فاروق عبداللہ حکومت نے ا ن کو برخاست کر دیا تھا، بعد میں مفتی محمد سعید حکومت نے بھی ا ن کے خلاف چارہ جوئی کی کوشش کی ہی تھی، کہ کانگریس نے ان کی حکومت سے حمایت واپس لی اور غلام نبی آزاد وزیر اعلیٰ بنائے گئے ۔کرسی سنبھالتے ہی آزادنے نئی دہلی کے کہنے پر فاروق خان کو بحال کیا۔ جموں و کشمیر میں غیر ریاستی باشندو ں پر جائیدادیں خریدنے پر پابندی کا قانون 1927ء میں ڈوگرہ مہاراجہ ہری سنگھ نے کئی عوامل کی وجہ سے لاگوکیا تھا۔ ایک وجہ کشمیری پنڈتوںکا اس بات پر احتجاج تھا کہ سرکاری نوکریوں میں پنجابی اور دیگر غیر ریاستی باشندوںکا غلبہ ہوتا جا رہا ہے‘ جس سے پنڈتوں کی نمائندگی پر اثر پڑ رہا ہے۔ کشمیری مسلمان عموماً ان پڑھ اور سرکاری ملازمتوں میں برائے نام ہی تھے، اس لئے ان کو کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ مشرقی پنجاب کے مسلمان زمیندار، کشمیری لڑکیوں سے شادیاں کرکے زمینوں کے مالکانہ حقوق مانگتے تھے۔ وقا ئع نگاروں کے مطابق تیسری وجہ مہاراجہ کا یہ خوف تھا کہ کہیں برطانوی افسران کشمیر میں مستقل رہائش اختیار نہ کر لیں، کیونکہ کشمیر اور انگلینڈ کا موسم خاصی حد تک مماثلت رکھتا تھا۔ستم ظریفی ہے کہ کشمیر ی پنڈتوں نے ہی20ویںصدی کے اوائل میں ’’ کشمیر ،کشمیریوں کا ہے‘‘ کا نعرہ بلند کرکے خصوصاً سیالکوٹ و لاہور سے غیر ریاستی افراد کی نوکریوں اور غیر منقولہ جائیداد خریدنے پر پابندی لگوائی۔ سو سال بعد یہی کشمیر پنڈت اس شق کو ہٹانے پر بضد تھے۔ اب ریاست کے مسلمان غیر ریاستی باشندو ں کے آنے سے خائف تھے۔ معروف قانون دان اے جی نورانی کے بقول آرٹیکل 370 گو کہ ایک عبوری انتظام تھا کیونکہ بھارتی حکومت کی 60 کی دہائی تک یہ پالیسی تھی کہ جموں و کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ استصواب رائے سے کیا جائے گا۔ 1948ء میں جموں و کشمیر پر بھارتی حکومت نے ایک وائٹ پیپر جاری کیا تھا‘ جس میں سردار پٹیل کا یہ بیان موجود ہے: ''الحاق کو تسلیم کرتے ہوئے حکومت بھارت نے یہ واضح کر دیا ہے کہ وہ اسے بالکل عارضی مانتی ہے جب تک کہ اس بارے میں ریاست کے لوگوں سے ان کی رائے نہیں معلوم کی جائے گی‘‘۔ نورانی کے بقول جن سنگھ کے بانی شیاما پرساد مکھرجی نے‘ جن کا نام آرٹیکل 370 کی مخالفت کرتے وقت بی جے پی اچھالتی ہے‘ نے اس کی مکمل حمایت کی تھی۔ بی جے پی اس وقت کے وزیر داخلہ سردار پٹیل کا نام بھی اس پروپیگنڈا کے لئے استعمال کرتی ہے کہ انہوں نے اس مسئلے پر پنڈت جواہر لعل نہرو کی مخالفت کی تھی‘ لیکن حقیقت یہ ہے کہ پٹیل نے بھی آئین کی اس دفعہ کی مکمل تائید کی تھی۔ نورانی کا کہنا ہے کہ کشمیر واحد ریاست تھی جس نے الحاق کے لئے اپنی شرائط پر حکومت سے مذاکرات کئے تھے۔ وہ بھارت میں ضم نہیں ہوئی تھی بلکہ اس نے الحاق کیا تھا، اس لئے ان کے مطابق آرٹیکل 370 دونوں کے درمیان ایک مقدس معاہدہ ہے‘ جس کی کسی شق کو کوئی بھی فریق یکطرفہ ترمیم نہیںکر سکتا۔ نورانی اس بات کا تذکرہ کرتے ہیں کہ این گوپال سوامی نے 16اکتوبر 1949ء کو اس سلسلے میں پہلی'خلاف ورزی‘ اس وقت کی جب انہوں نے یکطرفہ طور پر مسودے میں تبدیلی کے لیے پارلیمنٹ کی لابی میں حتمی شکل دی تھی۔ جیسے ہی شیخ عبداللہ اور مرزا افضل بیگ کو اس تبدیلی کا علم ہوا وہ دونوں ایوان کی طرف دوڑے لیکن تب تک یہ ترمیمی بل پاس ہو چکا تھا۔ بقول ان کے یہ ایک افسوسناک اعتماد شکنی کا معاملہ تھا جس نے بداعتمادی کو جنم دیا۔ اگر اصل مسودہ پاس کیا جاتا تو 1953ء میں شیخ عبداللہ کو اقتدار سے بے دخل کیا جانا ممکن نہ تھا۔ اس آرٹیکل کے ساتھ چھیڑ چھاڑ اور اس کی حیثیت مجروح کرنے کے واقعات کا ذکر کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ آئین کی دفعہ 249 کے تحت جاری کردہ صدارتی حکم نامہ‘ جس کا اطلاق کشمیر پر بھی کیا گیا‘ کا تعلق ریاست کی فہرست سے تھا۔ مرکز کے مقرر کردہ گورنر جگ موہن نے اس کی توثیق کر دی تھی۔ یہ چالاکی لا سیکرٹری کی مخالفت اور ریاستی کابینہ کی عدم موجودگی میں انجام دی گئی تھی۔1951ء میںکشمیر اسمبلی کے لئے جو انتخابات منعقد کئے گئے، ان سے بھارت کے جمہوری دعووں کی کشمیر میں قلعی کھل گئی۔ انتخابی دھاندلیوںکے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے گئے۔ تمام امیدوار 'بلامقابلہ‘ 'منتخب‘ قرار پائے۔ یہ وہی اسمبلی تھی جس نے ریاست کا دستور وضع کیا اور الحاق کے دستاویز کی توثیق کی تھی۔ اس اسمبلی کے جواز پر سوال کھڑا کیا جا سکتا ہے کیونکہ پانچ فیصد سے بھی کم لوگوں نے اس کی تشکیل میں اپنے حق رائے دہی کا استعمال کیا تھا۔ یہ اسمبلی ریاست کے مستقبل اور اس کی حیثیت طے کرنے کے سلسلے میں دستور ساز اسمبلی کا درجہ رکھتی تھی۔ کشمیر کی اس آئین ساز اسمبلی کی حقیقت اور حیثیت کی قلعی خود اس وقت کے انٹیلی جنس سربراہ بی این ملک نے کھول دی۔ ان کے بقول ان امیدواروں کے کاغذات نامزدگی کو مسترد کر دیا گیا‘ جو حزب مخالف کا کردار ادا کرنے کی اہلیت رکھتے تھے۔ اس حقیقت سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ الحاق کی دستاویز کی توثیق اور کشمیر کے آئین کی منظوری کو کوئی عوامی تائید حاصل نہیں تھی۔ بہرحال پچھلے 70 برسوں میں بھارتی حکومتوں نے آرٹیکل 370 کو اس بری طرح سے مسخ کر دیا کہ اس کا اصلی چہرہ اب نظر ہی نہیں آتا۔ کئی مواقع پر خود کشمیری لیڈروں نے اپنی عزت نفس کا خیال نہ کرتے ہوئے ان آئینی خلاف ورزیوں کے لئے راہ ہموار کی۔ اگر ایک طرح سے کہا جائے کہ آئین کی اس شق نے کشمیریوں کو سیاسی گرداب سے بچنے کے لئے جوکپڑے فراہم کئے تھے، وہ سب اتر چکے ہیں اور اب صرف دفعہ 35 اے کی صورت میں ایک نیکر بچی ہے تو بے جا نہ ہو گا۔ فرقہ پرست عناصر اب اسی نیکر کو اتارنے، کشمیریو ں کی عزت نیلام کرنے اور ان کو اپنے ہی وطن میں اقلیت میں تبدیل کروانے کے لئے ایک گھنائونا کھیل کھیل رہے ہیں۔بھارتی حکومت کے موجودہ قدم سے سب سے بری حالت کشمیر کی بھارت نواز نیشنل کانفرنس اور پیلز کانفرنس کی ہوئی ہے ۔ ان کی پوری سیاست ہی دفعہ 370اور کشمیریوں کے تشخص کو نئی دہلی کی گزند سے بچانے پر مشتمل تھی۔ اب اگلے مرحلے کے طور پر بھارتی حکومت کی کوشش، مسئلہ کشمیر کو دوطرفہ مذاکرات کے عمل سے خارج کروانے کی ہے۔ افواہیں گشت کررہی ہیں کہ جس طرح 1973ء کے شملہ سمجھوتہ میں آنجہانی وزیراعظم اندراگاندھی نے اس مسئلے کی بین الا قوامی نوعیت کو بھارت اور پاکستان کے درمیان دوطرفہ معاملے میں تبدیل کرواکے تاریخ میں اپنا نام درج کروایا تھا، اسی طرح اب نریندر مودی نے بھی اپنا نام امرکروانے کے لئے کشمیر کو پوری طرح بھارت میں ضم کراکے کردیا۔کشمیرکی بین الاقوامی حیثیت کو چیلنج کرنے کے ساتھ ساتھ مودی کے دست راست اور حکمران بی جے پی کے صدر امیت شاہ نے چند روز قبل ہی چنیدہ صحافیوں کو بتایا تھاکہ وہ کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کو ختم کرکے ہی دم لیں گے اور اسی لئے ہی وزارت داخلہ انکے سپرد کر دی گئی ہے۔ وہ ایک اور پلان پر بھی کام کررہے ہیں۔ اس کے تحت غالباً نومبر، دسمبر میں کشمیر میں ہونے والے برائے نام اسمبلی کیلئے انتخابات میں ہندو اکثریتی خطے جموں کی تمام نشستوں پر بی جے پی کے امیدواروں کو کامیاب بنانا ہے۔ اس کے علاوہ وادی کشمیر کی ایسی نشستوں کی بھی نشاندہی کی گئی ہے۔ ان نشستوں پر جموں اور دہلی میں مقیم کشمیری پنڈتوںکے ووٹوں کی رجسٹریشن کا کام سرعت سے جاری ہے تاکہ ان کے پوسٹل بیلٹوں کے ذریعے ان علاقوں میں بھی بی جے پی کے امیدواروں کی کامیابی یقینی بنائی جائے۔ امیت شاہ کی حکمت عملی کا مقصد ریاست میں مسلمان ووٹوںکو بے اثرکرناہے۔کشمیر اسمبلی کی اب 82 نشستیں رہ گئی ہیں۔ امیت شاہ نے جو بل پارلیمان میں پیش کیا گیا، اس میں بتایا گیا کہ اسمبلی حلقوں کی از سر نو حد بندی ہوگی۔فی الحال37جموں، 45 وادی کشمیر خطے سے ہیں۔ کشمیر اسمبلی میں 24مزید سیٹیں آزاد کشمیر و گلگت کیلئے مختص رکھی گئی ہیں، جو خالی رہینگی۔ امیت شاہ کے مطابق ان میں سے 8سیٹیں پاکستان سے 1947ئ، 1965ء اور 1971ء میں آئے ہندو پناہ گزینوں کو وقف کی جائیگی، تاکہ اسمبلی میں ان کو نمائندگی ہو اور ہندو ممبرا ن کی تعداد میں بھی اضافہ ہو۔ (ختم شد)