متحدہ مجلس عمل کی طرف سے بلائی گئی کل جماعتی کانفرنس کے اختتام پر میزبان مولانا فضل الرحمن نے انتخابی نتائج مسترد کرنے اور دوبارہ انتخابات کے لیے تحریک چلانے کا اعلان کیا ہے۔ سندھ میں اکثریت حاصل کرنے والی پاکستان پیپلز پارٹی نے اس کانفرنس کے ایجنڈے میں دلچسپی ظاہر نہیں کی جبکہ کانفرنس میں شریک پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف نے مشاورت کے لیے مہلت طلب کی ہے۔ متحدہ مجلس عمل کی بلائی گئی کل جماعتی کانفرنس میں ایم کیو ایم نے بھی شرکت نہ کی تاہم ڈاکٹر فاروق ستار ذاتی حیثیت میں شریک ہوئے۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے انتخابی نتائج کو مسترد کرنے والی جماعتوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ پارلیمانی فورم کو نہ چھوڑیں۔ مولانا فضل الرحمن دو نشستوں سے ہارے ہیں۔ اے این پی کے سربراہ اسفند یار ولی اور ان کے سینئر ساتھی بھی کامیاب نہ ہو سکے۔ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کو عوام نے مسترد کیا۔ پختونخواہ پارٹی کے محمود اچکزئی اور علاقائی و مذہبی جماعتوں کے کئی دوسرے اہم رہنما بھی کے پی کے میں اٹھی تبدیلی کی لہر کی نذر ہو گئے۔ انتخابی نتائج سے دل شکستہ یہ تمام سیاستدان دھاندلی کے الزامات کا ایسا کوئی ٹھوس ثبوت پیش نہیں کر سکے جو ان کے موقف کی درستی کا جواز فراہم کرے۔ حسب روائت حالیہ انتخابات کے دوران یورپی یونین‘ فافن اور کئی دوسرے بین الاقوامی اداروں کے مبصرین پاکستان میں انتخابی عمل کا جائزہ لینے کے لیے موجود تھے۔ ان مبصرین نے ایک پریس کانفرنس میں انتخابات کے متعلق اپنی آرا پیش کی ہیں۔ بین الاقوامی مبصرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں الیکشن کا ماحول ساز گار نہیں تھا لیکن اس کے باوجود حالیہ انتخابات 2013ء کے انتخابات کی نسبت بہتر انداز میں ہوئے۔ صحافیوں کو بعض غیر ضروری پابندیوں کا سامنا رہا۔ بعض جگہ نتائج میں تاخیر اور چند جگہ پر گنتی کی شکایات کے باوجود انتخابات تنازعات سے پاک تھے۔ یورپی یونین کے مبصرین نے اس بات کی خصوصی طور پر ستائش کی کہ فوجی جوانوں نے پولنگ کے عمل میں مداخلت نہیں کی اور عملے کی معاونت کی۔ سابق بھارتی چیف الیکشن کمشنر شہاب الدین نے بھی انتخابات کو شفاف اور فوج کی مداخلت سے پاک قرار دیا۔ 2013ء کے انتخابات کے بعد نواز شریف کی سربراہی میں جو حکومت بنی اس نے اے این پی‘ پختونخواہ ملی عوامی پارٹی‘ اور جمعیت علمائے اسلام کو اپنا اتحادی بنایا۔ تحریک انصاف کی جانب سے جب دھاندلی کے الزامات لگائے گئے اور دھرنے کے بعد انتخابی اصلاحات کمیٹی تشکیل دی گئی تو یہ تمام جماعتیں اس کمیٹی میں شامل تھیں۔ جسٹس (ر) ناصر الملک کی سربراہی میں تحقیقاتی کمشن نے انتخابی عمل میں ان نقائص کی نشاندہی کی جو دھاندلی یا بدنظمی کا ذریعہ بنتے ہیں۔ قبل ازیں پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری بھی انتخابی عمل میں خرابیوں کو درست کرنے کا مطالبہ کرتے رہے تھے۔ اس وقت کے وزیر خزانہ اسحق ڈار کی سربراہی میں پارلیمانی کمیٹی نے تین سال تک اصلاحاتی تجاویز پر غور کیا۔ پارلیمنٹ میں نمائندگی رکھنے والی تمام جماعتوں نے ایک سو اجلاسوں کے بعدانتخابی اصلاحات ایکٹ 2017ء کا مسودہ پارلیمنٹ میں پیش کیا۔ تحریک انصاف نے اس وقت اس امر کی نشاندہی کی تھی کہ حکومت اور اس کی اتحادی جماعتوں نے اصلاحاتی کمیٹی کے اجلاس میں کئی بار اس کی پیش کردہ تجاویز کو نظر انداز کیا۔ انتخابی اصلاحات کے لیے ہونے والے ان اجلاسوں میں جمعیت علمائے اسلام‘اے این پی‘ پختونخواہ ملی عوامی پارٹی‘ جماعت اسلامی اور دیگر نے سنجیدہ طرز عمل اختیار کیا ہوتا تو کئی طرح کی بدانتظامی اور نظام کا ٹیڑھا پن درست کیا جا سکتا تھا۔ مثبت بات یہ ہے کہ دو بڑی سیاسی جماعتیں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن انتخابی نتائج پر بعض تحفظات ظاہر کرنے کے باوجود پارلیمنٹ میں بیٹھنے کی حامی ہیں۔ ان جماعتوں کی قیادت غالباً یہ سمجھتی ہے کہ پارلیمنٹ کی بالادستی کا جو سبق وہ اپنے دور حکومت میں پڑھاتی رہی ہیں ان سے روگردانی مناسب نہیں۔ قومی اسمبلی میں اکثریت حاصل کرنے والی جماعت کے سربراہ عمران خان نے پیشکش کی ہے کہ جسے اپنے حلقے میں دھاندلی کی شکائت ہے وہ اس حلقے کے ووٹوں کی جانچ پڑتال کی حمایت کریں گے۔ میاں نواز شریف نے عمران خان کے موجودہ طرز عمل سے الٹ رویہ اختیار کیا اور چار حلقوں کو کھولنے سے انکاری رہے جس کی وجہ سے ان کی حکومت مسلسل احتجاج کی زد میں رہی۔ سیاسی رہنمائوں کے موقف میں کچھ امور میں لچک رہے اور وہ ادارہ جاتی اصولوں پر سمجھوتہ نہ کریں تو جمہوریت بہترین نظام ثابت ہوتا ہے۔ اگر کوئی جماعت اقتدار کے ایام میں اصولوں کی جگہ ذاتی مفادات کو اولیت دے اور اپوزیشن کے زمانے میں اسے جمہوریت کے سنہری اصول یاد آنے لگیں تو یہ طرز فکر قطعی جمہوریت نہیں کہلا سکتا۔ تجزیہ کار انتخابات سے پہلے بھی ایم ایم اے کے متعلق بتاتے رہے ہیں کہ عوام میں اس کے بارے میں بیزاری اور عدم دلچسپی پائی جاتی ہے۔ کے پی کے میں کچھ علاقوں میں جمعیت علمائے اسلام کے ووٹ ضرور ہیں مگر اب ان کے حامی نئی حقیقتوں کی طرف مائل ہو رہے ہیں۔ اس کا ثبوت انتخابات سے چند روز قبل مولانا فضل الرحمن خلیل کا پی ٹی آئی کی حمائت کا اعلان کرنا تھا۔انصاف کی پانچ سالہ حکومت نے لوگوں میں مقبولیت حاصل کی۔ صرف جمعیت علمائے اسلام کی بات نہیںباقی جماعتوں اور مسلم لیگ و پیپلز پارٹی کو بھی یہاں واضح شکست ہوئی ہے۔ جیت ہار انتخابات کا حصہ ہے۔ اس ہار کو ضد بنا کر مسائل پیدا کرنا عوام کی نظر میں ناپسندیدہ عمل ہو گا۔ اس بات کا ادراک جن سیاسی جماعتوں کو ہے وہ کثیر الجماعتی کانفرنس کے ایجنڈے سے قطعی اتفاق نہیں کر سکتیں۔ حالیہ انتخابات کے دوران کے پی کے اور بلوچستان میں دہشت گردوں نے انتخابی سرگرمیوں کو ہدف بنائے رکھا اس کے باوجود وہاں انتخابات ہوئے۔ پاکستان کے بہادر عوام نے جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔ جن علاقوں میں کبھی خواتین ووٹ دینے کے لیے گھروں سے نہ نکلتی تھیں وہاں خواتین کی بڑی تعداد پولنگ سٹیشنوں پر پہنچی۔ بین الاقوامی میڈیا اور مبصرین سارے عمل کی نگرانی کرتے رہے۔ صحافیوں کو بعض مشکلات پیش آئیں لیکن اس کی وجہ غالباً انتظامی تدابیر کو بہتر بنانا تھا۔یورپی مبصرین اور فافن کی طرف سے مشکل حالات میں انتخابات کی بات اس لحاظ سے درست ہے کہ پاکستان دہشت گردوں کے خلاف مسلسل لڑ رہا ہے۔ یہ جنگ ہمارے ہر اجتماعی فیصلے پر اثرات مرتب کرتی رہی ہے۔ تاہم اب انتخابی نتائج آ چکے ہیں۔ قوم نے جن لوگوں کو مینڈیٹ دیا ہے وہ اپنے حصے کی ذمہ داریاں اٹھانے کی تیاری کر رہے ہیں۔ اس موقع پر اپنی شکست کو ایک احتجاجی تحریک میں بدلنے کی کوشش جمہوری و آئینی حوالے سے ناقابل قبول ہو گی۔ نتائج پر اعتراض ثبوت مانگتا ہے اگر کسی کے پاس ثبوت ہیں تو اسے الیکشن کمشن سے رجوع کرنا چاہیے ناکہ قوم کا وقت ضائع کرنے پر بضد رہا جائے۔