اپنی حکومت کو سیلاب زدگان کے لیے دوسرے ملکوں سے امداد مانگتے دیکھتا ہوں تو منشی پریم چند کا افسانہ’’ کفن ‘‘یاد آتا ہے۔ افسانے کے دو کردار ہیں ،گھسو اور مادھو۔ دونوںباپ بیٹا ہیں اور پرلے درجے کے نکھٹو۔نچلی ذات کے دونوں کردار ایک جھونپڑی میں رہتے ہیں،کام کاج کرتے نہیں، کبھی دل چاہا تو مزدوری کر لی اور پھر کئی دن کے لیے اِدھر اُدھر پَڑ رہے۔کبھی مانگ تانگ کے بھی گزارا کر لیا کرتے تھے اور چھوٹی موٹی چوری چکاری سے بھی نہ کتراتے تھے۔ ایسے لوگوں کے لیے مصیبت رحمت بن کے آتی ہے۔ کہانی کے مطابق گھسو کے بیٹے مادھو کی بیوی درد ِ زہ سے کراہ رہی ہے اور دونوں باپ بیٹا جھونپڑی کے باہر الائو جلائے آلو بھون کے کھا رہے ہیں جو وہ کسی کے کھیت سے چرا لائے ہیں۔ تھوڑی تھوڑی دیر بعد باپ بیٹے سے کہتا ہے کہ تیری بیوی اندر ہاتھ پائوں پٹخ رہی ہے جا کر اسے دیکھ آ۔ بیٹا اس لیے اٹھ کر اسے دیکھنے نہیں جاتا کہ اگر گیا تو باپ سارے آلو کھا جائے گا۔ الٹا بیٹا ہی اپنے باپ سے کہتا جا تُو جا کر دیکھ آ۔ دونوں اسی بحث میں گرم گرم آلو اُڑاتے رہتے ہیںاور پھر دھوتی اوڑھ کر وہیں سو جاتے ہیں۔ صبح اٹھ کر دیکھتے ہیں کہ مادھو کی بیوی مر چکی ہے، آنکھیں اوپر چڑھ چکی ہیں جسم اکڑ چکا ہے اور لاش پہ مکھیاں بھنبھنا رہی ہیں۔اب دونوں نکھٹووں نے رونا پیٹنا شروع کر دیا جیسے وہ ہر بار مصیبت پڑنے پر کیا کرتے تھے۔ اب دونوں کو لاش کے لیے کفن اور جلانے کے لیے لکڑی کی فکر ہوئی مگر پیسے کہاں تھے۔ ایسے میں انہیں بیرونی امداد کے حصول کا خیال آیااور وہ چودھری کے ڈیرے پر جا پہنچے۔ چودھری ان کی شکل دیکھتے ہی سمجھ گیا کہ پھر مانگنے آئے ہیں۔ اس زمانے میں فون نہیں ہوتا تھا ورنہ گھسو اور مادھو چودھری کو فون کرتے تو چودھری فورا سمجھ جاتا کہ مانگنے کے لیے فون کیا ہے۔ خیر چودھری کے انکار کے بعد بھی دونوں باپ بیٹا ہار کہاں ماننے والے تھے، چوکھٹ پر بیٹھ گئے اور رونا پیٹنا شروع کر دیا۔ چودھری کو دونوں کے لچھن معلوم تھے ، وہ جانتا تھا کہ پیسے لے کر اڑا دیں گے ،کفن دفن پہ خرچ نہ کریں گے۔ پھر بھی جان چھڑانے کے لیے اس نے چند روپے بے رُخی سے ان کی جانب اچھال دیے اور وہاں سے چلتا کیا۔ روپے لے کر باہر نکلے تو سوچا باقی لوگوں سے بھی تھوڑے تھوڑے مل جائیں تو اور بھی اچھا ہو گا۔ لہذا اہل محلہ کے آگے بھی جھولی پھیلانے نکل پڑے۔ کسی نے آنہ دیا کسی نے دو آنے ۔ کرتے کراتے دونوں کے پاس مرحومہ کے کفن دفن کے لیے معقول رقم جمع ہو گئی۔ اب کیا تھا، کفن خریدنے کو نکلے تو گفتگو شروع ہوئی کہ سستا کفن خرید کے اگر کچھ روپے بچا لیں تو کل کو کام آئیں گے۔ مرنے والی کو کیا معلوم کہ سستا کفن خریدا ہے یا مہنگا۔ اس موقع پر دل کی تسلی کے لیے دونوں نے اپنے معاشی حالات پر ایک فلسفیانہ گفتگو بھی کی۔ کرتے کراتے دونوں ایک شراب خانے کے سامنے پہنچ گئے ۔شام ہو رہی تھی ،دن بھر کے بھوکے بھی تھے۔ سوچا تھوڑی پیٹ پوجا کر لیں پھر جا کر کفن دفن کا انتظام کریں گے۔ ویسے بھی اندھیرے میں کفن کے معیار کا کسی کو پتہ ہی نہیں چلے گا۔گھسو اور مادھو نے بڑے شاہانہ انداز میں پہلے تو شراب منگوائی،خوب پینے کے بعد پھر گوشت، پوریاں ، تلی ہوئی مچھلی اور نہ جانے کیا کیا۔ ایسا کھانا انہوں نے برسوں میں نہ کھایا تھا۔رات گئے تک خوب عیاشی کی۔ مختصر یہ کہ جتنے پیسے کفن دفن کے لیے جمع ہوئے تھے سب اُڑا دیے۔ نشہ تھوڑا اُترا تو مادھو کو اپنی بیوی کے کفن دفن کی تشویش ہوئی اور باپ سے کہنے لگا کہ پیسے تو خرچ ہو گئے اب کفن اور لکڑی کیسے خریدیں گے۔ باپ ساٹھ سال کا تجربہ کار گھامڑ تھا۔اس موقع پر باپ اور بیٹے کے بیچ جو مکالمہ ہوا وہ کچھ یوں تھا: مادھو:’’جو وہاں (آخرت میں)ہم لوگوں سے پوچھے گی کہ تم نے ہمیں کفن کیوں نہ دیا، تو کیا کہیں گے؟‘‘ گھسو: ’’کہیں گے تمہارا سر۔‘‘ مادھو: ’’پوچھے گی تو جرور۔‘‘ گھسو: ’’تو کیسے جانتا ہے اسے کفن نہ ملے گا؟ مجھے گدھا سمجھتا ہے۔ میں ساٹھ سال دنیا میں کیا گھاس کھودتا رہا ہوں۔ اس کو کفن ملے گا اور اس سے بہت اچھا ملے گا، جو ہم دیں گے۔‘‘ مادھو کو یقین نہ آیا۔ ’’بو لا کون دے گا؟ روپے تو تم نے چٹ کر دئیے۔‘‘ گھسو تیز ہو گیا۔ ’’میں کہتا ہوں اسے کفن ملے گا تو مانتا کیوں نہیں؟‘‘ مادھو:’’کون دے گا، بتاتے کیوں نہیں؟‘‘ گھسو:’’وہی لوگ دیں گے جنہوں نے اب کے دیا۔ ہاں وہ روپے ہمارے ہاتھ نہ آئیں گے اور اگر کسی طرح آ جائیں تو پھر ہم اسی طرح بیٹھے پئیں گے اور کفن تیسری بار ملے گا۔‘‘ گھسو پُرانا وارداتیا تھا۔ ہر بار مصیبت میں روپے لے کر کھا جاتا تھا۔ مصیبت وہیں کی وہیں دھری رہ جاتی تھی۔ وہ جانتا تھا کہ کوئی نہ کوئی خود کفن خرید کے لکڑیوں کا انتظام کرے گا اور لاش کا کریا کرم تو ہو ہی جائے گاتو پھر روپے کفن دفن میں جھونکنے کی کیا ضرورت ہے۔اس نے بیٹے کو سمجھایا کہ جب تک روپے ملتے رہیں اسے خرچ کرتے رہو جب تک کہ مخیر حضرات خود کفن دفن نہ کر دیں ۔ شاید دنیا کے کئی ممالک نے منشی پریم چند کا یہ افسانہ پڑھ لیا ہے ۔ تبھی وہ اس بار سیلاب زدگان کی امداد کے لیے کیش نہیں دے رہے ہیں بلکہ سامان خرید کر بھجوا رہے ہیں۔ دنیا نے پاکستان کے امدادی سامان کے لیے 150ملین ڈالر کے سامان کا وعدہ کیا ،اس میں سے اب تک 46 ملین ڈالر کا سامان پاکستان کو دینے کے لیے اقوام متحدہ کے حوالے کیا گیا ہے۔ انہیں معلوم ہے کہ اگر کیش دیا تو گھسو اور مادھو تلی ہوئی مچھلی کھا لیں گے اور ڈکار بھی نہ لیں گے۔