مکرمی!دوبارہ سے کورونا کے وار سے بچاوکے لئے یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ تمام یونیورسٹیوں، کالجوں اور سکولوں کو آن لائن تدریسی طرز میں تبدیل کیا جائیگا 26نومبر سے 24 دسمبرتک تمام تعلیمی ادارے بند رہیں گے۔ارے بھئی، چھٹیاں یعنی نیکی اور پوچھ پوچھ منچلے نونہال تو کیا، ملک کا مستقبل سرمایہ یعنی نوجوان بچے بھی شفقت محمود صاحب کو اس اعلان کے بعد مبارکباد میٹھے القابات اور نہ جانے کنفرم جنتی کہہ بیٹھے ہیں اور یہ بھی کہ ان کی ڈگریاں بھی منی آرڈر یا آن لائن بھجوا دی جائیں کیونکہ کورونا آئے یا نہ آئے ہم تو نہ سدھریں گے۔ بات یہ ہے کہ دراصل یہ عالمی وبا ہے جو ہر ترقی پذیر اور ترقی یافتہ ملک کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہیں مگر یہ پیارا ملک پاکستان کبھی ترقی پذیر ہے اور یہ تو لمحہ فکریہ ہے کہ اس ملک کی رعایا اور اس کے نونہال مستقبل تعلیم سے بھاگنے لگے ہیں اور تعطیلات ہونے پر بہت خوش ہیں مگر بات خوشی کی نہیں بلکہ سوچ وچار کی ہے کہ جہاں ایک موذی مرض نے تمام عالم کو لپیٹ میں لیا ہوا ہے اسی وبا کے باعث زندگی کی تمام رونقیں مفلوج ہو کر رہ گئی ہے ۔لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم تعلیم کو ایک مزاح میں اڑا دیں۔ سپین جیسے ملک میںجہاں تمام تر زندگی مفلوج ہوکر رہ گئی اس وبا کے باعث آن لائن تعلیم ترجیح نہیں دی گئی بلکہ حفاظتی اقدامات کر کے دیے گئے حتیٰ کہ حفاظتی شیلڈذ مہیا کی گئی مگر تعلیم کا نظام درہم برہم نہیں ہونے دیا گیا۔ اب اگر بات یہ ہے کہ بعض ممالک میں آن لائن تعلیم بھی جاری ہے اور بہت بہتر ثابت ہوئی کرونا کے پھیلائو کو روکنے کیلئے توتو جناب ان کے پاس بہت بہترین وسائل ہیں۔ (طیبہ نعیم)