سرینگر(نیوزایجنسیاں )مقبوضہ کشمیر میں بھارتی قبضے اوروادی کی خصوصی حیثیت ختم کیخلاف جمعہ کو مختلف علاقوں میں زبردست مظاہرے کیے گئے ۔ کشمیر میڈیاسروس کے مطابق سرینگر ، بڈگام ، گاندر بل ، اسلام آباد ، پلوامہ ، کولگام ، شوپیاں ،بانڈی پورہ ، بارہمولہ ، کپواڑہ اور دیگر علاقوں میں لوگ نما ز جمعہ کے فوراً بعدسڑکوں پر نکل آئے اور آزادی کے حق میں جبکہ بھارت کیخلاف فلک شگاف نعرے لگائے ۔ بھارتی فوجیوں اور پولیس اہلکاروں نے مختلف مقامات پر مظاہرین پر طاقت کا وحشیانہ استعمال کیا جس کے نتیجے میں متعدد افراد زخمی ہو گئے ۔ دریں اثنا ئجمعہ کو 103ویں روز بھی جاری رہنے والے بھارتی محاصرے کی وجہ سے مقبوضہ وادی میں خوف و دہشت اور غیر یقینی صورتحال بدستوربرقرار رہی۔ مقبوضہ علاقے میں دفعہ 144کے تحت پابندیاں بدستور برقرار ہیں جبکہ چپے چپے پر بھارتی فورسز کے اہلکار تعینات ہیں ۔ انٹرنیٹ ، ایس ایم ایس اورپری پیڈ موبائل سروسز تاحال معطل ہیں۔ ادھر امریکی کانگریس کے انسانی حقوق کمیشن نے مقبوضہ وادی سے کرفیو ہٹانے اور مواصلاتی رابطے بحال کرنے کا مطالبہ کر دیا۔ ارکان کانگریس نے ’’ ٹام لینٹوز انسانی حقوق کمیشن‘‘ کے زیر اہتمام انسانی حقوق کے بارے میں کانگریس کی ایک سماعت کے دوران ایک بار پھر مقبوضہ کشمیر میں جاری پابندیوں، نظربندیوں اور مذہبی آزادی پر عائد قدغن پر تشویش ظاہر کی ہے ۔پرمیلا جے پال نے کہاانہیں بلا جواز طورپر لوگوں کو نظربندکرنے ، ذرائع مواصلات کی بندش اور کسی تیسرے فریق کو مقبوضہ علاقے کے دورے کی اجازت نہ دینے سمیت کشمیرمیں بھارتی حکومت کے اقدامات پر گہری تشویش ہے ۔ پرمیلاجے پال نے کہا مقبوضہ کشمیر میں بھارتی اقدامات انتہائی باعث تشویش ہیں ۔ بغیرمقدمات گرفتار یاں ، مواصلاتی پابندیاں اور کسی تیسرے فریق کو دورے کی اجازت نہ دینا ہمارے قریبی اور حساس تعلقات کیلئے بھی خطرناک ہے ۔ شیلاجیکسن نے کہاوادی میں بھارتی اقدامات سے مسلم کمیونٹی کے حقوق متاثر ہو رہے ہیں ۔ بھارتی حکمرانوں کے اقدامات سے ایسا لگ رہا ہے کہ بھارتی ہونے کیلئے ہندو ہونا یا ہندونظریات کا ماننا لازمی ہے ۔ اگر بھارت نے کشمیر میں اپنا موجودہ رویہ برقرار رکھا تو کشمیریوں کے حقوق اور آزادی کیلئے یہ سنگین خطرہ ہو سکتا ہے ۔ کشمیر کی موجودہ صورتحال کو مزید خطرناک ہونے سے روکنے کیلئے عالمی برادری کو کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے ۔ بین الاقوامی مذہبی آزادی کے بارے میں امریکی کمیشن کی کمشنر ارونیما بھگوانے کہا بھارتی حکومت کے اقدامات کے باعث ملک میں مسلمانوں کے حقوق سلب کئے جارہے ہیں ۔ بھارت میں اقلیتوں سے امتیازی سلوک جاری ہے ۔ کمیشن کو مساجد بند کئے جانے ، امام صاحبان اور مسلم کمیونٹی لیڈروں کی گرفتاریوں اور عام شہریوں اور تاجروں پر تشدد کی اطلاعات بھی ملی ہیں ۔اقوام متحدہ میں برطانیہ کے سابق سفیر سر مارک لائل گرانٹ نے کہا ہے عالمی برداری مسئلہ کشمیر کو حل کرنے میں مدد کرے ورنہ مستقبل میں اس کی بھاری قیمت چکانا پڑے گی۔