سمجھ نہیں آرہاکہ کل بھوشن جادیو کے لئے ہم اتنے جذباتی اور حساس کیوں ہو رہے ہیں ؟ کیا وہ گیارہ سال کالڑکا ہے جو بسنت میں پتنگیں لوٹتے لوٹتے غلطی سے سرحد پار کر بیٹھا یا وہ سرحدی گاؤں کے کسی اسکول میں پڑھنے والا نوبرس کا بچہ ہے جو کسی خوش رنگ تتلی کے تعاقب میں دوملکوںکے بیچ بچھی تقسیم کی لکیر عبور کر بیٹھا اور اب جیل میں دیوار سے ٹیک لگائے سر نیہوڑے روئے جارہا ہے ۔۔۔کل بھوشن اگرکوئی سادھو سنت ہوتا اور مہا بھارت پڑھ کر شری کٹاس راج مندر دیکھنے کی آشا سے بیکل ہو کر بارڈر عبور کر لیتا تو انسانی ہمدردی کے تحت اسے واپس بھیجنے کے لئے آواز اٹھانے والوں میں میری آواز بھی ہوتی گر چہ کہ میں گلزار نہیں جوسینتالیس میں ہونے والے بٹوارے پر جذباتی نظمیں لکھے ،ہم کیوں بھول رہے ہیں کہ بمبئی کے مضافاتی علاقے پووائی کا رہائشی کل بھوشن سدھیر جادیوکون ہے، وہ کس مقصد کے لئے پاکستانی بارڈر کے قریب منڈلاتا پھرتا تھا ۔ کل بھوشن کے بارے میں جاننے سے پہلے ان قبروں کے بارے میں جاننا ضروری ہے جہاں بے گناہ پاکستانی اپنے کٹے پھٹے وجود کے ساتھ مٹی میں مل گئے ان میں وہ بھی تھے جنہوں نے وطن کی حفاظت کا عہد کیا خاکی وردی پہنی اور وطن دشمنوں سے لڑنے کے لئے سینہ سپر ہوئے ان فرزندان وطن کو گھات لگا لگا کرشہید کیا گیا ان کے سینوں میں اترنے والی ہر گولی کے پیچھے کوئی نہ کوئی کل بھوشن جادیو رہا ہے2016ء سے پہلے بھارتی خفیہ ادارے میں تعینات بحریہ کاحاضر سروس کمانڈر کل بھوشن جادیو د بلوچستان میں دہشت گردی خون خرابے کا ماسٹر مائنڈ تھاد ہشت گرد ایکس وائی زیڈ ہوتے تھے لیکن ان کی رائفل میں گولیاں کل بھوشن کی ہوتی تھیں ،پاک فوج کی گزرگاہوں میں بارودی سرنگیں بچھانے والا کوئی بھی رہا ہوسہولت کار یہی کل بھوشن ہوتا تھا جو ایرانی سرحدی علاقے سے یہ سب کنٹرول کرتاتھا اس کا اعتراف وہ اپنے بیان میں کرچکا ہے جس کی سچائی اسکی گرفتاری کے بعد دہشت گردی کے گرتے ہوئے گراف سے ہوجاتی ہے بلوچستان میں دہشت گردی کے اس ریگولیٹر کو کنٹرول میں لینے کے بعد وہاں امن و امان کی صورتحال میں واضح فرق پڑاتھا۔ بحیثیت انسان مانتا ہوں کہ جب میں کل بھوشن کو شیشے کی دیوار کے پار بے بسی سے اپنے اہل خانہ کو تکتے دیکھتا ہوں تو افسوس ہوتا ہے لیکن دوسرے ہی لمحے مجھے خاران میں ایک ڈیم پر کام کرنے والے وہ بیس مزدور یادآجاتے ہیں جنہیں گولیاں مار کر لاشوں میں تبدیل کردیا گیا وہ بیچارے ڈیم کی تعمیر کا سامان ڈھو رہے تھے کہ انہیں تابوتوں میںڈال دیا گیا۔۔۔ میرا دل دکھتا ہے جب میں نیوز چینلز کی فوٹیج میں اس کی بوڑھی ماں کو اسے افسردگی سے دیکھتا ہوا پاتاہوں لیکن سیکنڈ کے سوویں حصے میںمیری آنکھوں کے سامنے قطار میں رکھی ان چودہ مسافروں کی لاشیں پھر جاتی ہیں جنہیں مسلح علیحدگی پسند دہشت گردوں نے بس سے اتار کر پشت پر ہاتھ باندھے اورسر میں گولیاں مار کر قتل کر دیا ۔۔۔ میں کل بھوشن کی اہلیہ کی آنکھوں میں خوف اور سراسیمگی دیکھ سکتا ہوں میرادل بھی بوجھل ہوجاتا ہے لیکن دوسرے ہی لمحے مجھے کوئٹہ پولیس ٹریننگ سینٹر کے وہ باسٹھ نوجوان یاد آجاتے ہیں جنہیں دہشت اور وحشت کا کھیل کھیلنے والوں نے موت کے گھاٹ اتار دیا زرا سوچیں! باسٹھ جنازوں سے توایک قبرستان آبادہوجاتا ہے یہ سب انیس سے بائیس تئیس بر س کے خوبصورت جوان تھے ان کی ماؤں نے ان کے لئے دولہنیں تلاش کرنی تھیں ، ان کی بہنوں نے سہرے باندھنے تھے ، انہوں نے اپنے بوڑھے باپوں کا کاندھا بننا تھا کہ انہیں ان ہی کے ضعیف باپوں کے کاندھوں پر بوجھ بنا دیا گیا ۔۔۔ یہ سب سوچ کر میرے دل کی زمین کل بھوشن کے لئے سخت پتھر ہوجاتی ہے وہ یمراج دیوتابن کر ارض وطن کو جہنم کا کوئی درجہ دینے آیا تھا اسکا مقصد بلوچستان میں سرخ وسپید گلابوں کی کاشت تھی نہ وہ غریب بلوچوں کو افلاس کی دلدل سے کھینچنے کے لئے بیوی بچوں سے دور ایران میں پاکستانی سرحد سے قریب مقیم نہ تھا وہ یہاں خوف دہشت وحشت کا ماسٹر مائنڈ تھا وہ اپنی کٹھ پتلیوں کو حرکت دے کر ہماری زندگیوں پر گھات لگاتا تھا میں حیران ہوں کہ ہماری حکومت کل بھوشن کے لئے اتنی ’’نرم‘‘ کیوں ہو رہی ہے ،اسے ایک بار قونصلر رسائی دے دی گئی ،دوسری بار بھی اسے ملنے دیا گیا اسے انہیںمرضی کی زبان میں بات کرنے کی اجازت دی گئی درمیان میں شیشے کی دیوار پر اعتراض تھا ہٹادی گئی اس کے باوجود بھارت مطمئن نہیں ہو سکاپاکستان کے وزیر خارجہ کے مطابق کل بھوشن ملاقات کے لئے آنے والوںکو پکارتا رہا لیکن وہ چلے گئے اب تیسری قونصلر ملاقات کا اہتمام کیا جارہاہے اسے چھوڑیئے وزارت خارجہ کی ترجمان عائشہ فاروقی کا بیان دیکھئے فرماتی ہیں کہ کل بھوشن کے پاس اپنی سزا کے خلاف نظر ثانی کی اپیل کے لئے ساٹھ دن ہیں’’امید ہے بھارت اس حوالے سے پاکستان سے تعاون کرے گا‘‘ زرا یہ لب و لہجہ نوٹ کیجئے کیا لگتا ہے کہ ہم نے ان کا کوئی دہشت گرد جاسوس پکڑ رکھا ہے؟ مجھے بتایاجائے کہ بھارت نے اس سلسلے میں کیا تعاون کرنا ہے ؟ کیا ہم کل بھوشن کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لئے نئی دہلی سے پھانسی کا پھندا لانے والے چار مہاشوں کی آمد کے منتظر ہیں ؟ میرے ذہن میںا س معنی خیز نرمی پر اٹھنے والے سوالات کا غبار اپنی جگہ تھا کہ بلاول بھٹوزرداری صاحب نے پریس کانفرنس میں اس آرڈیننس کا بم پھاڑ دیا جس کے تحت ملٹری کورٹ سے سزایافتہ غیر ملکی شہریوں کوہائیکورٹ میں اپیل کی گنجائش مل گئی ہے پہلے ایسی کوئی سہولت نہیں تھی لیکن اب یہ گنجائش نکال لی گئی ہے کل بھوشن کی قونصلر رسائیاں،صدارتی آرڈیننس ،وزارت خارجہ کا بدلتا لہجہ اورساتھ ہی سرکاری ٹیلی وژن پر اب کل بھوشن سدھیرجادیو کو دہشت گرد کے بجائے صرف ’’بھارتی جاسوس‘‘ کہہ کر پکارنا۔۔۔ کیا اسے حس اتفاق مان لیا جائے؟ چلیں مان لیتے ہیں لیکن کیا اس حسن اتفاق سے وہ قوت صرف نظر کرے گی جو اب تک کپتان کو سرد و گرم سے بچاتی آئی ہے ؟کیا اپوزیشن بھی اسے ٹھنڈے پیٹوں پی لے گی ؟ میرے خیال میں کپتان کے ’’مشیروں ‘‘ نے آنے والے دنوں میں اپوزیشن کی اے پی سی کوبھرپور عنوان دے دیا ہے شہباز شریف نے کسی دباؤ میںہاتھ ہلکا رکھا بھی تو کم از کم مولانا فضل الرحمٰن اور زرداری کپتان کو نہیں بخشیں گے ایک با ر پھر بساط بچھائے جانے لگی ہے اور شائد اب کی بار راؤنڈ فائنل ہو!