جمعہ22نومبر کوبھارت کے سابق وزیرخارجہ یشونت سنہا کی قیادت میں سول سوسائٹی کا ایک وفد کشمیر پہنچا ۔اس سے قبل کئی مرتبہ سول سوسائٹی اور سیاسی نمائندوں کو کشمیر آنے کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔کشمیر کی تازہ کشیدگی کا براہ راست جائزہ لینے کے لیے کئی مرتبہ بھارتی سیاستدانوں اور سول سوسائٹی کے نمائندوں نے کشمیر آنے کی کوشش کی تاہم انہیں ہوائی اڈے سے ہی واپس بھیج دیا گیا۔ان میں کانگریس کے رہنما راہول گاندھی اور غلام نبی آزاد بھی شامل تھے۔بعد میں بھارتی سپریم کورٹ کی مداخلت کے بعد کمیونسٹ پارٹی کے رہنما اور غلام نبی آزاد نے کشمیر کا دورہ کیا تاہم انہیں پریس کانفرنس کی اجازت نہیں دی گئی۔ گذشتہ ماہ اکتوبرمیں یورپین یونین کے ایک سلیکٹیڈ وفد کے دورے کے بعد اب بھارت کی سول سوسائٹی کوسری نگرآنے دیاگیا۔وفد کی قیادت کرنے والے بھارت کے سابق وزیرخارجہ یشونت سنہا نے سرینگر پہنچتے ہی میڈیاسے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ کشمیر میں حالات قطعی طور نارمل نہیں ہیں۔ ان کا کہنا تھا میں ایئرپورٹ سے باہر نکلا تو دیکھا کہ سب کچھ بندہے اور زندگی پوری طرح معطل ہے، لوگوں کو طرح طرح کی مشکلات کا سامنا ہے، فون رابطوں اور انٹرنیٹ پر پابندی ہے۔یشونت سنہاکاکہناتھاکہ ہم تک معلومات حکومت یا جانبدار میڈیا کے ذریعے پہنچتی ہیں، لہذا ہم خود حالات کا جائزہ لے کر پورے ملک کو اصل صورتحال سے آگاہ کرنا چاہتے ہیں۔اس وفد میںبھارتی فضائیہ کے سابق وائس ایئر مارشل کشمیری نژاد کپل کاک شامل تھے جنہوں نے کشمیر کی موجودہ صورتحال کو فروزن امپریزنمنٹ یعنی یخ بستہ قید قرار دیا ہے۔بھارت کے سابق وزیر خارجہ یشونت سنہا اور سینئر صحافی بھارت بھوشن کے ہمراہ کشمیر کے دورے پر آئے کپل کاک کہتے ہیں 80لاکھ کشمیریوں کو ایک یخ بستہ جیل میں رکھا گیا ہے اور صورتحال کو نارمل کہا جا رہا ہے۔ اعلانات کرنے کے بجائے کشمیریوں کے اس درد کو محسوس کرنے کی ضرورت ہے جس میں وہ مبتلا ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی وفد کے دورے کے دوران بھی نہتے کشمیریوں پر مظالم کا سلسلہ جاری تھا جبکہ کشمیری عوام نے اپنے حق خودارادیت کیلئے مقبوضہ وادی میں ہڑتالوں اور جلسے جلوسوں کا سلسلہ برقرار رکھا ہوا ہے جسے دبانے کیلئے قابض بھارتی افواج نے کشمیری عوام پر مظالم کی انتہا کر رکھی ہے۔ جس ہوٹل میںبھارتی وفد مقیم ہے وہاں میڈیا کے داخلے پر پابندی نافذ کی گئی ہے، تاہم ہوٹل میں داخل ہوتے وقت یشونت سنہا نے میڈیاکوبتایا کہ وہ صورتحال کا آزادانہ جائزہ لینا چاہتے ہیں۔ اس موقعے پر بھارت کے ایک سینئرصحافی بھارت بھوشن نے میڈیا کے ساتھ گفتگو کرنے پر پابندی کے خلاف ناراضگی کا اظہار کیا۔صحافی بھارت بھوشن کاکہناتھاکہ کشمیر میں میڈیا کو آزادانہ طور پر کام کرنے میں دشواریوں کا سامنا ہے، لہٰذا حالات کو پرسکون اور پرامن نہیں کہا جاسکتا۔ مودی سرکار اپنی پارٹی بی جے پی کے پاکستان دشمنی پر مبنی ایجنڈا پر کاربند ہو کر مقبوضہ کشمیر میں مظالم کے نئے ہتھکنڈے استعمال کررہی ہے پیلٹ گنوں کی فائرنگ کے ذریعہ کشمیری نوجوانوں کو شہید اور اپاہج کرنے کا جو سلسلہ شروع کر رکھا ہے وہ سامنے آرہا ہے۔ پہلے تو بھارت کے اندر سے ارون دھتی رائے اور دوسرے بھارتی دانشوروں کی جانب سے مودی سرکار کے کشمیری عوام پر مظالم پر بے باکانہ ردعمل کا اظہار ہورہا تھا جبکہ اب اقوام عالم کے موثر حلقوں کی جانب سے بھی بھارت سرکار کو اسکے مظالم پر آئینہ دکھایا جارہا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوجوں کی فائرنگ سے شہید ہونیوالے کشمیری عوام کی اجتماعی قبروں کی نشاندہی کی اور بھارتی فوجوں کے مظالم کو اجاگر کیا تو اس رپورٹ کی بنیاد پر(WTO)یا ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن نے بھارت کے یورپی ممالک کے ساتھ تجارتی روابط معطل کر دیئے تھے جبکہ یورپی یونین کے سپیکر نے بھارت پر مسئلہ کشمیر پاکستان کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر حل کرنے پر زور دیا تھا۔ بعدازاں مقبوضہ کشمیر کے ہیومن رائٹس کمیشن نے اپنی سروے رپورٹ میں کشمیری عوام کیخلاف اختیار کئے جانیوالے بھارتی ظالمانہ ہتھکنڈوں کو اجاگر کیا اور بھارتی فوجوں کی فائرنگ سے شہید ہونیوالے لاکھوں کشمیری عوام کے اعداد وشمار جاری کئے تو اس رپورٹ نے بھی اقوام عالم بالخصوص انسانی حقوق کے عالمی اداروں میں ہلچل پیدا کی تھی۔ جب ایسی ہر پیشکش کا بھارت کی جانب سے رعونت کے ساتھ جواب دیا گیا تو مقبوضہ کشمیر پر اپنا مستقل تسلط جمانے سے متعلق بھارتی عزائم کے بارے میں اقوام عالم میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہ رہی۔ یہی وہ بھارتی عزائم ہیں جن پر بھارتی حکمرانوں کی پالیسیوں کے بارے میںخود بھارت کے اندر سے تحفظات کا اظہار کیا جارہا ہے اور مختلف طبقہ ہائے زندگی کی نمائندہ شخصیات کی جانب سے کشمیری عوام پر مظالم کیخلاف احتجاج کرتے ہوئے مودی سرکار کو بھارت میں ہندو انتہا پسندی کو فروغ دینے پر مطعون کیا جاتارہا ہے۔اس سے قبل جون2017ء میں بھی سابق وزیر خارجہ یشونت سنہا کی قیادت میں مقبوضہ کشمیر کا دورہ کیا۔ بھارتی وفد نے وہاں جاری بھارتی مظالم کا جائزہ لیتے ہوئے کہاتھا کہ مقبوضہ کشمیر میں طاقت کے بے دریغ استعمال نے کشمیری نوجوانوں کے دل سے موت کا خوف نکال دیا ہے۔ اس لئے دہلی نے حقائق کا ادراک نہ کیا تو کشمیر کے حالات بھارت کیلئے بہت جلد تباہ کن ثابت ہونگے۔ اس وقت یشونت سنہا کی قیادت میں مقبوضہ کشمیر کے دورے پرآنے والے بھارتی وفد میں بھی بھارت کے ایئروائس مارشل کپل کاک سینئر صحافی بھارت بھوشن شامل تھے جبکہ ان کے علاوہ سابق چیف انفارمیشن کمشنر وجاہت حبیب اللہ سابق اور سنٹر فار ڈائیلاگ اینڈ ری کنسلیشن کی ایگزیکٹو پروگرام ڈائریکٹر شسوبا بھاروے بھی شامل تھیں، جنہوں نے اپنی رپورٹ میں کہاتھا کہ لگتا ہے بھارت کشمیر کو ایک سیاسی مسئلہ تسلیم کرنے کو تیار ہی نہیں۔ ہم جس کشمیری کو بھی ملے اس نے مسئلہ کشمیر کو ہمیشہ کیلئے حل کرنے کی ضرورت پر زور دیا کیونکہ یہ مسئلہ حل نہ ہونے کی صورت میں کشمیر میں قتل و غارت اور تباہی میں اضافہ ہوتا جائیگا۔ بھارتی وفد کی رپورٹ کیمطابق کشمیریوں میں بھارت کی طرف سے مسلسل امتیازی سلوک کا احساس سرائیت کرگیا ہے ان میں ایک عجیب قسم کا خدشہ پایا جارہا ہے جو کچھ بھی ہوگا اسکی شدت اور وسعت بہت زیادہ ہوگی۔ رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کیلئے بھارت اور کشمیریوں اور بھارت اور پاکستان کے مابین کثیرالجہتی مذاکرات شروع کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ کشمیری عوام نے خود کو کبھی بھارت کا حصہ سمجھا ہے نہ کشمیر پر اٹوٹ انگ والی بھارتی ہٹ دھرمی کو کبھی قبول کیا ہے جبکہ بھارت انہیں بزور اپنے ساتھ ملانے کی پالیسی پر گامزن ہے اور دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کیلئے بھارت کے سابقہ حکمران اور موجودہ مودی سرکار یہ پراپیگنڈا کرتی رہی ہے کہ پاکستان مقبوضہ کشمیر میںبھارت کیخلاف جہاد پر اکساتا ہے۔ بھارتی الزام تراشیوں کو خود بھارتی وفد نے اپنی رپورٹ میں یہ کہہ کر مسترد کرتے رہے کہ کشمیریوں کے مطابق انکے مظاہرے نہ کسی کے کہنے پر ہیں اور نہ ہی انکے نوجوان پیسے لے کر ایسا کررہے ہیں جبکہ بھارت کی طرف سے طاقت کے بے دریغ استعمال سے اب کشمیری نوجوانوں کے دلوں میں موت کا کوئی خوف لاحق نہیں رہا اور وہ موت کو ہر وقت گلے لگانے کو تیار نظر آتے ہیں۔ ان حقائق کی روشنی میں بھارت کی اٹوٹ انگ والی ہٹ دھرمی تو پوری دنیا میں بے نقاب ہوچکی ہے کیونکہ اب تک مقبوضہ کشمیر کا دورہ کرنیوالے کسی بھی بیرونی اور اندرونی وفد نے اپنی رپورٹ میں بھارت کے حق میں سرٹیفکیٹ جاری نہیں کیا۔