آج آزاد کشمیر ، پاکستان سمیت دنیا میں یوم یکجہتی کشمیر جوش و خروش سے منایا جا رہا ہے۔ حکومت کی طرف سے عام تعطیل کا اعلان ہے ، پہلی مرتبہ قومی اسمبلی ہال میں پاکستان کے ساتھ آزاد کشمیر کا پرچم بھی لہرا دیا گیا ہے جو کہ کشمیریوں کے ساتھ پاکستان کی بھرپور یکجہتی کا اظہار ہے۔ مقبوضہ کشمیر پر بھارت کا غاصبانہ قبضہ امن عالم کیلئے آج تک سوالیہ نشان ہے ۔ ظلم یہ ہے کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں پر آج تک عمل نہیں ہوا۔ بھارت کی طرف سے پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے کہ پاکستان آزاد کشمیر کو اپنا صوبہ بنانا چاہتا ہے ، حالانکہ یہ سو فیصد غلط بات ہے اگر پاکستان ایسا کرنا چاہتا تو آج آزاد کشمیر پاکستان کا ایک صوبہ ہوتا ۔ دفتر خارجہ کی ترجمان عائشہ فاروقی نے بجا اور درست کہا ہے کہ کشمیر کو صوبہ بنانے کے حوالے سے کوئی تجویز زیر غور نہیں ۔ کشمیر کی صورتحال پر بریفنگ دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ بھارت غلط پروپیگنڈے کی وجہ سے دنیا کی توجہ ہٹانا چاہتا ہے لیکن پوری دنیا جان چکی ہے کہ بھارت غاصب ہے اور امن کا دشمن ہے ۔ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا ۔ اس لئے پاکستان کشمیریوں کی مسلسل حمایت کرتا آ رہا ہے ، آج یوم کشمیر کے حوالے سے بڑے شہروں تو کیا قصبوں اور دیہاتوں میں بھی یوم کشمیر جوش و خروش سے منانے کی تیاریاں ہو رہی ہیں ۔ ملک کے دوسرے حصوں کی طرح سرائیکی وسیب کے بڑے شہروں ملتان ، بہاولپور، ڈی جی خان ، میانوالی ، ڈی آئی خان اور جھنگ اہم شاہراؤں ، چوکوں اور سرکاری عمارتوں پر کشمیر کے پرچم لہرا دیئے گئے ہیں اور کشمیریوں پر انڈیا کی جانب سے ڈھائے جانے والے مظالم کو اجاگر کرنے کیلئے بینرز ، سٹیمرز آویزاں کر دیئے گئے ہیں ، بڑے شہروں میں احتجاجی ریلیوں کا اہتمام کیا گیا ہے اور پہلی مرتبہ انتظامیہ نہایت چوکس نظر آ رہی ہے۔ ہندوستانی وزیراعظم نریندر مودی کے کشمیر کے حوالے سے فیصلے کے تحت پیدا ہونیوالی صورتحال نے مسئلے کو گھمبیر بنا دیا ہے ۔ اس سے پہلے یہ کہاوت بن چکی ہے کہ کبھی نہ حل ہونے والا جو بھی مسئلہ ہو تو اس کے بارے میں کہہ دیا جاتا ہے کہ یہ مسئلہ کشمیر ہے ۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ کشمیر کشمیریوں کا ہے ‘ نسل کشی کی بجائے کشمیریوں کو ان کا وطن ملنا چاہئے ۔ ہندوستان کے حکمران دن رات کشمیر کے مسئلے کو بگاڑنے میں مصروف ہیں۔ دوسری طرف احتجاج کا سلسلہ بھی جاری ہے ۔ احتجاجیوں پر ظلم تشدد کے ساتھ ساتھ ان کو قتل بھی کیا جا رہا ہے ۔ جبکہ پاکستان چاہتا ہے کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے عین مطابق مسئلہ کشمیر حل ہو ۔ آج پاکستان کے ساتھ ساتھ ہر کشمیری کی زبان پر یہ سوال ہے کہ کشمیر کا مسئلہ کب حل ہوگا ؟ کشمیریوں کی تین نسلیں اسی آس میں ختم ہو گئیں کہ کشمیر آزاد ہو اور ہم اپنی آنکھوں سے آزادی کی نعمت کو دیکھیں مگر کشمیرکا مسئلہ روز بروز بگڑتا جا رہا ہے‘ جس پر عالمی برادری کو فوری توجہ کی ضرورت ہے کہ خدانخواستہ کشمیر کے مسئلے پر دو ایٹمی ملکوں کے درمیان جنگ ہوئی تو یہ پوری دنیا کیلئے مہلک ہوگی ۔ پاکستان کے اہل دانش امریکا سمیت پوری دنیا کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کی کوشش کر رہے ہیں اور لکھ رہے ہیں کہ انسانی حقوق بارے کوئی شکایت پیدا ہوتی ہے تو امریکا اس کا نوٹس لیتا ہے لیکن اب جبکہ دنیا کو خوب معلوم ہو چکا ہے کہ مقبوضہ وادی میں بھارت نے کشمیریوں پر عرصہ حیات تنگ کر رکھا ہے اور مسلسل کرفیو کے عمل کے باعث یہاں انسانی المیہ جنم لے چکا ہے ، اس کیفیت میں بھارت سرکار کی سرکوبی اور اس پر دباؤ بڑھانے کی بجائے ان کے ساتھ کھڑے ہونے کا عمل خود امریکی کردار پر بہت سے سوالات کھڑے کرتا ہے ۔ ایک جانب امریکی صدر کشمیر پر ثالثی کے خواہاں ہیں تو دوسری جانب وہ اپنا وزن بھارت کے پلڑے میں ڈال کر پاکستان کو پیغام دے چکے ہیں کہ ان سے کسی خیر کی توقع نہیں کی جانی چاہئے لیکن انہیں یہ مت بھولنا چاہئے کہ اس طرح سے کشمیر کا مسئلہ دبنے والا نہیں کیونکہ اگر حکومتیں مصلحت کا شکار ہو کر بھارت پر اثر انداز نہیں ہونا چاہتیں تو دنیا کی رائے عامہ میں یہ تحریک پیدا ہو رہی ہے کہ بھارت کشمیر پر غاضبانہ قبضہ قائم کر کے کشمیریوں کی آواز کو بزور طاقت دبانا چاہتا ہے ۔ کچھ حلقوں کی طرف سے یہ بھی کہا جا رہاہے کہ کشمیر کاز کیلئے سکھوں کی حمایت حاصل کی جائے ‘ حالانکہ یہ حماقت اور نادانی ہوگی کہ کشمیر کے سکھ حکمران کے غلط فیصلے کا عذاب کشمیری مسلمان جھیل رہے ہیں تو مسلمان ایک سوراخ سے دو بار نہیں ڈسا جاتا جبکہ سکھوں نے تو مسلمانوں کو 1818ء اور تقسیم کے وقت 1947ء میں مشرقی پنجاب اور تیسرا بدلہ مسلمانوں کی اکثریت کو نظر انداز کرتے ہوئے بھارت سے الحاق کی صورت میں کیا ۔ اس مسئلے پر حکومت کے ساتھ ساتھ پاک فوج کو بھی غلط مشورہ دینے والوں سے آگاہ رہنے کی ضرورت ہے ۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ جس طرح سرائیکی علاقے پر سکھوں نے ناجائز قبضہ کیا ، اسی طرح کشمیر پر بھی رنجیت سنگھ نے غاصبانہ قبضہ کیا اور سکھ زبردستی کشمیر کے حکمران بن بیٹھے ، حالانکہ کشمیر میں اکثریت مسلمانوں کی تھی ، اس کے باوجود کشمیر کے مہاراجہ گلاب سنگھ نے ناجائز طور پر بھارت سے الحاق کا فیصلہ کیا ، اس دن سے لیکر آج تک کشمیری مسلمان سراپا احتجاج ، جانوں کے نذرانے پیش کر رہے ہیں اور قربانیاں دے رہے ہیں ۔ ایک سکھ مہاراجے کے بد نیتی اور مسلم دشمنی پر مبنی فیصلے نے پورے کشمیر کو مقتل بنایا ہوا ہے ۔ بارِ دیگر کہوں گا کہ ان سے ہوشیار رہنے اور رنجیت سنگھ کے تمام قبضہ جات کو واگزار کرنے کی ضرورت ہے اور وسیب کے لوگوں کو بھی ان کا حق ملنا چاہئے ۔ آج پوری دنیا کہہ رہی ہے کہ کشمیریوں کو حق خود ارادیت ملنا چاہئے ، کشمیری مسلمان قربانیوں کی نئی تاریخ رقم کر رہے ہیں اور مودی کے ظالمانہ فیصلوں کے خلاف سراپا احتجاج ہیں ، مودی کے انسانیت سوز مظالم نے عالم امن کو شدید خطرات سے دوچار کر دیا ہے۔ کتنا بڑا ظلم ہے کہ قریباً 200 دنوں سے بھارت نے کشمیر میں کرفیو لگایا ہوا ہے اور کشمیری مسلمان یرغمال بن گئے ہیں اور ان کے تمام انسانی حقوق سلب کر دیئے گئے ہیں ۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا راگ الاپنے والا بھارت مظالم کی نئی تاریخ رقم کر رہاہے ۔ کشمیریوں کی اپنی تاریخ ، اپنی ثقافت اور اپنی دھرتی ہے ، ان کو اپنا وطن اور اپنا اختیار ملنا چاہئے اور عالم اسلام کو کھسیانی بلی کا نہیں بلکہ انصاف پسند مسلمانوں کا کردار ادا کرتے ہوئے کشمیری مسلمانوں کی بھرپور حمایت کرنی چاہئے ۔