مقبوضہ کشمیر میںنئے انتفادہ نے سر اٹھایا ہے اکثر ماہرین کا خیال ہے کہ نئی صورتحال اور تنازع کے خطہ کے سیاسی اور جغرافیائی منظر نامے پر گہرے اور دوررس اثرات مرتب ہوں گے۔ البتہ عالمی برادری ابھی تک باریکی بینی سے جائزہ لے رہی ہے اور نئی صورت حال سے نمٹنے کے لئے مختلف آپشنز پر غور و فکر میں مصروف ہے۔ یہ بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ بھارت کے قابل عمل منصوبہ بندی کے بغیر اٹھائے گئے اس اقدام سے اگر آگ بھڑک اٹھتی ہے تو بھارت اس کا الزام پاکستان پر دھر دے گا کیونکہ ایسا کرنا ہی بھارت کے پاس واحد آسان حل ہو گا۔ مگر اس کے لئے بھی بھارت کو ایک قیمت ادا کرنا پڑے گی۔بھارت سے مقبوضہ کشمیر کی حیثیت کی تنسیخ کی بہت پہلے ہی توقع کی جا رہی تھی۔ پاکستان کے لئے بھی ان حالات میں ایک مسئلہ یہ ہے کہ اس نازک صورت حال میں نئے ابھرتے انتفادہ پر پاکستان کاکیا ردعمل ہو گا؟ اس انتفادہ کی خصوصیات پہلے کے تنازع سے بڑی حد تک مختلف ہیں حالانکہ اس میں بنیادی ردعمل عدم تشدد پر مبنی اور سیاسی ہو گا لیکن اس میں مختلف نوعیت کے تشدد اور ہیجانی اظہار بھی شامل ہو سکتا ہے۔ بھارتی اقدام کے بعد پاکستان نواز کشمیریوں اور مکمل آزادی پر یقین رکھنے والوں کے ہیجان میں برابر ابال محسوس کیا جا رہا ہے اس کے علاوہ وادی میں طاقت کے بل بوتے پر انتہائی تشدد پسند حلقے اور مزاحمت کار بھی غم و غصہ کا اظہار کر رہے ہیں۔ اب یہ تنظیمیں اور گروہ اپنی اپنی پرتشدد کارروائیاں بھی الگ الگ جاری رکھ سکتے ہیں اور ان کے مل کر کارروائی کرنے کی صورت میں انتفادہ سنگین نوعیت اختیار کر سکتا ہے۔ ابھی تک تو یہ بات بھی یقین سے نہیں کہی جا سکتی کہ مقبوضہ کشمیر میں لشکر طیبہ جیش محمد ایسی کالعدم تنظیموں کی آپریشنل صلاحیت کیا ہے لیکن دیگر گروپ جیسے انصار غزوات ہند AGHجس القاعدہ برصغیر سے مراسم ہیں یہ تنظیم بھی خطہ میں اپنی آپریشنل صلاحیت میں دھیرے دھیرے اضافہ کرتی جا رہی ہے اور اہم بات یہ ہے کہ یہ تنظیم ہندوستان کے جتنا خلاف ہے اتنا ہی پاکستان کی بھی مخالف ہے ۔یہ گروپ مقبوضہ کشمیر میں سرگرم مزاحمتی گروپوں سے اتحاد کی بھی کوشش کر رہا ہے اور ان کا جہاد بھارت کے خلاف ہو گا حال ہی میں القاعدہ کے سربراہ ایمن الزواہری نے اس کی حمایت کر دی ہے۔اس تناظر میں دیکھا جائے تو خالصتاً کشمیر تک اپنی کارروائیاں محدود رکھنے والی تنظیم حزب المجاہدین پر بھی شدید دبائو بڑھے گا کہ وہ اپنے آپریشنل ڈھانچہ کا ازسرنو جائزہ لے۔ یہ تمام تنظیمیں کشمیر میں طویل المدت مزاحمت کو بنیاد فراہم کر سکتی ہیں۔ پاکستان اخلاقی اور سیاسی طور پر تحریک آزادی کشمیر کی حمایت کرنے کا پابند ہے۔ البتہ کشمیر میں جاری مزاحمت کی تحریکوں کی مدد کے پاکستان کے لئے سنگین نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ ریاست کی بحران زدہ معیشت، داخلی سیاسی انتشار اور سفارتی کوششوں کو بھی غیر معمولی دھچکا لگے گا ۔جن کی بنا پر پاکستان مزاحمتی تحریکوں کی کھل کر حمایت نہ کرنے پر مجبور ہو گا۔ پاکستان کی معیشت پر آئی ایم ایف، ایف اے ٹی ایف کی تلوار پہلے ہی تنی ہوئی ہے۔ عالمی برادری بشمول پاکستان کے دوست اور دشمن شدت اور مزاحمت کی تحریکوں کی حمایت مشکل سے ہی ہضم کر پائیں گی۔ بھارت سرکار اور بھارتی میڈیا کو پاکستان کی اس کمزوری کا بخوبی ادراک ہے اسی لئے وہ مسلسل اس پہلو کو اچھال رہے ہیں۔ بھارتی حکومت اور پالیسی سازوں نے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے لئے بہترین وقت کا انتخاب سوچ سمجھ کر کیا ہے۔ ایک ایسا وقت جب پاکستان اپنے سنگین مسائل میں الجھا ہوا ہے ۔خاص طور پر پاکستان خطہ میں اپنی کھوئی ساکھ اور اہمیت بحال کرنے کے لئے افغانستان میں امن کے لئے سرتوڑ کوششوں میں مصروف ہے۔ اگر امریکہ افغانستان امن عمل میں ناکام ہوتا ہے تو ایک بار پھر پاکستان کو قربانی کا بکرا بنایا جا سکتا ہے ۔بھارت تو پہلے ہی مقبوضہ کشمیر میں اپنی تمام تر ناکامیوں کا ملبہ پاکستان پر ڈالتا آیا ہے لیکن اس بار صورت حال خاصی مختلف ہے اور کنٹرول لائن اور ورکنگ بائونڈری پر تنائو اور بگڑتی صورت حال کو کنٹرول کرنا خاصا مشکل ہو گا اسی طرح اس بار کشمیر میں مزاحمت کار پاکستان کا دبائو بھی قبول نہ کریں گے۔ ان حالات میں پاکستان اور بھارت کے درمیان تنائو کے روایتی جنگ میں تبدیل ہونے کے امکانات موجود ہیں۔ اس خدشے کا وزیر اعظم نے پارلیمنٹ میں اندیشہ بھی ظاہر کیا ہے۔ اگر ایسا ہے تو پاکستان ناپسندیدہ صورت حال سے کس طرح بچا سکتا ہے؟ اب تک پاکستان اور بھارت کے سفارتکاروں کی توانائیاں دو غیر متعلقہ پہلو کو اجاگر کرنے پر صرف ہو رہی ہیں۔ پاکستان کشمیر کے معاملہ کو عالمی سطح پر بھر پور انداز میں اٹھانا چاہتا ہے جبکہ بھارت دہشت گردی کے کارڈ کو موثر انداز میں استعمال کر رہا ہے بھارت ایسا گزشتہ کئی سال سے کرتا بھی آ رہاہے۔ پاکستان نے تو اپنی ساکھ بحال کرنا ہی شروع کی تھی نہ صرف افغانستان میں امن عمل میں معاونت کر کے بلکہ دہشت گرد گروپوں سے لاتعلقی کا اظہار کر کے۔اب پھر اندیشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ پاکستان ایک بار پھر پہلے حالات میں جا سکتا ہے گو اس کے بار حالات کافی پیچیدہ ہیں ۔فرقہ وارانہ اور جہادی گروپ بدلتی صورت حال میں اپنی اہمیت ثا جگہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں اس حوالے سے کچھ آڈیو اور ویڈیو کلپس سوشل میڈیا پر گردش کر رہے ہیں جن میں یہ گروپ کشمیر کی مکمل مدد کی یقین دہانیاں کروا رہے ہیں اب تک تو یہ تنظیمیں اور گروہ ریاست پاکستان کی طرف سے کوئی مثبت اشارہ حاصل نہیں کر سکیں میڈیا بھی ان کو پذیرائی دینے پر آمادہ نہیں۔ یہاںتک کہ قومی سلامتی کونسل میں بھی ان کو اہمیت نہیں مل سکی جبکہ حکومت ان کو کشمیر کی احتجاجی تحریک کی حمایت میں ریلیاں نکالنے کی صورت میں ڈھیل دے سکتی تھی۔ پاکستان کی تبدیل شدہ سوچ ہی اس کی مضبوطی ثابت ہو سکتی ہے۔ عالمی برادری پاکستان میں شدت پسند گروہوں اور پرجوش حالات پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہے۔ پاکستان نے ابھی تک ہیجانی کیفیت کو ان تنظیموں کو ہائی جیک کرنے کی اجازت نہیں دی۔ پاکستان کے اس اقدام سے پاکستان کی ساکھ بحال ہو گی اور عالمی برادری کا پاکستان پر اعتماد بحال ہو گا۔ مسئلہ کشمیر بھی عالمی سطح پر بہتر انداز میں اجاگر ہو سکے گا۔ بھارت کو نئے ابھرتے انتفادہ کے اثرات اور نتائج بھگتنا ہوں گے پاکستان کے لئے اہم بات یہ ہے کہ وہ عالمی برادری کو یہ باور کروائے کہ موجودہ حالات کا ذمہ دار پاکستان نہیں خود بھارت کا غیر دانشمندانہ اقدام ہے۔پاکستان کے لئے ایسا کرنا اتنا آسان نہ ہو گا بھارت پہلے ہی خطہ میں پاکستان کے اتحادیوں کو ایک دہائی سے متوجہ کئے ہوئے ہیں اور دہشت گردی کے بھارتی کارڈ نے پاکستان کو خاص نقصان پہنچایا ہے ۔مگر اب بھارت نے حالیہ اقدام کے ذریعے پاکستان کو عالمی رائے عامہ کو تبدیل کرنے کا موقع فراہم کر دیا ہے پاکستان کے لئے یہ نادر موقع ہے اور اس کا تقاضا ہے کہ معاشرے کے تمام طبقات بھر پور اتحاد کا مظاہرہ کریں اور سیاسی اور عسکری قیادت سیاسی انتظام کو پس پشت ڈال کر کشمیر ایشو پر بھر پور توجہ دے کیونکہ طویل سیاسی بحران سے یہ نادر موقع ضائع ہو سکتا ہے۔