مقبوضہ کشمیر میں بھارتی ظلم کا سلسلہ جاری ہے اور تازہ واقعہ میں فوج نے گھر گھر تلاشی کے دوران 7کشمیری نوجوانوں کو شہید کر دیا ہے۔ ضلع گاندربل میں ایک بس مسافر اور ضلع رام بن میں بی جے پی کے مقامی رہنما کے اغوا کا ڈرامہ رچا کر شروع کیے گئے سرچ آپریشن میں چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال کیا۔ 5اگست کے بعد بھارتی فوج نے مسلسل کرفیو لگا کر 55روز سے کشمیری مسلمانوں پر زندگی تنگ کر رکھی ہے۔ بھارت کے سکیورٹی اہلکار خاص طور پر کشمیری لڑکوں اور نوجوانوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ نوجوانوں کو گھروں سے اٹھا لیا جاتا ہے کچھ کو گھر سے نکلنے پر انہیں مشکوک قرار دے کر گرفتار کر لیا جاتا ہے۔ مقامی افراد کا کہنا ہے کہ بھارت ان نوجوانوں کو دوسرے علاقوں کی جیلوں میں بھیج رہا ہے یا پھر انہیں شہید کیا جا رہا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں عالمی برادری کے سامنے کشمیر کا مقدمہ احسن اور بھرپور انداز میں پیش کیا۔ وزیر اعظم نے بتایا کہ تنازع کشمیر پر اقوام متحدہ نے 71برس سے ایسی قرار دادیں منظور کر رکھی ہیں جن میں اہل کشمیر کے حق خود ارادیت کو تسلیم کیا گیا۔ ایسا ہوتا ہے کہ کوئی علاقہ شورش زدہ ہو اور قابض ملک وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مقبوضہ آبادی کا اعتماد جیت لے، کشمیر کا معاملہ ایسا نہیں۔ کشمیری 1947ء میں چاہتے تھے کہ پاکستان کے ساتھ الحاق ہو۔ ان کی اکثریت کا آج بھی یہی مطالبہ ہے۔ ان کی اکثریت کا آج بھی یہی مطالبہ ہے۔ کشمیری عوام کا بھارت سے آزادی کا مطالبہ مسلسل اور ان کی قربانیوں میں تسلسل دکھائی دیتا ہے۔ مزاحمت کا جو سلسلہ سردار ابراہیم اور سردار عبدالقیوم اور سید علی گیلانی نے شروع کیا اور جس کے لیے مقبول بٹ سے لے کر برہان مظفر وانی تک نے جانیں دیں وہ سلسلہ پھیلتا جا رہا ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں مقبوضہ کشمیر کی المناک صورت حال کے ذکر پر شرکاء نے مودی کے ذکر پر شیم شیم کہا۔ دیرینہ دوست چین نے پاکستانی مؤقف کی تائید کی اور کہا کہ تنازع کشمیر کا جلد حل نہ نکلا تو خطے کا امن دائو پر لگ سکتا ہے۔ چین ابھرتی ہوئی سپر پاور ہے اور جنوبی ایشیا کی ترقی و استحکام کے حوالے سے اس کا نکتہ نظر مقبولیت پا رہا ہے۔ چین کے علاوہ ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے فلسطین اور کشمیر کا ذکر خاص طور پر کیا۔ ملائیشیا کے وزیر اعظم مہاتیر محمد نے اپنے خطاب میں کہا کہ بھارت نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے باوجود کشمیر پر قبضہ کیا۔ چینی وزیر خارجہ وانگ زی اور ترک و ملائیشین سربراہوں کے خیالات بتاتے ہیں کہ بھارت کے لیے اپنے اقدام کا دفاع کرنا مشکل ہو رہا ہے۔ جو ممالک بھارت سے تجارتی تعلقات کے باعث تاحال گومگو میں ہیں ان پر دبائو بڑھ رہا ہے کہ وہ بھارتی طرز عمل کی کھل کر مذمت کریں اور اسے ناقابل قبول قرار دیں۔ چند ہفتے قبل دنیا میں نسل کشی کے واقعات پر نظر رکھنے والے جینو سائیڈ واچ نے ایک تازہ رپورٹ میں کشمیریوں کی نسل کشی کے خطرات کا ذکر کیا تھا۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ بھارتی اہلکار مقبوضہ کشمیر میں مسلمان نوجوانوں کو گرفتار کر کے انہیں قتل کر رہے ہیں۔ بہتر برسوں کے دوران اہل کشمیر 75ہزار جانیں قربان کر چکے ہیں۔ بہت سے لوگ بھارتی مظالم سے تنگ آ کر آزاد کشمیر کے مہاجر کیمپوں میں مقیم ہیں۔ پلوامہ حملے کے بعد پورے بھارت میں کشمیریوں کوڈھونڈ ڈھونڈ کر تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ آندھرا پردیش، راجستھان اور ممبئی میں یہ حملے طلبا کے ہوسٹلوں تک پھیل گئے۔ سابق طالب علم لیڈر شہلا رشید کے خلاف مقدمات درج ہو رہے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کی تمام حریت قیادت کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ حتیٰ کہ فاروق عبداللہ اور محبوبہ مفتی جیسے بھارت نواز سیاستدانوں پر بھی بھارت بھروسہ کرنے کو تیار نہیں اور انہیں ہنوز حراست میں رکھنا چاہتا ہے۔ بھارت جابرانہ ہتھکنڈوں سے دنیا کو یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں حالات پرامن ہیں اور معاملات پوری طرح اس کے قابو میں ہیں جبکہ سچ یہ ہے کہ کشمیر ایک بھسم کر دینے والے الائو کی شکل اختیار کر گیا ہے۔ پاکستان نے ہمیشہ کشمیر کے پرامن حل پر زور دیا ہے۔ ریکارڈ گواہ ہے کہ سابق اور موجودہ حکومت نے تنازع کشمیر کو مذاکرات سے طے کرنے کے لیے بھارت کو بارہا دعوت دی۔ ایسی دعوت کے جواب میں بھارتی رویہ مایوس کن رہا۔ کسی مشترکہ دوست ملک کی طرف سے اگر ثالثی کی بات ہوئی تو بھارت نے کشمیر کو تنازع تسلیم کرنے سے انکار کیا اور معاملے کو دوطرفہ بات چیت سے حل کرنے کا مؤقف دہرایا۔ یقینا کسی مخصوص طریقہ حل تک پہنچنے کے لیے کچھ مہلت درکار ہوتی ہے۔ بھارت اس طرح کی مہلت طلب کرتا تو تنازع کشمیر کی صورت کچھ اور ہوتی لیکن بھارت نے ہر بار پاکستان سے بات چیت بند کر کے دوطرفہ تعلقات میں کشیدگی کو بڑھاوا دیا۔ بہتر سال سے موجود یہ تنائو چار جنگوں کو جنم دے چکا ہے۔ آئے روز لائن آف کنٹرول اور انٹرنیشنل بارڈر پر جھڑپیں ہوتی ہیں۔ تنازع کشمیر کے حل نہ ہونے کا اثر پورے خطے کی ترقی پر پڑا ہے۔ ان حالات میں بھارت کے جابرانہ اور ظالمانہ طرز عمل پر سکوت اختیار کرنا گویا اس کی حمایت اور کشمیریوں کے قتل عام میں بھارت کا حصہ دار بننا ہے۔ امریکی معاون نائب وزیر خارجہ برائے جنوبی ایشیا ایلس ویلز بھارت سے مطالبہ کر چکی ہیں کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں عاید پابندیاں ختم کر کے معمولات زندگی کو بحال کرے لیکن امریکہ سمیت کسی عالمی طاقت نے تاحال کشمیریوں کی نسل کشی کی مذمت نہیں کی۔ ایک ہی روز میں سات کشمیری نوجوانوں کی شہادت سے کشمیر میں مسلح مزاحمت کا آغاز ہو سکتا ہے جس کے ذمہ دار بھارت اور اس کے اقدامات پر سکوت اختیار کرنے والے ممالک ہوں گے۔