالخصوص جان و مال اورہرطرح کی قربانیاں دے رہے ہیںاوران عظیم قربانیوں کو کسی بھی قیمت پر نہ تو فراموش کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی ان قربانیوں کو نظر انداز کیا جاسکتا ہے ۔اس میں کوئی دورائے نہیں کہ یہ قربانیاں ملت اسلامیہ کشمیرکی تحریک آزادی کیلئے انمول اثاثہ کی حیثیت رکھتی ہیں ۔قابض بھارتی فوجی درندے کشمیریوں کا خون بے دریغ بہارہے ہیںاوراس طرح ملت اسلامیہ کشمیر کو ہرروزبھارتی قابض فوجی درندوںکے ظلم و جور کا سامنا ہے ۔کھارپورہ سرنو پلوامہ میں قیامت صغری بپا کرنے اور کشمیریوں کے خون کی پیاسی سفاک بھارتی فوج سرزمین کشمیرکے چپے چپے کو خونِ ناحق سے لالہ زاربنانے سے کشمیریوں کواپنے حق سے ہرگز دستبردارنہیں کرسکتی ہے۔اگراسے اس امرمیں کوئی شک ہے تووہ کشمیری مسلمانوں کی اس جرات رندانہ پرغورکریں۔جوہرمعرکے کے بعدانکی طرف سے سامنے آجاتی ہے۔ 15دسمبرہفتے کی صبح قریب ساڑھے 8بجے مقبوضہ کشمیرکے جنوبی ضلع پلوامہ کے کھارہ پورہ سرنو گائوں میں کشمیری مجاہدین اوربھارتی قابض فوج کے مابین معرکے کے اختتام پر قریبی دیہات سے لوگ مجاہدین کے جسدخاکی وصول کرنے کیلئے پہنچے اور وہ اسلام اورآزادی کے حق میں نعرہ زن تھے تو دیکھتے ہی دیکھتے قابض سفاک بھارتی فوجی اہلکاروں نے بندوقوں کے دہانے کھول دیئے جن سے نوجوان زمین پر گرتے چلے گئے۔علاقے میں شدت کی افراتفری پھیل گئی، زخمی اور زمین پر تڑپتے رہے لیکن قابض فورسزکی طرف سے گولیوں کی بوچھاڑمسلسل ہوتی رہی۔بربریت اورسفاکیت کاکھیل کھیلنے کے بعدقابض فوجی درندے جب موقع سے واپس چلے گئے توعلاقے کے مکینوںنے لاشوں اور زخمیوں کو اٹھانا شروع کردیا۔اس فوجی بربریت میںجو14نوجوان شہیدہوئے ان میں سے چندایک کے نام یہ ہیںسہیل احمد ساکن بیلو راجپورہ،لیاقت احمد ڈار ساکن پاریگام، عاقب احمد بٹ ساکن پرچھو،عامر احمد پال ساکن اشمندر، عابد احمد لون ساکن کریم آباد شہباز علی ،مرتضی احمد ساکن پرچھو، اشفاق احمد جبکہ تنویر احمد، توصیف احمدساکن ارچرسو صدر ہسپتال سرینگر میں زخموں کی تاب نہ لا کر دم توڑ بیٹھا۔ان سب شہداء کواپنے اپنے آبائی علاقوں میںہفتے کی شام اشک بار آنکھوں سے سپرد لحد کیا گیا ۔جس دوران سخت ماتم ہڑتال،بندشوں کے باوجودلوگوں کی ایک بڑی تعداد نے شہدائے نوجوانوں کے نماز جنازے میں شرکت کر کے اسلام اور آزادی کے حق میںنعرے بلندکئے۔ ساراقصبہ پلوامہ ماتم کدے میں تبدیل ہوا ۔ پلو امہ میں قابض بھارتی فوج کی فائرنگ سے شہیدہونے والوں میں سے ایک ماسٹرز ڈگری یافتہ نوجوان بھی شامل ہے جس نے انڈونیشیا میں شادی کی تھی اور اسکے ہاں تین ماہ کا بچہ بھی ہے۔ عابد حسین لون ولد محمد حسین لون ساکن کریم آباد پلوامہ نے گزشتہ سال انڈونیشا سے اپنی تعلیم حاصل کی اور وہاں پر ہی شادی کی تھی۔اسکے بعد وہ گھر واپس آیا اور 3ماہ قبل اسکے ہاں بچی بھی پیدا ہوئی ہے۔اس دوران آٹھویں جماعت کے ایک طالب علم کی ہسپتال میں لاش دیکھ کر اسکا والد غش کھا کر گر پڑا۔ آٹھویں جماعت کا طالب علم عاقب بشیر بٹ عرف مرتضی ساکن پرچھو پلوامہ کا والد اس وقت ضلع ہسپتال سے گزر رہا تھا جب یہاں لگاتار زخمیوں کو لایا جارہا تھا۔اسکے دل میں خیال آیا کہ میں ضلع ہسپتال میں موجود زخمی نوجوان کا چہرہ دیکھوں، جونہی وہ ہسپتال میں داخل ہو ا تو اس نے اپنے ہی بیٹے کو موت کی آغوش میں پا یا ۔ اس پر قیامت ٹوٹ پڑی ۔ کھارپورہ سرنو پلوامہ میں قابض بھارتی فوجی درندوں کی براہ راست فائرنگ سے پلوامہ ضلعی ہسپتال میں لاشوں اور زخمیوں کو لانے کا سلسلہ شروع ہوا۔ دیکھتے ہی دیکھتے ہسپتال میں افسوسناک مناظر دیکھنے کو ملے۔ڈاکٹر کاکہنا کہ انہیں اس طرح کی صورتحال کا اندازہ نہیں تھا ، لہٰذا جو جو زخمی لائے گئے انہوں نے انکا اندراج کرنا شروع کردیا۔ ان کاکہناہے کہ 32افراد کے آنے تک وہ اندراج کرنے میں کامیاب ہوئے جن میں سے 6لاشیں تھیں، جو ہسپتال پہنچنے سے قبل ہی شہید ہوئے تھے، جبکہ دیگر افراد میں 23کو گولیاں لگی تھیں جن میں سے 14کو سرینگر منتقل کردیا گیا۔انکا کہنا تھا کہ 12افراد، جنہیں گولیوں سے معمولی زخم آئے تھے کو ضلع ہسپتال میں ہی داخل رکھا گیا جبکہ سرینگر میں بعد میں ایک نوجوان کی موت واقع ہوئی۔انکا کہنا تھا کہ ہسپتال کے بلڈ بینک میں 20پوائنٹ خون جمع تھا، جو زخموں کو چڑھایا گیا، لیکن جب زخمیوں کی تعداد زیادہ ہوئی تو نہ انکی رجسٹریشن ہو سکی اور نہ اتنا خون ہسپتال میں جمع تھا۔ ان کاکہناتھاکہ اسکے بعد ہسپتال لائوڈ اسپیکر سے خون کا عطیہ دینے کا اعلان کیا گیا اور ڈیڑھ گھنٹے میں نوجوانوں نے رضاکارانہ طور پر 50پوائنٹ خون عطیہ میں دیا۔ادھر پلوامہ سے جن زخمیوں کو سرینگر لایا گیا، ان میں سے 5کو صدر ہسپتال میں داخل کیا گیا جن میں سے 3کو گولیاں لگی تھیں اور دو کی آنکھوں میں پیلٹ آئے تھے۔ ان میں سے بعد میں ایک دم توڑ بیٹھا جبکہ ایک کی حالت بدستور نازک ہے۔ادھر سری نگرکے سب سے بڑے ہسپتال صورہ میڈیکل انسٹیٹیوٹ میں دو زخمیوں کو لایا گیا جن میں سے ایک کو گولی لگی تھی جبکہ ایک کے سر میں شل آیا تھا، اسکی حالت بھی نازک ہے جبکہ 7کو سری نگر کے ہڈی جوڑ کے برزلہ ہسپتال میں داخل کیا گیا اور ان ساتوں کو گولیاں لگی تھیں۔ پلوامہ ضلع اوراس کے ارد گرد دیہات میں کربلا جیسا سماں بپا کیاگیا اورکشمیرمیں ہرسانحے کے بعد بھارت کے چہرے سے جمہوریت کے جھوٹے نقاب اتررہے ہیں اور اس کے ظالمانہ منصوبے طشت از بام ہورہے ہیں کہ وہ کشمیری مسلمانوں کی نسل کشی کے درپے ہے اور ظلم و جبر کے خلاف احتجاج کرنے والے لوگوں پر راست فائرنگ سے واضح ہوتا ہے کہ کشمیری نوجوانوں کی نسل کشی پر عمل کیا جارہا ہے اورپلوامہ سانحہ سے بھارتی فورسز کا بھیانک چہرہ عیاں ہوگیاہے۔