دشت کی پیاس بڑھانے کے لئے آئے تھے ابر بھی آگ لگانے کے لئے آئے تھے ایسے لگتا ہے کہ ہم ہی سے کوئی بھول ہوئی تم کسی اور زمانے کے لئے آئے تھے مجھے اسی تناظر میں بات کرنا تھی کہ کل بارش اتری تو بجلی غائب ہو گئی۔ بارش تو دو تین گھنٹے برسی مگر بجلی چھ سات گھنٹے غائب رہی۔میں مرغزار کالونی کی بات کر رہا ہوں۔ یہاں م کے اوپر زبر ہے تو اس کا مطلب سبزہ زار ہوا اور اسے بارش کی ضرورت تو ہوتی ہے۔ مگر بجلی کے بغیر تو سارے برقی آلات بند ہو جاتے ہیں اور تو اور موبائل بھی اسی کا مرہون منت ہے۔ سب سے مزے کی بات یہ کہ لوگ صورت حال کے اتنے عادی ہو گئے ہیں کہ کئی کئی گھنٹے واپڈا سے رابطہ تک نہیں کرتے اور کریں بھی تو سب کو ایک ہی جواب ملتا ہے’’فون کی ٹوں ٹوں‘‘ اگر آپ خود جائیں تو عملہ ہی غائب ہوتا ہے۔ کبھی کبھی ایک جمائیاں لیتا ہوا شخص رسیور سائیڈ پر رکھ کر بیٹھا ہوتا ہے اور پوچھنے والوں کو ناگواری سے بتاتا ہے کہ فیڈر اڑ گیا ہے یا کہے گا مرمت ہو رہی ہے وغیرہ وغیرہ ۔ہاں اسے فال ڈائون ہی کہتے ہیں۔ مندرجہ بالا موضوع سے زیادہ اہم بات کشمیر ہے کہ جسے مودی کی ہٹ دھرمی اور ظلم نے لہو لہو کر رکھا ہے۔ آپ کچھ بھی سوچیں‘ دھیان اس طرف چلا جاتا ہے ۔ وہی کہ لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر کیا کیجیے۔ایسا ایسا تشدد کہ الٰہی توبہ‘ انسانیت سوز سلوک بے چارے نہتے کشمیریوں پر سچ پوچھیے تو مسلمانوں کے دلوں پر جیسے انگارے دہک رہے ہیں۔ کوئی پل چین نہیں پڑتا۔ اس پر مستزاد یہ کہ مسلمان حکمران زخموں پر نمک پاشی کر رہے ہیں اور امت مسلمہ کو ڈی مورل لائز کر رہے ہیں جس کی مثال یو اے ای کا ہزاروں مسلمانوں کے قاتل مودی کو اپنا سب سے بڑا ایوارڈ دینا کیا یہ اک پیغام نہیں ذلت و بے حسی کا۔ آپ اسے بے حمیتی نہیں کہیں گے تو کیا کہیں گے۔ مگر گمان کہتا ہے کہ یہ سب کسی ایجنڈا کا حصہ ہے۔ ایسے ہی جیسے مرسی کا پابند سلاسل ہونا اور پھر جاں سے گزر جانا۔ امریکہ اور اس کے حواریوں کو اسلام جمہوریت کے رنگ میں بھی پسند نہیں اور بے راہ روی کے ساتھ بے حیائی آمریت کی صورت میں بھی قابل قبول ہے۔ مجھے خوشی ہوئی کہ اتوار کے روز جب میں مولانا حمید حسین کے درس میں گیا جو کہ مرغزار کالونی کے خدیجتہ الکبریٰ پارک میں ہوتا ہے۔دوستوں نے حج کے حوالے سے مبارکباد دی۔ مگرمسرت اس بات پر ہوئی کہ اس روز کو کشمیر کے نام کیا گیا اور مولانا نے سب کو دعوت دی کہ اپنے اپنے خیالات کا اظہار کریں کہ اس صورت حال میں ہماری کیا ذمہ داری بنتی ہے۔ ہمارے محترم ڈاکٹر ناصر قریشی نے مجھے بھی آغاز کرنے کی دعوت دی مگر طبیعت ناساز تھی ۔ چنانچہ ملک شفیق احمد مائیک پر آئے۔ وہ بہت طرحدار مقرر ہیں مگر ان کے پیچھے باقاعدہ ایک سوچ اور تحریک کار فرما ہیں۔ انہوں نے کسی لگی لپٹی کے بغیر صاف صاف اصل حقیقت واضح کی۔ اصل میں بات وہی ہے کہ جو قائد اعظم نے کہہ دی تھی کہ کشمیر ہماری شہ رگ ہے اسی لئے بھارت ہماری شاہ رگ کو کاٹنے کی فکر میں غلطاں رہتا ہے اور اس کی موجودہ ناپاک جسارت بھی اسی کا شاخسانہ ہے وجہ یہ ہے کہ ہمارے سارے دریا کشمیر سے نکلتے ہیں۔ تبھی تو مودی نے کہا تھا کہ وہ پاکستان کو بوند بوند سے ترسا دے گا۔ ہم وہ سیاہ بخت ہیں کہ ہمارے تین دریا پہلے ہی ایوب خاں بیچ گیا۔ ہمارے دریا صحرا بن گئے۔ میں نے ایک نظم میں لکھا تھا: نہیں ہے امن کی آشا سے زخم سلنے کا بغیر جنگ کے پانی نہیں ہے ملنے کا اب ایسی ہی صورت حال کا سامنا ہمیں ہے۔ایک چیز کو ملک محمد شفیق نے واضح کیا کہ کشمیر پر ثالثی کا ایجنڈا نیا نہیں۔ دوسرے لفظوں میں کچھ طاقتوں کی عرصہ سے کوشش یہ ہے کہ وہ کشمیر کو فلسطین کی طرز پر تقسیم کر دیں۔ کشمیر کو لداخ ‘ وادی اور جموں میں تقسیم کر دیا جائے تاکہ اسے آسانی سے کنٹرول کیا جا سکے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ چین پر چیک رکھا جا سکے۔ یہی وجہ ہے کہ چین نے دو ٹوک الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ یہ ان کی سلامتی پر حملہ ہے اور وہ اس ایجنڈے کو کسی بھی صورت قبول نہیں کریں گے۔اس مقصد کے لئے بھارت کا وزیر خارجہ چین کے دورے پر گیا کہ انہیں مطمئن کر سکے چین نے اس سے بات تو ایک طرف اس کی طرف دیکھنا بھی گوارا نہیں کیا اور اسے واپس بھارت جانے کو کہا۔ چین کے کہنے پر سلامتی کونسل کا اس حوالے سے اجلاس بھی بلایا گیا۔ پاکستان تو اس کا ممبر بھی نہیں۔ ہوتے ہوئے بات یہاں تلک بھی آئی کہ ٹرمپ کی ثالثی اصل میں آزاد کشمیر کے لئے ہے مقبوضہ کشمیر کے لئے نہیں۔ غلام عباس جلوں نے جذباتی انداز میں کہا کہ ہمیں بھی عملی طور پر کشمیریوں کی مدد کرنی چاہیے اس بات پر سب نے صاد کہا۔ خود انہوں نے بیس ہزار روپے سے فنڈ کی بنیاد رکھی۔ میں نے بھی دس ہزار روپے دیے اور دوستوں نے بھی مقصد بتانے کا یہ ہے کہ کچھ نہ کچھ تو ہم بھی کریں۔ ان تک امداد کیسے پہنچتی ہے پہنچانے والے جانتے ہیں۔ کم از کم ایک بوجھ اپنے دل سے تو ہلکا ہوتا ہے۔ ہمارے اختیار میں جو ہے وہ تو کریں۔ ڈاکٹر ناصر قریشی نے کہا کہ کم از کم ہم اتنا تو کریں کہ بھارتی مصنوعات اور چیزوں کا بائیکاٹ تو کریں۔ اس حمیت کا بھی ثبوت دیں کہ بھارتی چینل نہ دیکھیں اور ان کے گانے نہ سنیں۔ گویا ہر طرح سے اپنے پاکستانی ہونے کا ثبوت دیں اور کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کا۔ کمال کی بات تو 95سالہ بوڑھے علی گیلانی نے کہی کہ اب بھی وقت ہے اگر کسی نے کچھ کرنا ہے تو کر لے۔ پھر وقت گزر چکا ہو گا اور آپ کے پاس صرف پچھتاوا ہی رہ جائے گا۔ اس حوالے سے دیکھا جائے تو ہم نے سوائے باتیں کرنے کے کچھ نہیں کیا۔ کل بھی سید ارشاد احمد عارف نے لکھا تھا کہ اب تک وزیر خارجہ کو کئی ملکوں کے دورے کر لینے چاہیے تھے۔ اس حوالے سے جماعت اسلامی کا کراچی میں ملین مارچ بہت ایمان افروز تھا جس میں سراج الحق صاحب نے کہا ’’مودی! سن لو ہم غزنوی ابدالی کی اولاد ہیں، سومنات پاش پاش کر سکتے ہیں۔آج ہمیں اسی جذبے کی ضرورت ہے۔ یہ فیس بک والے جہاد سے کام نہیں چلے گا۔ یہ بھی اچھا ہوا کہ سپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری نے سارک میں کشمیر کا مسئلہ اٹھایا۔ ہر پلیٹ فارم پر اس مسئلے کو اجاگر کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے ۔بہرحال برسات کے اس موسم میں کشمیر کے چناروں سے بھی لہو کی بوندیں برس رہی ہیں۔ ہمارے دل بھی روتے ہیں۔ ہمیں مگر کوئی نہ کوئی عملی صورت حال سوچنی ہے کہ ہم کشمیریوں کی مدد کر سکیں۔ کہ سورۃ النساء میں اللہ کہتا ہے کہ مومنو تمہیں کیا ہو گیا ہے تم ان مسلمان بھائیوں کی مدد کو کیوں نہیں نکلتے جو دشمن نے محصور کر رکھے ہیں۔